عدالتی اصلاحات بل منظور

April 01, 2023

قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے اپوزیشن کے شدید احتجاج اور شور شرابے کی گونج میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 منظور کرلیا جس کے حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ آئے۔ اپوزیشن نشستوں پر موجود فاٹا اور بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹروں نے بھی حمایت میں ووٹ دیا۔ جمعرات کے روز چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کیا جس میں چیف جسٹس کا سوموٹو (از خود نوٹس) لینے کا اختیار محدود کرنا ، اس حوالے سے بنچوں کی تشکیل اور اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی کو دینا شامل ہے۔ متذکرہ قانون کے تحت نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور جہانگیر ترین سمیت دیگر بھی اپنے خلاف دیے گئے سابقہ فیصلوں کو چیلنج کرسکیں گے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد یہ باقاعدہ ایکٹ آف پارلیمنٹ بن جائے گا ۔ اگر صدر مملکت اس پررائے نہیں دیتے تو یہ 10 روز کے اندر از خود قانون بن جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 183 تین میں سوموٹو ایکشن یا نوٹس کا مقصد سپریم کورٹ کو کسی بھی ایسے واقعہ سے متعلق از خود کارروائی کرنے کا اختیار حاصل ہے جو یا تو مفاد عامہ کا معاملہ ہو یا پھر بنیادی حقوق پامال ہورہے ہوں ، اس صورت میں عدالت عظمیٰ کسی ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کئے بغیر براہ راست کارروائی کرسکتی ہے ۔ایسی کارروائی میں دو قسم کے کیس شامل رہے ہیں ایک وہ جسمیں کوئی درخواست گزار پیٹیشن لے کر جائے اور دوسرا وہ جسمیں عدالت از خود کارروائی کرے۔ اس اختیار کی وجہ سے مفاد عامہ کے کئی معاملات میں عدالتی مداخلت کو سراہا گیا جبکہ بعض مواقع پر سوالات بھی اٹھے۔ حالیہ دنوں میں اچانک پارلیمنٹ سے بل پاس کرانے کی وجہ پنجاب اسمبلی کا الیکشن اور اس کی تاریخ کے تعین سے منسلک ہے اور یہ معاملہ دراصل ایک یا دو صوبوں کا نہیں ، اس کی کڑیاں قومی اسمبلی کے انتخابات سے جاکر ملتی ہیں او اس معاملے پر جب از خود نوٹس لینے کا سوال اٹھتا ہے تو ماضی میں فرد واحد کے کئے جانے والے فیصلوں اور اس حوالے سے قانونی حلقوں کی متضاد آرا اور تحفظات کی روشنی میں لاحاصل بحث وتکرارجنم لیتی ہے ۔ اندریں اثنا وفاقی وزیر قانون نے اس حوالے سے عدالتی اصلاحات کا متذکرہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 27 مارچ کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جس کے مندرجات میں از خود نوٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا اور یہ تجویز شامل تھی کہ از خود نوٹس کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تین سینئر جج کریں گے اور کیس کے فیصلے پر فریقین کو 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق بھی ہونا چاہئے اور یہ کہ اپیل دائر ہونے کے 14 روز کے اندر درخواست سماعت کیلئے مقرر ہوگی جس کیلئے تین رکنی بنچ بیٹھے گا اور اکثریت کا فیصلہ قابل قبول ہوگا۔ بل کی منظوری کے بعد سپریم یا ہائی کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ یادیگر کوئی بھی قانون اس پر اثرانداز نہیں ہوسکے گا۔ وزیر قانون نے بل پیش کرتے وقت یہ حوالہ دیا کہ ماضی میں بعض از خود نوٹس جگ ہنسائی کا سبب بنے ۔ 28 مارچ کو قائمہ کمیٹی اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اگلے روز اسے سینیٹ میں پیش کردیا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ترمیم شدہ قانون کے تحت عدالتی نظام پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہونگے ، قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ اصولی طور پرکوئی بھی قانون پارلیمنٹ سے بحث و مباحثے کے بعد خامیوں سے حتی الوسع پاک ہوکر وجود میں آتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ حسب ضرورت اسمیں ترمیم یا ردوبدل بھی ہوتا رہتا ہے ۔اس کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب کوئی معاملہ اس سے متصادم ہوتا دکھائی دے لیکن اس کا مطمئع نظر بہرحال معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے سے روکنا ہی ہوتا ہے تاہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور انھیں دور کرنے کیلئے خوداحتسابی سے بڑھ کر کوئی قانون نہیں۔