آئینی بالادستی اور سیاست میں انقلاب

March 27, 2023

یہ ایک بہت بڑی خبر ہے کہ بھارت کی ایک عدالت نے کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کو ہتک عزت کیس میں دو سال کی سزا سنا دی ہے اور بھارتی پارلیمنٹ ( لوک سبھا) نے اس فیصلے کے بعد راہول گاندھی کو لوک سبھا کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا ہے ۔ راہول گاندھی پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے 2019 ء میں الیکشن مہم کے دوران ایک بیان دیا تھا کہ ’’ جس کا نام مودی ہے ، وہ چور ہے ‘‘ ۔ پاکستان میں تو سارے سیاست دان ایک دوسرے کو چور کہتے رہتے ہیں لیکن یہاں کسی کو سزا نہیں ہوئی ۔ میرے خیال میں پاکستان میں بھی ہتک عزت کے قانون پر اسی طرح عمل ہونا چاہئے تاکہ بغیر ثبوت کسی کو چور یا ڈاکو کہنے کا سلسلہ بند ہو اور سیاست کو گالی بنانے کا غیر سیاسی قوتوں کا ایجنڈا ناکام ہو ۔ راہول گاندھی دراصل بھارتی وزیر اعظم کو چور کہنا چاہتے تھے لیکن نریندرمودی کا پورا نام نہیں لیا ۔ صرف مودی کہا ۔ بھارت میں مودی ایک ذات یا خاندانی نام (Surname) ہے ۔ راہول گاندھی کے خلاف کیس بی جے پی کے ایم ایل اے اور سابق وزیر پرنیش مودی نے دائر کیا تھا اور موقف اختیار کیا کہ راہول گاندھی نے ہر مودی کو چور کہہ دیا ہے ۔ میرے خیال میں اگر راہول گاندھی نریندر مودی کا نام لے کر بھی انہیں چور کہتے تو بھی انہیں سزا ہو جاتی کیونکہ وہ ثابت نہیں کر سکتے تھے کہ وہ چور ہیں۔

