تجارتی خسارے میں نمایاں کمی

March 22, 2023

کسی بھی ملک کی پائیدار صنعت و تجارت اس کے معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ 75 برسوں کے دوران وطن عزیز میں اس بات کا فقدان غالب رہا اور ابتدا سے ترقی پذیر کہلائے جانے والی معیشت آج بھی اپنے ماتھے پر یہی جھومر سجائے ہوئے ہے۔ بعض مواقع پر حوصلہ افزا حالات بھی دیکھنے کو ملے تاہم عدم سیاسی استحکام نے انھیں ہر مرتبہ ناکام بنایا۔ ہر آنے والی حکومت نے معاشی فیصلے اپنی مدت تک محدود رکھے اور ملک چلانے کیلئے قرضوں پر قرضے لئے جاتے رہے۔ کمزور پالیسیوں اور غلط اہداف سے معاشی ڈھانچہ کمزور ہوتا چلا گیا ۔ آج پاکستانی کرنسی خطے کے ملکوں میں پست ترین سطح پر شمار ہورہی ہے جس سے غیر ملکی قرضوں کا حجم بڑھا اور قرض دینے والے ادارے اور ممالک ان کی واپسی بروقت اور یقینی بنانے کیلئے اپنی شرائط کڑی سے کڑی کرتے جارہے ہیں ۔ آئی ایم ایف سےسات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے تحت قرضے کی نئی قسط کے حصول کے حوالے سے جہاں گذشتہ چند ہفتوں کے دوران حکومت کوتوانائی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرتے ہوئے ملک کے 70 فیصد سے زیادہ کمزور اور تنخواہ اور دیہاڑی دار طبقے پر غیر معمولی معاشی دباؤ ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا ، انہی میں ایک شرط تجارتی خسارہ ختم نہ سہی کم سے کم کرنا باقی ہے تاہم یہ اقدام معیشت کے بہتر مفاد میں ہے ۔ اسٹیٹ بنک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ماہ فروری کے دوران ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 68 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔ گذشتہ برس جولائی میں اسکا حجم 12 ارب ڈالر پلس کے ہندسوں میں تھا جو حالیہ دنوں میں تین ارب پلس کی سطح پر آچکاہے۔ اس حوصلہ افزا صورتحال کے پیچھے مجموعی درآمدات میں 24 فیصد کمی بتائی گئی ہے ۔ معاشی اصلاحات کا سلسلہ آگے بڑھانے میں کافی گنجائش موجود ہے تاہم غریب، تنخواہ اور اجرت دار طبقہ اس کی بڑی قیمت ادا کرچکا ہے ، حکومت کو اس سلسلے میں معاشی سرچ آپریشن کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