تھر میں اندھیرا کیوں؟

March 23, 2023

تھر کا صحرا ملک کے انتہائی پس ماندہ علاقوں میں شامل ہے لیکن گزشتہ عشرے میں یہاں کوئلے کے وسیع ذخائر کی دریافت نے اس کی ترقی کی راہیں کشادہ کردی ہیں۔ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے مطابق کوئلے کے ان ذخائر کی مقدار کا اندازہ 175 ارب ٹن لگایا گیا ہے جس کی مالیت سعودی عرب اور ایران کے تیل کی مجموعی مقدار یعنی 50ارب ٹن کی مالیت سے بھی زیادہ ہے۔ اس کوئلے سے بجلی ہی پیدا نہیں کی جارہی بلکہ تیل اور گیس کی پیداوار کے لیے پٹرو کیمیکل کمپلیکس کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔ کوئلے سے چلنے والے پانچ بجلی گھر جو تین ماہ قبل پیداوار شروع کر چکے ہیں ، اس وقت نیشنل گرڈ کو 2300میگاواٹ بجلی فراہم کررہے ہیں ۔تاہم ملک میں اجالا پھیلانے والا صحرائے تھر آج بھی اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے کیونکہ اس کے بجلی گھروں سے اس کے مکینوں کو روشنی فراہم نہیں کی جا رہی جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق تھر کے تمام گاؤں جن کی تعداد تقریباً دو ہزار ہے صرف پچاس میگاواٹ بجلی سے روشن کیے جاسکتے ہیں۔ سوا دو ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی میں سے تھر کے مکینوں کے لیے پچاس میگاواٹ بجلی کا بھی مختص نہ کیا جانا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ مقامی آبادی کے ساتھ یہ ویسا ہی غیر منصفانہ رویہ ہے جو بلوچستان میں سوئی کے مقام پر دریافت ہونے والی قدرتی گیس کے معاملے میں مقامی لوگوں کے ساتھ روا رکھا گیا۔ انصاف کی رو سے کسی علاقے کے وسائل پر پہلا حق مقامی آبادی کا ہوتا ہے۔اس کے برخلاف طرز عمل صریح زیادتی اور نا انصافی ہے جس پر علاقے کے لوگوں میں منفی ردعمل کا ابھرنا بالکل فطری بات ہے۔ لہٰذا تھر کے تمام گھروں کو جلد ازجلد بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جانی چاہیے نیز تھر کے تمام ترقیاتی منصوبوں میں علاقے کے باسیوں کو حسب صلاحیت روزگار کی فراہمی میں ترجیح دی جانی چاہئے۔