ایک اور کائنات چاہئے

March 15, 2023

ہر سال جب اکیڈمی ایوارڈز کا اعلان ہوتا ہے تو میں آسکر جیتنے والی بہترین فلم ضرور دیکھتا ہوں، اِس مرتبہ یہ ایوارڈ ایک ایسی فلم کو دیا گیا ہے جس کی کہانی خاصی پیچیدہ ہے ، فلم کا نام ہے Everything Everwhere All At Once۔فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایولین ایک چینی نژاد امریکی ہے جس کی عمر پچاس برس کے قریب ہے، لانڈری کا کاروبار چلانے کی کوشش کر رہی ہے، اُس کے شوہر کا نام ویمنڈ ہے ۔ایولین اپنی بیٹی جوئے کے بارے میں فکر مند ہے کیونکہ وہ ہم جنس پرست ہے اور ایک سفید فام لڑکی سے محبت کرتی ہے۔چینی سالِ نوکے موقع پر ایولین کو محکمۂ انکم ٹیکس سے بلاوا آتاہے کہ اُس کے کاروبار کی چھان پھٹک کی جائے گی ، وہ اپنے باپ اور شوہر کے ساتھ ٹیکس کے دفتر جاتی ہے ۔جب وہ تینوں دفتر کی عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو اچانک اُس کا شوہر ویمنڈ عجیب و غریب طریقے سے برتاؤ کرنا شروع کردیتا ہے اور اُس کی شخصیت تبدیل ہوجاتی ہے ، یوں لگتا ہے جیسے اُس کے جسم میں کسی اور کی روح حلول کرگئی ہو۔ وہ ایولین کے کانوں میں کسی قسم کا آلہ لگاتا ہے اور پھر اسمارٹ فون پر کوئی پروگرام چلاتا ہے جسے دیکھ کر ایولین کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ، اُس کی پوری زندگی کسی فلم کی جھلکیوں کی طرح سامنے چلنے لگتی ہے۔یہاں سے فلم میں حیرت انگیز موڑ آتا ہے ، اُس کا شوہر ویمنڈ ، جس کی شخصیت غیر معمولی انداز میں تبدیل ہوچکی ہے ،ایولین کو بتاتا ہے کہ اُس نے اپنی زندگی میں جوبھی فیصلے کئے تھے اُن فیصلوں نے کئی متبادل حقیقتوں کو جنم دیا ہے اور اُن میں سے ایک حقیقت اُس کے شوہر کی تبدیل شدہ شخصیت ہےجس کا نام الفا ویمنڈ ہے کیونکہ اُس کا تعلق ایک دوسری کائنات سے ہے جس کا نام الفا کائنات ہے اور یہ وہ کائنات ہے جس نے پہلی مرتبہ کسی دوسری کائنات سے رابطہ قائم کیا ہے ۔یہاں سے فلم کی کہانی مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے اور کائناتی گتھیوں میں الجھتی چلی جاتی ہے جسے سمجھنے کے لئے دماغ پر خاصا زور ڈالنا پڑتا ہے ۔ ویسے تو فلم میں میاں بیوی کی طلاق کا مسئلہ بھی دکھایا گیاہےمگر اِس بات کاامکان کم ہے کہ فلم پاکستانی خواتین وحضرات کو پسند آئے گی کیونکہ ہم لوگ جس کائنات میں رہتے ہیں اُس میں جب تک فلم میں ناگن ڈانس نہ دکھایا جائے، فلم کامیاب نہیں ہوتی۔

