ایردوان بمقابلہ مہنگائی

April 19, 2023

اب جبکہ ترکیہ میں تاریخ کے سب سے بڑے اور اہم انتخابی معرکے، صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں صرف چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں انتخابی مہم اپنے زوروں پر ہے ۔اگرچہ اس بار اس انتخابی مہم میں رقص و موسیقی کو 6فروری کو آنے والے ہولناک زلزلے ،جس میں 50ہزار سے زائد اموات ہوئی ،کی و جہ سے استعمال نہیں کیا جارہا لیکن اس کےباوجود بڑی گرمجوشی سے انتخابی مہم کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر رجب طیب ایردوان گزشتہ بیس سال سے ترکیہ کی تاریخ کے طویل ترین مسلسل حکمراں رہنے والےواحد ترک حکمراں ثابت ہوئے ہیں ۔ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں دفاعی صنعت، پیداوار، ڈرونز، مقامی سیٹلائٹ، مقامی الیکٹرک گاڑیوں ، الیکٹرونک سازو سامان اور سیاحت کے شعبے میں جو کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں ان کی بدولت ان کا نام ترکیہ کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صدر ایردوان نے ترکیہ کو دفاعی لحاظ سے خطے کا سب سے مضبوط اور مستحکم ملک بنادیا ہے اور اب کسی بھی ملک میں اتنی جرات نہیں کہ وہ ترکیہ کو میلی آنکھ سے دیکھ سکےبلکہ اب فرانس ،برطانیہ، جرمنی، اورامریکہ تک کو ترکیہ سے متعلق کوئی بھی قدم اٹھانے سے قبل سو بار سوچنا پڑتا ہے۔ ترکیہ کے قارا باغ میں ڈرونز کے استعمال سے حاصل کردہ فتح، لیبیا میں ترک مسلح افواج کی گرفت، شام اور عراق کی سرحدوں کے اندر دور تک داخل ہو کر فوجی آپریشن کرنے کی صلاحیت نے اور پھر فن لینڈاور سویڈن کی نیٹو کی رکنیت پر ترکیہ کے ردِ عمل اورویٹو نےترکیہ کو وہ مقام دلوادیا ہے جس کے بارے میں اس سےقبل سوچنا بھی ممکن نہ تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ترک سیاست میں صدر ایردوان کے پائے کا کوئی بھی سیاسی لیڈر موجود نہیں اور کسی بھی رہنما میں اتنی سکت نہیں کہ وہ تنہا صدر ایردوان کا مقابلہ کرسکے اور صدر ایردوان کو حاصل ووٹو ںکے لگ بھگ ووٹ حاصل کرسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ ترکیہ کی تمام اپوزیشن جماعتوں نےصدر ایردوان کے خلاف ایک مشترکہ پلیٹ فارم تلے جسے’’ ملت اتحاد‘‘ کا نام دیا گیا ہے صدر ایردوان کو اس بار اقتدار سے ہٹانے کا عزم کیا ہواہے۔ ایک دوسرے سے بالکل متضاد خصوصیات اور نظریات کی حامل ان جماعتوں کے رہنمائوں نے صرف ایردوان کی مخالفت میں یکجا ہو کر اپنے نظریات کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف ایردوان کوشکست سے دوچار کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے ۔ اپوزیشن کاصدر ایردوان کو شکست سے دوچار کرنا کوئی آسان کام نہیں لیکن ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سےایردوان نے خود ہی ان کیلئے آسانی پیدا کردی ہے۔ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ صدر ایردوان کا مقابلہ ان رہنمائوں سے نہیں بلکہ مہنگائی سے ہے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اس دفعہ ان انتخابات میں فیصلہ کن کردارا دا کرے گی۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہ ایردوان کے دور میں ترکیہ میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے پہلے ترکیہ میں ایسی ترقی ممکن ہی نہ تھی، یعنی دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ ترکیہ اس وقت نہ صرف ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوچکا ہے بلکہ کئی ایک شعبوں میں ان سے آگے بھی نکل چکا ہے لیکن ترک عوام کی اکثریت اس ترقی کے باوجود خوش نہیں ہے کیونکہ وہ ان ترقی یافتہ ممالک کے عوام کے معیار زندگی سے بہت کم تر معیارپر زندگی بسر کرنے پر مجبورہیں ۔ ترک عوام کا اس وقت نصف سے بھی زائدحصہ غربت کی لکیرسے نیچے بے بسی و کسمپرسی میں زندگی بسرکررہا ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک ترک خاتون کا بیان’’ غیر ملکیوں کیلئےترکیہ جنت بن چکا ہے اورلاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح ترکیہ کی سیر کو آرہے ہیں اور اپنے پیچھے ترکیہ میں50 بلین ڈالرسے زائد رقم چھوڑ کر جا رہے ہیں تو یہی ملک مقامی ترکوں کے لئے جہنم بن چکا ہے جہاں اپنے شہرسے دوسرے شہر میں تعطیلات گزارنا تو کجازندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ ترکیہ کی نصف سے زائد آبادی گوشت ، پنیر، انڈے اور دیگر ضروری اشیاء حاصل کرنے سے محروم ہوچکی ہے۔ترکیہ میں اس وقت کم از کم تنخواہ (اصغری اجرت) 420 ڈالر ہے اور اس تنخواہ سےترکیہ کے تمام بڑے شہروں میں کرائے پردو کمروں کا گھرحاصل کرنا ممکن ہی نہیں رہا ۔ ترکیہ میں گزشتہ دو سال سے گھروں کے کرایوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور حکومت اس سلسلے میں اب تک کوئی ٹھوس قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔

اگرچہ ایردوان حکومت نے تنخواہوں میں اضافہ توکیا ہے لیکن یہ اضافہ افراط زر(مہنگائی ) میں ہونے والے اضافے کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے بلکہ تنخواہوں میں اضافے کی وجہ ہی سےافراطِ زر ( مہنگائی) میں ہونے والے اضافےنے تنخواہ دار طبقے کیلئے نہ صرف مشکلات کھڑی کردی ہیں بلکہ ان کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ترکیہ اس وقت دنیا میں افراطِ زر( مہنگائی )کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے ۔اپوزیشن کے صدارتی امیدوارکمال کلیچ دار اولواپنی انتخابی مہم کے ایک اشتہار میں ہاتھ میں پیاز لے کر حکومت پر انسانی ضروریات سے محروم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ان کی اشتہاری مہم بڑی مقبولیت بھی حاصل کررہی ہے۔ کلیچ دار اولو ہی کے ایک اشتہارمیں ’’ پانچ کے جتھے‘‘ کی418بلین ڈالر کی لوٹ مار کو پیش کیا گیاجس پر حکومت کے حامی تمام ٹیلی وژن چینلزنے پابندی عائد کردی ہے لیکن یہ اشتہار سوشل میڈیا پر ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ اپوزیشن اس لوٹ مار ہی کو ترکیہ میں مہنگائی کی وجہ قرار دے رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا صدر ایردوان مقابلہ کرسکیں گے؟