’’سیاست‘‘ بمقابلہ ریاست

March 21, 2023

ویسے تو شروع سے ہی عمران خان اور ان کی جماعت کی ’’سیاست‘‘ نرالی رہی ہے۔ لیکن اب تو انہوں نے سیاست کے رجحانات ہی تبدیل کردیئے ہیں۔ ناچ گانوں، سیاسی مخالفین کو سرعام بدنام اور رسوا کرنے اور بدترین سیاسی انتقام سے ابتداکی گئی اور اب ریاست اور قانون کو للکارتے ہوئے ملک میں دھڑلے سے عدم استحکام پیدا کیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک میں اس وقت تک معاشی استحکام نہیں آ سکتا جب تک سیاسی استحکام نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں ان کو نہ ریاست کی پروا ہے نہ قانون کا احترام ہے اور نہ ہی قوم کی فکر ہے بلکہ وہ ملک کے سری لنکا بننے کی پیش گوئیاں کررہے ہیں اور اب تو وہ امام خمینی بننے اور انقلاب ایران کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ ان کے ارادے بالکل واضح ہیں۔ ابھی زمان پارک کے واقعہ کو دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس پر یلغار کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کے سامنے ریاست اور قانون کتنا بے بس ہے اور وہ اتنے طاقتور ہیں کہ جب بھی اور جہاں بھی ،جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ زمان پارک لاہور میں جس طرح قانون نافذ کرنے والوں پر حملہ کیا گیا، وہ کسی طور درست نہیں تھا، ایک اعلیٰ پولیس افسر اور متعدد پولیس افسر اور اہلکار شدید زخمی ہوئے جب کہ وہ نہتے تھے اور ایک عدالتی حکم کی تعمیل کرانے گئے تھے۔ جب سیاسی کارکنوں کے نام پر شر پسندوں نے ان پر حملے شروع کئے تو ان کی مدد اور جانوں کو بچانے اور بلوائیوں کو روکنے کے لئے پولیس کی مزید نفری اور محدود تعداد میں رینجرز اہلکاروں کو طلب کیا گیا تو ان کے وہاں پہنچنے پر سیاسی کارکنوں نے ان پر بھی حملے کئے۔ حتیٰ کہ پیٹرول بموں کا استعمال بھی کیا گیا، جس سے نہ صرف مزیدسرکاری اہلکارزخمی ہوئے بلکہ متعددسرکاری گاڑیوں کو بھی آگ لگ گئی ۔ لیکن یہ سب کچھ نظر انداز کرتے ہوئے عدالتی حکم جاری کیا گیا جس کے مطابق پولیس کو زمان پارک سے جانا پڑا۔

میری مرضی میرا قانون کی سوچ کے مطابق جب بڑی تعداد میں انہی لوگوں کو ساتھ لے کر ایک قافلے کی صورت میں اسلام آباد میں مرضی کی جگہ پر عدالت لگوا کر جوڈیشل کمپلیکس پہنچے تو قانون کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ سب لوگ زبردستی عدالتی احاطے میں گھس کر عدالت کے اندر جانے کی کوشش کرنے لگے جس کی وجہ سے اسلام آباد پولیس کو مجبوراً آنسو گیس کا استعمال کر کے ان بلوائیوں کو روکنا پڑا۔ حیرت انگیز طور پران شر پسندوں کی طرف سے بھی آنسو گیس کے شیل پولیس پرپھینکے گئے۔ یہ بات قابل تشویش ہے کہ عام شہریوں کو آنسو گیس کے شیل اور اسلحہ کس نے اور کیسے فراہم کیا؟ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کے اندر ریاست کے قیام کا منظم منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے۔ اس سارے واقعہ میں زمان پارک کی طرح وہاں بھی عمران خان خود موجود تھے اور وہاں بھی ان کے سامنے ریاست سے مقابلہ ہوتا رہا۔ پی ٹی آئی کی خواتین بھی کیمروں کے سامنے فخریہ انداز میں پولیس کے ساتھ بدتمیزی کرتی رہیں۔ اس دوران پنجاب پولیس نے مقامی عدالت کی اجازت سے زمان پارک میں سرچ آپریشن کیا اور اسلحہ سمیت پیٹرول بم اور اس میں استعمال ہونے والی اشیا برآمدکیں۔ اس سے پہلے جب پولیس نے تلاشی کیلئے عمران خان کی رہائش گاہ کے اندر جانے کی کوشش کی تو مبینہ طور پر گھر کے اندر سے پولیس پر فائرنگ اور پتھرائو کیا گیا جب کہ پولیس اہلکار غیر مسلح تھے۔ لیکن پھر بھی پولیس اندر داخل ہوئی تو وہاں موجود شر پسند جو افغانی بتائے جاتے ہیں، کو حراست میں لے لیاگیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ عمران خان کے گھر میں کیسے اور کیوں رہائش پذیر تھے؟یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اس آپریشن کے بعد زمان پارک کو نام نہاد کارکنوں سے خالی کرایا گیا اور آئندہ یہ علاقہ پھر نوگو ایریا نہیں بنایا جا سکے گا۔ لیکن اسلام آباد کی عدالت میں بغیر پیش ہوئے اور اپنی پسند کا فیصلہ لے کر عمران خان انہی ’’کارکنوں‘‘ کے ساتھ واپس زمان پارک پہنچے تو اس علاقے کو پھر سے نوگو ایریا بنا کر ان لوگوں نے دوبارہ قبضہ کرلیا۔ اس دوران وہاں سے گزرنے والے پولیس اہلکار وںکو تشدد کا نشانہ بنایا اور رات گئے وہاں سے گزرنے والی پولیس موبائل وین کو روک کر ہلہ بول دیا۔ پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنا کر سرکاری اسلحہ چھین لیا اور موبائل وین کا ملبہ بنا کر اسے نہر میں پھینک دیا گیا۔ یہ کیسا ملک اور کیسا قانون ہے؟ یہ کون سی سیاست ہے کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں جب کہ ملک بدترین عدم استحکام سے دوچار ہے اور سب خاموشی کے ساتھ تماشا دیکھ رہےہیں ۔

شاید پہلی بار گاڑی میں بیٹھے ہوئے ملزم ،جس پر کہ فرد جرم عائد ہونا تھی، کی عدالتی عملہ بھیج کر گاڑی میں ہی حاضری لگوائی گئی جب کہ ملزم عدالت میں حاضر ہی نہیں ہوا۔ اور ملزم کے ساتھ آئے لوگوں نے عدالتی احاطے کو تماشا گاہ بنالیا۔ اس دوران عدالتی فائل بھی غائب کر دی گئی جو سوالیہ نشان ہے۔ عدالتوں کی طرف سے مسلسل اور ناقابل یقین ریلیف نے ان لوگوں کے حوصلے اتنے بڑھادیئے ہیں کہ انہوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا کر قانون کو گھر کی باندی سمجھ لیا ہے۔ زمان پارک میں عسکری اداروں کی اعلیٰ قیادت اور اہم شخصیات کے بارے میں نازیبا اور توہین آمیز نعرے لگائے گئے جو ریاست کیلئے کھلا چیلنج ہے۔ کیا دنیا کے کسی ملک میں اس کی اجازت ہے؟ اب تو اداروں کو آگے آکر ملک کو بچانا چاہئے اور راست اقدام کرنے کیلئے ایسے افراد اور نظام سے ملک و قوم کو نجات دلانی چاہئے۔ توقع ہے کہ قانون کی خلاف ورزی اب مزید برداشت نہیں کی جائے گی۔