صدر کا خط تحریکِ انصاف کا پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے: وزیرِ اعظم

March 26, 2023

—فائل فوٹو

وزیرِاعظم شہباز شریف نے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خط کو یک طرفہ اور حکومت مخالف قرار دے دیا اور جوابی خط میں کہا ہے کہ آپ کا خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں، یہ تحریکِ انصاف کا پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے صدر عارف علوی کو 5 صفحات اور 7 نکات پر مشتمل جوابی خط لکھ دیا۔

خط میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے لکھا ہے کہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کا خط یک طرفہ اور حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ حکومت مخالف خیالات کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں، آپ کا خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں، آپ مسلسل یہی کر رہے ہیں، آپ نے قومی اسمبلی کی تحلیل کر کے سابق وزیرِ اعظم کی غیر آئینی ہدایت پر عمل کیا۔

وزیرِ اعظم کا خط میں کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیر آئینی قرار دیا، آرٹیکل 91 کلاز 5 کے تحت میرے حلف پر بھی آپ آئینی فرض نبھانے میں ناکام ہوئے، کئی مواقع پر آپ منتخب آئینی حکومت کے خلاف فعال انداز میں کام کرتے آ رہے ہیں۔

شہباز شریف کا خط میں کہنا ہے کہ میں نے آپ کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ کی پوری کوشش کی، خط میں آپ کے لب و لہجے کے سبب آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آپ کا حوالہ ایک جماعت کے سیاستدانوں اور کارکنوں سے متعلق ہے۔

ان کا خط میں کہنا ہے کہ آئین کے تحت آئین اور قانون کا مطلوبہ تحفظ ان تمام افراد کو دیا گیا ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ریاستی عمل داری کے لیے ضابطوں پر سختی سے عمل کیا، تمام افراد نے قانون کے مطابق داد رسی کے مطلوبہ فورمز سے رجوع کیا ہے۔

خط میں وزیرِ اعظم نے لکھا ہے کہ جماعتی وابستگی کے سبب آپ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کو فراموش کر دیا، آپ نے نجی و سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ اور افراتفری کی کوششوں کو نظر انداز کر دیا۔

شہباز شریف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی ملک کو معاشی ڈیفالٹ کے کنارے لانے کی کوششوں آپ نے نظر انداز کر دی، پی ٹی آئی کی وجہ سے آئین، انسانی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سے متعلق پاکستان کی عالمی ساکھ خراب ہوئی۔

وزیرِ اعظم نے خط میں لکھا ہے کہ آپ کی جانب سے بطور صدر عمران خان کی عدالتی حکم عدولی اور تعمیل کرانے والوں پر حملوں کی مذمت نہیں کی گئی، عدالتی حکم پر کسی سیاسی جماعت کی ایسی عسکریت پسندی کبھی نہیں دیکھی گئی، ہماری حکومت آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق آزادیٔ اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے، یہ آزادی آئین اور قانون کی حدود و قیود میں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

خط میں وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو آپ نے کبھی اِس پر آواز بلند نہیں کی، آپ کی توجہ ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ ورلڈ رپورٹ 2022ء کی طرف دلاتا ہوں، 2022ء میں پی ٹی آئی اقتدار میں تھی، اس رپورٹ میں ہے کہ حکومت پاکستان کے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کر چکی ہے۔

صدر کو جوابی خط میں وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اختلافِ رائے کو کچل رہی ہے، رپورٹ میں صحافیوں، سول سوسائٹی، سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کی تمام تفصیل موجود ہے، رپورٹ میں صحافیوں، سول سوسائٹی، سیاسی مخالفین کو قید و بند اور نشانہ بنانے کی تفصیل ہے۔

انہوں نے خط میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں انسانی حقوق کا قومی کمیشن معطل رہا، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پی ٹی آئی کی حکومت پر فردِ جرم ہے، عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹس میں پی ٹی آئی کی حکومت کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف کا خط میں کہنا ہے کہ رکنِ قومی اسمبلی رانا ثناء اللّٰہ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا جس کی سزا موت ہے، مرد و خواتین ارکانِ پارلیمان کو قید و بند اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا گیا، ایک سابق وزیرِ اعظم کے خاندان کی خاتون رُکن کو بھی معاف نہ کیا گیا، سیاسی مخالفین کا صفایا کرنے کے لیے نیب کو استعمال کیا گیا، افسوس بطور صدرِ پاکستان آپ نے ایک بار بھی کسی بھی واقعے پر آواز بلند نہ کی۔