اِس قسم کی فلمیں اورفلسفہ ذہن کو جھنجھوڑکر رکھ دیتے ہیں ، انسان کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے ،دماغ میں بہت سے نئے سوالات جنم لیتے ہیں ، پرانے تصورات باطل لگنے لگتے ہیں ،کائنات کے اسرار جاننے کی تڑپ بڑھ جاتی ہے اوریوں لگتا ہے جیسےیہ کائنات لامحدود ہے ۔مگر جب ہم کائنات کو لامحدود کہتے ہیں توپھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہمزاد کہاں ہیں کیونکہ اگر کائنات لا محدود ہے تو پھر لا محدود دنیائیں بھی ہوں گی اور اگر لا محدود دنیائیں ہوں گی تو لا محالہ ہماری جیسی دنیا بھی ہوگی ، ہمارے جیسی دنیا ہوگی تو اُس میں ہم بھی ہوں گے یعنی ہمارا کوئی ہمزاد ہوگا اور ایسا اگرہوتا تو اب تک اُس ہمزادسے ملاقات ہوجاتی۔یہ اِن فلموں کا فلسفیانہ پہلو ہےجو یقیناً بے حد متاثر کُن ہے مگراِس کے علاوہ بھی ایسی فلموں میں ایک پیغام پوشیدہ ہوتاہے کہ دنیا وہ نہیں ہے جو ہم اپنی نظروں سے دیکھتے ہیں ،دنیا کو محض ذاتی زندگی کے تجربات کی روشنی میں نہیں سمجھا جا سکتا ،اِس دنیا میں سات ارب انسان بستے ہیں اور اُن تمام انسانوں کا زندگی کے بارے میں تجربہ مختلف ہے ، یہ ممکن نہیں کہ ہم کسی ایک انسان کے تجربے کی بنیاد پر زندگی کی حقیقت کو جان سکیں ۔ ہم جیسے معاشروں میں رہنے والوں کا المیہ یہ ہےکہ ہم نہ صرف کسی ایک نظریے پر جامد ہوجاتے ہیں بلکہ اُس کی حفاظت کے لئے مرنے مارنے پر بھی آمادہ رہتے ہیں۔

بعض دوستوں کا خیال ہے کہ فلموں کو کالموں کا موضوع نہیں بنانا چاہئے، اب اُن سے کیا عرض کروں، فلم تو بہانہ ہے بات کرنے کا، جو بات ہم کہنا چاہتے ہیں وہ لکھ نہیں سکتے اور جو لکھ سکتے ہیں اسے بھی سات پردوں میں چھپاکر کسی فلم کی کہانی کی اوٹ میں لکھنا پڑتا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی اکثریت اپنےانداز فکر کو الہامی سچ سمجھتی ہے اور اُس سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ زیادہ گمراہی کا سبب بن رہے ہیں،ان پڑھ بیچارہ تو دوسروں کا محتاج ہوتا ہے،دانشور خطرناک ہوتا ہے جو اِس قدرتیقن سے بات کرتا ہےکہ گمان ہوتاہے جیسے یہ سچ اُس پر براہ راست آسمان سے اترا ہے۔دنیا میں عجیب و غریب موضوعات پر فلمیں بنائی جاتی ہیں ، نت نئے انداز میں افسانے لکھے جاتے ہیں ، باغیانہ مصوری کی جاتی ہے ،اسی کو فنون لطیفہ کہتے ہیں ، یہی آرٹ ہے ، اسی کا نام تخلیق ہے ۔ہمارے ہاں اگر کوئی ہمت کرکےذرا سی بولڈ فلم بنانے کی جرأت کر ہی بیٹھے تو ہم اُس پر لٹھ لے کر پِل پڑتے ہیں کہ اِس نے ہماری مذہبی اور اخلاقی اقدارکا جنازہ نکال دیا، ہندوستان میں آج کل ہر دوسری فلم میں ہم جنس پرستی کو موضوع بنایا جاتا ہے ، کیا اُن کی ڈیڑھ ارب کی آبادی یہ فلمیں دیکھ کر ہم جنس پرست ہوگئی ہے؟ مجھے اندازہ ہے کہ اِس واحد جملے سے بھی یار لوگوں کو تکلیف ہوگی کہ میں ایل جی بی ٹی کے ایجنڈے کی حمایت کر رہا ہوں ۔ اب اِس حمایت کا بھی لطیفہ سن لیں، ایک صاحب جو خود کو ایل جی بی ٹی کا مخالف کہتےہیں، اگلے روز انہیں کسی کالج میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا، فرما رہے تھے کہ اگر ہم جنس پرستی ٹھیک ہوتی تو اب تک پوری دنیا ہم جنس پرست کیوں نہیں ہوگئی ۔سبحان اللہ، بندہ اِس ’دلیل ‘ کے بعد سوائے اِس کے کیا کہہ سکتا ہے کہ’ ’روئیے زار زار کیا، کیجیے ہائے ہائے کیوں!‘‘یہ حال ہوچکا ہے ہمارے معاشرے کا جہاں Everything Everwhere All At Once ہی زوال پذیر ہے ، دل کرتا ہے کسی اور کائنات میں ہجرت کر جائیں!