موجودہ بحران: وقتِ دعا ہے!

April 03, 2023

اللّٰہ ہمارے ادارے پر رحم کرے ۔ اللّٰہ ہمارے ملک پر رحم کرے ۔ دعا کے یہ الفاظ سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل کے ہیں ، جو انہوں نے پنجاب ۔ کے پی انتخابات التواء کیس کے بینچ سے الگ ہوتے ہوئے ادا کئے ۔ کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے انہوں نے کئی بار یہ دعا کی ۔ جسٹس جمال مندوخیل کے ساتھ ساتھ پوری قوم کی بھی یہی دعا ہے کہ اللّٰہ عدلیہ سمیت ہمارے تمام اداروں پر رحم کرے ۔ اللّٰہ ہمارے ملک پر رحم کرے ۔ حالات یقیناًاس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے لیکن ہمیں قرآن پاک کی سورۃ الرعد کی آیت 11کے یہ الفاظ نہیں بھولنے چاہئیں کہ ’’ کسی قوم کی حالت اللّٰہ تعالیٰ نہیں بدلتا ، جب تک وہ خود اسے نہ بدلے ۔ جو ان کے دلوں میں ہے ۔ ‘‘ صرف عدلیہ ہی نہیں ، ہمارے سیکورٹی ادارے ، احتساب کے ادارے اور انتظامی ادارے سب بحرانوں کا شکار ہیں ۔ ہماری معیشت بھی بحران کا شکار ہے اور اب آئین اور سپریم کورٹ بھی زد میں ہیں۔ ان کی ساکھ اور عمل داری ( Writ) دائو پر لگی ہوئی ہے اور یہ بات ملک و قوم کے لئے انتہائی تشویش ناک ہے ۔ اداروں کے بحرانوں سے ملک میں جاری سیاسی ، معاشی اور آئینی بحرانوں میں مزید شدت پیدا ہو سکتی ہے ۔ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ ان اداروں کا اپنا کیا دھرا ہے اور ان اداروں کی پالیسیوں کا منطقی انجام ہے لیکن بحیثیت قوم ہم یہ تماشا نہیں دیکھ سکتے ۔ ہمیں اپنے اداروں کو نہ صرف ان بحرانوں سے نکالنا ہے بلکہ ان کی ساکھ اور عمل داری کو بھی بحال کرنا ہے کیونکہ کوئی ملک اداروں کے بغیر نہیں چل سکتا ۔ یہ کام قانون ساز اداروں یعنی پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کو کرنا ہے ۔ یہ کام اداروں میں مرحلہ وار اصلاحات سے ہو سکتا ہے ۔ پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت بھی یہ کام تب کر سکے گی ، جب وہ خود آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے گی ۔ ہم اس طرح کے کئی بحرانوں سے پہلے بھی گزر چکے ہیں ۔ ایک ایسا ہی بحران 1970 ء میں پیدا ہوا ۔ بدقسمتی سے ہم اس بحران سے نبردآزما نہ ہو سکے اور سقوطِ ڈھاکا رونما ہوا ۔ اس سانحہ کے بعد ہم نے یہ سیکھا کہ سیاسی قیادت ہی تباہی کے عمل کو روک کر ملک اور اس کے اداروں کی تعمیر نو کر سکتی ہے ۔ جیسا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کیا ۔ شہید بھٹو نے اپنی صاحبزادی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام موت کی کال کوٹھڑی سے ایک خط لکھا تھا ، جو ’’ میری سب سے پیاری بیٹی ‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوا ۔ اس خط میں شہید بھٹو 1970 ء سے 1972 ء کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ اس ڈیڈ لاک میں یحییٰ خان نے سوچا کہ وہ فوجی کارروائی کرکے عمر بھر کے لئے حکمران بن جائے گا لیکن اس کا فوجی اقدام کسی معقول سیاسی غلاف کے بغیر ہوا اور بھارت کو مشرقی پاکستان میں مداخلت کا بہانہ مل گیا اور آخر کار 16 دسمبر 1971 ء کو سقوط ڈھاکا ہو گیا اور نوے ہزار فوجی بھارت کے قبضے میں چلے گئے ۔ اس وقت میں اقوام متحدہ میں تھا اور یحییٰ خان نے پورا سروے کرنے کے بعد یہ سمجھ لیا تھا کہ اب وہ کچھ حاصل نہیں کر سکتا ۔ اسی لئے خصوصی طیارہ بھیج کر مجھے واپس بلا لیا گیا ۔ یحییٰ نے20دسمبر 1971ء کی صبح ساڑھے دس بجے مجھے کہا کہ میں (یحییٰ) تو سب کچھ ہار چکا ہوں اور بری طرح ناکام ہو چکا ہوں ۔ اب صرف ایک تم (بھٹو ) ہو ، جو ٹوٹے ہوئے پاکستان کو بچا سکتے ہو ۔ ‘‘ پھر وقت نے دیکھا کہ بھٹو نے ٹوٹے ہوئے باقی ماندہ پاکستان کو کس طرح بچایا ۔ شہید بھٹو نے عدلیہ، افواج ، بیورو کریسی اور دیگر اداروں کی تعمیر نو کی ۔ وقت نے یہ بھی دیکھا کہ انہی اداروں نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا اور انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا ۔ بھٹو کی حکومت گرانے کا اقدام تو کبھی تاریخ میں درست قرار نہیں پایا لیکن ان کی پھانسی کا عدالتی فیصلہ بھی آج تک انتہائی متنازع فیصلہ ہے ۔ اسکے باوجود پیپلز پارٹی کی قیادت نے بعد ازاں بھی اداروں کو مضبوط کیا اور ان کے غلط فیصلوں کو بھی تسلیم کیا کیونکہ ادارے مضبوط ہوں گے تو ملک مضبوط ہو گا ۔ پنجاب کے پی انتخابات التواء کیس میں ہماری اعلیٰ عدلیہ کا حالیہ بحران سامنے آیا ، جو کہ کسی بھی وجہ سے سامنے آسکتا تھا ۔ منطقی انجام یہی تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کیس میں عدلیہ کا قصور نہیں ہے۔ حکومت آئین کے تحت اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90روز کے اندر انتخابات کرانے کی پابند ہے ۔ حکومت اگر انتخابات کی تاریخ نہ دے تو پھر آئین پر عمل درآمد کون کرائے گا ؟ اس بات میں وزن ہو سکتا ہے کہ عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرکے مبینہ مخصوص مقاصد کے تحت سیاسی بحران پیدا کیا ۔ یہ بات بھی قابل غور ہو سکتی ہے کہ سیکورٹی ادارے سیکورٹی فراہم نہیں کر سکتے اور بار بار الیکشن کرانے کیلئےپیسے بھی نہیں ہیں لیکن آئین سے انحراف کیلئےایک بار یہ جواز تسلیم کر لئے گئے تو پھر نہ آئین رہیگا ، نہ جمہوریت اور خاکم بدہن نہ ملک۔ سپریم کورٹ کیسے یہ فیصلہ دے کہ آئین سے انحراف کیلئے یہ جواز درست ہیں ۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہماری عدلیہ پر ماضی میں آئین کی اپنی مرضی سے تشریح کرنے کے الزامات ہیں لیکن وہ اگر آج اپنی مرضی کی بجائے آئین کی روح کے مطابق فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو اسے تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے ؟

سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کا یہ بیان قابل افسوس ہے کہ انتخابات التواء کیس کی سماعت کرنے والا نیا تین رکنی بینچ انہیں قبول نہیں ہے تو وہ اس بینچ کا فیصلہ کیسے قبول کریں گے ؟ سیاسی قیادت کو اس طرح کے بیانات نہیں دینے چاہئیں ۔ اگرچہ پوری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ میاں نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کا فیصلہ متنازع ہے لیکن اس کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کو وہ رُکوا نہیں سکے۔ بہتر یہی ہے کہ اداروں سے تصادم کا راستہ اختیار نہ کیا جائے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس عمر عطا بندیال نے سیاسی قیادت کو راستہ دیا ہے کہ وہ مشاورت کریں اور انتخابات کے مسئلے کو مل بیٹھ کر حل کریں ۔ انہوں نے انتخابات کے التواء کے لئے ایک اور بھی راستہ بتایا ہے اوروہ ہے ایمرجنسی کے نفاذ کا ۔ میرے خیال میں یہ راستہ بہت ہی خطرناک ہے ۔ پہلا راستہ درست ہے کہ سیاسی قیادت مشاورت کرے اور انتخابات کے التواء کا کوئی آئینی راستہ تجویز کرے ۔ سیاسی قیادت کو اپنی بصیرت اور تدبر کا مظاہرہ کرنا ہو گا ۔ ادارے اگرچہ اپنے کردار کی وجہ سے اندرونی تضادات اور بحرانوں کا شکار ہیں لیکن ملک کی خاطر ان اداروں کو ان حالات سے نکالنے کی ذمہ داری سیاسی قیادت کی ہے ۔ جس طرح پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور کرکے عدالتی نظام میں اصلاحات کا ایک اقدام کیا ہے،اسی طرح مرحلہ وار دیگر اقدامات بھی کئے جا سکتے ہیں ۔ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی قیادت پارلیمنٹ میں ایسی آئینی ترامیم کر سکتی ہے تاکہ آئندہ ایسے حالات سے نمٹا جا سکے۔