دو باوقار ادبی تقاریب

March 27, 2023

فروری مارچ میں پاکستان کے مختلف شہروں میں تاریخ کے ریکارڈ ادبی و ثقافتی میلے منعقد ہوئے۔ شاید ان کی ضرورت اسلئے شدت سے محسوس کی گئی کہ ہم بہت تیزی سے بے ادب اور اّن کلچرڈ ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں دلیل کی جگہ گالی اور انحراف و اختلاف کی جگہ گولی سرایت کر چکی ہے۔ لاہور اور کراچی میں عالمی سطح کے ادبی میلے سجتے رہتے ہیں لیکن اس بار صوبائی و ضلعی حکومتوں اور ادبی تنظیموں نے گلگت سے گوادر تک پورے ملک میں یہ رنگ بکھیر کر زندگی کی روشن قدروں کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ان ادبی میلوں کاپرجوش انعقاد دراصل ایک طاقتور اعلان بھی تھا کہ شر، افراتفری، بدتمیزی اور جہالت کے شور اوردھوئیں کو فضا پر قابض نہ ہونے دینے کے طلبگار بھی حرکت میں ہیں۔کہتے ہیں کسی مسئلے یا معاملے کو جتنا بھی نظر انداز کیا جائے یا لٹکایا جائے طویل عرصے بعد اسکی شنوائی کی کوئی صورت نکل ہی آتی ہے۔ اسلام آباد کے دل میں سینکڑوں ایکٹر پر بنا گندھارا سینٹر گزشتہ پندرہ سال سے آئینی زنجیروں میں مقید تھا۔اس سے پہلے کہ جن بھوت اس پر قابض ہوکر اسے خوف کا قلعہ بنا دیتے اس کی سنی گئی یا شاید اسلام آباد کے لوگوں اور پاکستان کے زبان و کلچر کی ترویج کی حقیقی راہ ہموار ہونی تھی اس لئے قدرت نے نور الامین مینگل کو وسیلہ بنایا جن کی شخصیت میںصوفی دانش اور ادب پروری کا رنگ جھلکتا ہے۔ گندھارا سینٹرکے کامران لاشاری مسلسل عملی کاوشوں سے ثقافت کے ذریعے معاشرے میں ترتیب اور توازن کیلئے کوشاں ہیں۔ ثقافت خوبصورتیوں کی تجسیم کا نام ہے۔یہ وہ تحریک ہے جو انسان کی شخصیت میں حُسن کو اجاگر کرکے ماحول کو حسین بناتی ہے۔ پاکستان میں بہت سے اداروں کاقیام ان کی کوششوں کا مرہون منت ہے۔پندرہ سال پہلے جب وہ سی ڈی اے کے چیئرمین تھے تو انھوں نے اسلام آباد میں کئی اور اہم عمارتوں کے ساتھ ساتھ گندھارا سینٹر بنایا جو جدید اور قدیم فن تعمیر کا خوبصورت مرکز ہے۔جب یہ مکمل ہو گیا تو اسکی لوگوں تک رسائی ناممکن بنانے کا عمل شروع ہوگیا کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ کام کرتے ہیں اور کچھ کام نہ کرنے دینے مطلب رکاوٹیں کھڑی کرنے پر مامور ہیں، ایک متنازعہ تحریر نے نہ صرف اس سینٹرپر تالے لگوا دئیے ۔نورالامین مینگل کے زرخیز دماغ نے اس سینٹر کو کھولنے کی تدبیر کی،وفاقی حکومت نے بھرپور ساتھ دیا اور چند دنوں میں اس کی رونمائی کا علمبردار، اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، علمی ادبی لوگوں سے داد وتحسین سمیٹی، عوام کی دعائیں وصولیں جنہیں ہمیشہ یہ گلہ رہتا تھا کہ اسلام آباد میں ادبی میلے کیوں نہیں ہوتے۔تین روزہ میلے کے تمام رنگ حسین تھے۔ تمام زبانوں میںتخلیق ہونے والے پچھتر سالہ ادب پر بات ہوئی۔ ثقافت کو ابھارنے اور ورثے کو سنبھالنے کا اعادہ کیا گیا۔انور مسعود اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید کےسیشن میں سیڑھیوں سمیت ہال بھرا ہوا تھا۔ عہدِ موجود کے ہر دلعزیز اور فلسفی شاعر شاعر افتخار عارف کی صدارت میں پروقارمشاعرہ ہوا جس میں ڈاکٹر توصیف تبسم،ڈاکٹر احسان اکبر، ڈاکٹر خورشید رضوی،انور شعور اور یاسمین حمید جیسے سینئر شاعروں کی شرکت اور محبوب ظفر کی عمدہ نظامت اسے یادگار بنا گئی۔ افتخار عارف صاحب کے سینکڑوں شعر فکری،سماجی،سیاسی اور آفاقی جبر و استحصال کیخلاف مزاحمتی للکار کے باعث ضرب المثل کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔

پاکستان کے قیام کے بعد اردو کو سرکاری زبان بنایا گیا جو لشکری زبان تھی اور جسکے تعارف میں کسی خاص قوم اور علاقے کا تشخص درج نہیں تھا۔ اردو اور مادری زبانوں کے درمیان کشمکش کی وجہ سے انگریزی چھا گئی۔ ضروری ہے کہ اردو اور مادری زبانوں کے درمیان مضبوط رابطے استوار کرنے کیلئے اسلام آباد میں وفاقی سطح کے تمام ادبی و ثقافتی اداروں خصوصاً اکادمی ادبیات میں ہر تین سال بعد مختلف صوبوں کے ایسے لوگوں کا تقرر کیا جائے جو اپنی تقرری کے دوران تمام پاکستانی زبانوں کی ترویج کے ساتھ اپنی مادری زبان پر فوکس کریں تاکہ ہم آہنگی کو حقیقی معنوں میں پروان چڑھایاجاسکے,اسلام آباد ریاست کا صدرمقام ہے۔جس کی خوبصورت زمین کے دلکش رنگ اس لئے کشش کا باعث نہ بن سکے کہ ان میں ادب و ثقافت کی تجلی شامل نہ تھی۔اسے گریڈوں اور تصنع کے کلف نے سحر میں جکڑ رکھا تھا۔صوبائی اکائیوں کے جدا گانہ ثقافتی پھول پاکستانی گلدان میں سجانے سے پاکستان کا کلچر بنتا ہے۔ اب تک یہ تصویر صرف ملی نغموں میں عکس بند ہوئی ذہنوں میں جگہ بنا سکی نہ دل میں۔ اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول سے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ہے۔ان شااللّٰہ اب یہاں میلے لگتے رہیں گے اور یہ شہر پاکستان کا حقیقی معنوں میں نمائندہ بن کر ابھرے گا۔شکریہ نور الامین مینگل صاحب۔