سینیٹ کمیٹی کا بجلی بریک ڈاؤن کی تحقیقات سے متعلق شدید اظہار برہمی

March 22, 2023

سینٹ کی قائمہ کمیٹی پاور کا اجلاس اسلام آباد میں سیف اللّٰہ ابڑو کی زیر صدارت ہوا۔

کمیٹی اجلاس میں 23 جنوری کو ہونے والے بریک ڈاؤن کی تحقیقات پر پیشرفت اور ذمہ داری عائد نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا گیا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ بلیک آؤٹ پر وفاقی کابینہ کی ہدایات پر عملدرآمد کیلئے 27 مارچ کو اجلاس ہو گا۔

دوران اجلاس سینیٹر احمد عمر زئی نے کہا کہ بلوچستان میں کسانوں کو بجلی نہیں مل رہی، صوبے میں کسانوں کو 6 گھنٹے یومیہ بجلی دینا زیادتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے پیٹرولیم مصنوعات پنجاب میں اسمگل ہورہی ہیں، چند گھنٹے بجلی دینے کے باعث لوگوں نے 2،3 ٹیوب ویل لگوالیے ہیں۔

اجلاس میں سی ای او کیسکو نے کہا کہ کیسکو ریجن میں 6 گھنٹے کےلیے بجلی دی جارہی ہے، ادارے کا گردشی قرض 550 ارب روپے ہے۔

سی ای او کیسکو کے مطابق بل ریکوری 30 فیصد سے زیادہ نہیں ہے، 2015 میں طے ہوا کہ سبسڈی کی رقم بلوچستان اور وفاقی حکومت نے ادا کرنی تھی۔

سی ای او کیسکو نے مزید کہا کہ ہر مہینے 5 ارب روپے گردشی قرضے میں لا رہے ہیں، صارفین صرف10 ہزار روپے ماہانہ دیتے ہیں ۔

سی ای او کیسکو نے یہ بھی کہا کہ ٹیوب ویل چلانے سےواٹر ٹیبل 1ہزار سے00 12 فٹ نیچےچلاگیا ہے۔

جوائنٹ سیکریٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ سولر ٹیوب ویل کےلیے ایک مشترکہ وزارتی کمیٹی قائم کی گئی ہے ۔

اجلاس میں حکام نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی تجویز ہے کہ ڈسکوز صوبوں کے حوالے کر دی جائیں، صوبائی حکومتوں ذمہ داری لیں تو بجلی چوری کم ہو سکتی ہے۔

سی ای او کےالیکٹرک نے کہا کہ کےالیکٹرک کی بلوچستان میں ٹیوب ویل سے ریکوری 15 فیصد ہے، ہمارے میٹر توڑ دیے جاتے ہیں، ہمارے پاس بھی بجلی بند کرنے کا سوا چارہ کار نہیں ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آپ کی کمپنیوں کے بورڈ کیا اقدامات لے رہے ہیں، آپ اتنے بڑے افسران نے اس نقصان کو روکنےکےلیے کیا ایکشن لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئے بااختیار بورڈ قائم کرنے کیلئے کام کیا جا رہا ہے۔

جوائنٹ سیکریٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ بورڈ کیخلاف وزارت کوئی ایکشن نہیں لے سکتی۔

چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ آپ نے غلط لوگ بورڈ میں لگائے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں ہم ایکشن نہیں لے سکتے، ڈسکوز کے بورڈز کیخلاف تحقیقات کا معاملہ ایف آئی اے کے حوالے کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پاور ڈویژن نے غلط لوگ بورڈ میں تعینات کیے اب اس کی تحقیقات ایف آئی اے کرے گی۔