بھارتی عدالت کے اس فیصلے پر ہم پاکستانیوں کے ذہن میں بہت سی باتیں آسکتی ہیں کیونکہ ہم اپنے حالات کے تناظر میں دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کو دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ ہمارے ذہن میں پہلی بات یقیناً یہ آسکتی ہے کہ بھارت میں چونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کی حکومت ہے اور نریندرمودی وزیر اعظم ہیں ، اس لئے عدالتی فیصلہ راہول گاندھی کے خلاف آیا ہے لیکن ہمارے ذہن میں آنے والی اس بات یا اس قیاس آرائی کی خود راہول گاندھی کے بیانات سے تصدیق نہیں ہوتی کیونکہ پارلیمنٹ سے نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے فوری بعد راہول گاندھی نے جو پریس کانفرنس کی ، اس میں انہوں نے کہیں بھی عدالت کے فیصلے پر تنقید نہیں کی اور یہ تاثر نہیں دیا کہ عدالت نے حکومت یا طاقتور حلقوں کے دباو پر فیصلہ دیا ہےالبتہ انہوں نےصرف پارلیمنٹ سے اپنی نااہلی کا نوٹیفکیشن جلد جاری کرنے پر تنقید کی اور کہا کہ اس نااہلی کی وجہ نریندر مودی کا میری باتوں سے ڈر اور خوف ہے کیونکہ میں نے مودی اور اڈانی گٹھ جوڑ کی بات کی ہے لیکن میں خوفزدہ نہیں ہوں اور سوالات پوچھتا رہوں گا ۔انہوں نے نریندر مودی پر بلا جواز کوئی الزامات نہیں لگائے اور نہ ہی انہیں چور اور ڈاکو کہا ، جیسا کہ ہمارے پاکستان میں ہوتا ہے ۔ پاکستان کی نوجوان نسل کو معلوم ہونا چاہئے کہ راہول گاندھی کوئی معمولی سیاست دان نہیں ۔ وہ بھارت کی خالق جماعت کانگریس کے سربراہ رہے ہیں ۔ وہ نہرو کے سیاسی خانوادے (Political Dynasty ) کے وارث ہیں ۔ بھارت کی آزادی کے بعد سب سے زیادہ حکومت ان کی جماعت نے کی ہے ۔ دنیا کے بڑے عالمی سیاسی رہنماوں کی صف میں راہول گاندھی سب سے زیادہ نمایاں ہونگے ۔ ان کے خلاف عدالتی فیصلہ آیا ہے اور وہ پارلیمنٹ سے باہر ہو گئے ہیں ۔ ہم پاکستانی یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ راہول گاندھی کے خلاف کوئی عالمی سازش ہو رہی ہو گی ، جس طرح ان کی دادی اندرا گاندھی اور باپ راجیوگاندھی کو ختم کرنے کیلئے ہوئی لیکن خود راہول گاندھی نے اپنے بیانات کے ذریعہ کوئی ’’ سازشی بیانیہ ‘‘ نہیں بنایا اور نہ ہی اپنے حامیوں کو اکسایا ۔ راہول گاندھی نے عدالتی فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ انہوں نے ریاستی اداروں کو احترام دیا ہے ۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اب فیصلہ سڑکوں پر ہو گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کے سیاست دان اپنی عدالتوں پر اعتماد کرتے ہیں ۔ وہ شاید اس لئے کہ ان کی نظر میں عدالتیں اس قابل ہیں کہ ان پر اعتماد کیا جائے ۔ انہوں نے فوج اور دیگر اداروں پر سازش کرنے کا الزام اس لئے نہیں لگایا کہ ان کے نزدیک یہ ادارے کسی بیرونی ڈکٹیشن پر سازش نہیں کریں گے ۔ وہاں کے سیاست دانوں کا یہ قابل ستائش رویہ اس لئے ہے کہ وہاں کے اداروں کی غیر جانبداری اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کی روایت قابل ستائش ہے ۔ سازشیں اور منصوبہ بندیاں بھی ہو سکتی ہیں لیکن سسٹم مضبوط ہے اور اس میں بہت کم جھول ہے ۔ مجھے ذاتی طور پر راہول گاندھی کی سزا اور نااہلی پر دکھ ہوا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے ۔ سیاست دان ہوں یا میڈیا یا کوئی بھی عام آدمی ، کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ کسی کو بلا وجہ اور بغیر ثبوت چور یا ڈاکو کہے یا کسی کی پگڑی اچھالے اور اس کی عزت کا تماشا بنائے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تیسری دنیا میں سیاست اور سیاسی اداروں کو ترقی یافتہ ملکوں کی طرح مضبوط ہونا چاہئے لیکن یہاں ہتک عزت کے قانون پر عمل درآمد نہ ہونے سے سیاست دانوں کو گالی دینے کی آزادی ہے اور اس سے سیاست نہ صرف گندی بلکہ کمزور ہوئی ہے ۔ مخالفین کو چور اور ڈاکو کہنا سیاسی جماعتوں کا بیانیہ بن گیا ہے ۔ اگر مغربی ممالک اور بھارت کی طرح ہتک عزت کے قانون پر عمل ہو تو نہ صرف سیاست میں تہذیب اور شائستگی آسکتی ہے اور سیاست ایک مقدس کام تصور کیا جا سکتا ہے ۔ ہتک عزت کے قانون پر عمل سے سیاست میں انقلاب آسکتا ہے ۔ اس الزام تراشی اور گالم گلوچ سے اصل چور اور لٹیرے احتساب سے بچے ہوئے ہیں ۔ بغیر ثبوت کسی پر الزام لگانے والے کا اگر احتساب ہو جائے تو پھر حقیقی کرپٹ لوگوں کا احتساب ہو سکے گا ، جو اب تک نہیں ہوا۔