صدر کو لکھے گئے خط میں شہباز شریف نے کہا ہے کہ آپ بطور صدر اِن خلاف ورزیوں پر اُس وقت کی حکومت سے پوچھ سکتے تھے، آپ کے خط کا جواب اسی لیے دے رہا ہوں تاکہ آپ کے یک طرفہ رویے کو ریکارڈ پر لاؤں۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے خط میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے آپ نے پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دے دی، آپ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ 2023ء کے حکم سے مسترد کر دیا، آپ نے 2 صوبوں میں بدنیتی پر مبنی اسمبلیوں کی تحلیل پر کوئی تشویش تک ظاہر نہ کی، یہ سب آپ نے چئیرمین پی ٹی آئی کی انا اور تکبر کی تسکین کے لیے کیا۔

انہوں نے خط میں کہا ہے کہ صوبائی اسمبلیاں آئینی مقصد کے لیے نہیں، وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے تحلیل کی گئیں، یہ بھی نہ سوچا کہ دو اسمبلیوں کے پہلے الیکشن سے نیا آئینی بحران پیدا ہو گا، آرٹیکل 218 کلاز 3 کے تحت شفاف، آزادانہ، غیر جانبدارانہ انتخابات کے تقاضے بھی فراموش کر دیے گئے، آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو آپ نے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جو نہایت افسوس ناک ہے۔

شہباز شریف کا خط میں کہنا ہے کہ آپ کا یہ طرزِ عمل صدر کے آئینی کردار کے مطابق نہیں، الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر 2023ء کو پنجاب میں انتخابات کرانے کی تاریخ دی ہے، تمام وفاقی اور صوبائی اداروں نے متعلقہ اطلاعات الیکشن کمیشن کو مہیا کی ہیں، الیکشن کرانے کی ذمے داری آئین نے الیکشن کمیشن کو سونپی ہے، الیکشن کمیشن نے طے کرنا ہے کہ شفاف و آزادانہ انتخاب کے لیے سازگار ماحول موجود ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ صدر نے خط میں سابق وفاقی وزراء کے جارحانہ رویے اور اندازِ بیان پر اعتراض نہیں کیا، سابق حکومت کے وزراء مسلسل الیکشن کمیشن کے اختیار اور ساکھ پر حملے کر رہے ہیں، آئین کے آرٹیکل 46 اور رولز آف بزنس کی شق 15 پانچ بی کی صدر کی تشریح درست نہیں، صدر اور وزیرِ اعظم کے درمیان مشاورت کی آپ کی بات درست نہیں۔

وزیرِ اعظم نے خط میں مزید کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 48 کلاز 1 کے تحت صدر کابینہ یا وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر کام کرنے کے پابند ہیں، صدر کو مطلع رکھنے کی حد تک اس کا اطلاق ہے، نہ زیادہ نہ اس سے کم، وفاقی حکومت کے انتظامی اختیار کے استعمال میں وزیرِ اعظم صدر کی مشاورت کے پابند نہیں، جنابِ صدر! میں اور وفاقی حکومت آئین کے تحت اپنی ذمے داریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں۔

صدرِ مملکت کو جوابی خط میں وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ ہم آئین کی مکمل پاسداری، پاسبانی اور دفاع کے عہد پر کاربند ہیں، ہم آئین میں درج ہر شہری کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ پر بھی کاربند ہیں، حکومت پُر عزم ہے کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جائے اور ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کی اجازت نہ دی جائے، یقین دلاتا ہوں کہ آئینی طور پر منتخب حکومت کو کمزور کرنے کی ہر کوشش ناکام بنائیں گے۔

واضح رہے کہ صدرِ مملکت عارف علوی نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو 24 مارچ کو خط لکھا تھا۔