دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

April 20, 2023

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ تین برس سے سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس نہیں بلایا گیا کیونکہ سابقہ چیف جسٹس گلزار احمد کی طرح موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی سینئر جج صاحبان کی طرف سے اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہیں۔اسی طرح 1997ء میں چیف جسٹس کے منصب پر متمکن جسٹس سجا دعلی شاہ کو سپریم کورٹ کے سینئر جج صاحبان کی جانب سے اختلاف رائے اور اپنے اختیارات سے دستبردار ہونا گوارہ نہیں تھا۔چنانچہ انہوں نے کبھی فل کورٹ اجلاس بلانے کا خطرہ مول نہ لیا۔مگر جب وہ 9اکتوبر1997ء کو عمرے کیلئے گئے ہوئے تھے تو جسٹس ناصر اسلم زاہد فل کورٹ اجلاس بلانے کی ریکوزیشن لائے جس پر سپریم کورٹ کے دس میں سے سات ججوں کے دستخط تھے۔قائم مقام چیف جسٹس اجمل میاں نے ریکوزیشن قبول کرتے ہوئے 13اکتوبر کو فل کورٹ میٹنگ بلالی ۔جسٹس سجاد علی شاہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ عمرہ ادھورا چھوڑ کر بھاگم بھاگ پاکستان واپس پہنچے اور فل کورٹ اجلاس منسوخ کردیا ۔بات صرف یہیں تک محدودنہ رہی بلکہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اجلاس بلانے والے ججوں سے متعلق اخبارات کو بیان جاری کردیا اور جواب آں غزل کے طور پر اختلاف رائے رکھنے والے جج صاحبان نے چیف جسٹس کے خلاف بیان دے دیا۔ نوازشریف اور جسٹس سجاد علی شاہ کے درمیان اختلافات کی بنیادی وجہ پانچ ججوں کی سپریم کورٹ میںتعیناتی تھی ۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے8اکتوبر کو ایوان صدر میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں صدر فاروق لغاری ،وزیراعظم نوازشریف ،چیف جسٹس سجاد علی شاہ،آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نسیم رانا نے شرکت کی ۔یہ ملاقات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی ۔بعد ازاںنوازشریف نے سیاسی مصلحت کے تحت پسپائی اختیار کرلی اور 31اکتوبر1997ء کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے پانچ ججوں کی تعیناتی کا اعلان کردیا۔جس طرح سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی یقین دہانی پر موجودہ حکومت نے جونیئر ججوں کی تعیناتی پر سمجھوتہ کرلیا اسی طرح اس وقت کے سپہ سالار جنرل جہانگیر کرامت کی مداخلت کے بعدچیف جسٹس سجاد علی شاہ کی فرمائش کے عین مطابق4نومبر 1997ء کونئے ججوں کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا اس نوٹیفکیشن کے بعد یوں لگا جیسے طوفان تھم گیا ہے لیکن یہ وقفہ تو محض تازہ دم ہو نے کا بہانہ تھا ،عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان فیصلہ کن لڑائی شروع ہونے کو تھی اور دونوں فریق اپنے لشکر کی صف بندی میں مصروف تھے۔جسٹس اجمل میاں اپنی کتاب ’’A judge speaks out‘‘میں لکھتے ہیں ’’ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ،سینیٹر آفتاب شعبان میرانی نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر الزام لگایا کہ نوازشریف نے امریکہ سے گندم پاکستان لانے کا ٹھیکہ اپنے دوست سعید شیخ کو دیا ہے جوایک شپنگ کمپنی کے مالک ہیں۔20اکتوبر1997ء کو چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اس خط کو اپنے چیمبر میں بیٹھ کر پٹیشن میں بدل کر سماعت کی۔کم وبیش انہی دنوں پیپلز پارٹی کے ایک اور سینیٹر ڈاکٹر صفدر عباسی نے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ وزیراعظم نوازشریف نے بینکوں سے قرض لینے کے لئےاثر و رسوخ استعمال کیا ۔جسٹس سجاد علی شاہ نے اس خط کو بھی بطور پٹیشن قبول کرلیا اور 20اکتوبر کو اپنے چیمبر میں سماعت کے لئے مقرر کردیا۔

نوازشریف کے خلاف اچانک مقدمات کی بھر مار ہونے لگی اور رٹ پٹیشنز کا فلڈ گیٹ کھل گیا۔پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ کا گڑا مردہ اکھاڑلیا گیا ۔ سجاد علی شاہ کو کوئی بھی شخص خط لکھ کر کسی قسم کا کوئی الزام لگادیتا تو وہ ازخود نوٹس لے لیتے یا پھر اسے پٹیشن کی شکل دیدی جاتی۔اس دوران جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں تین رُکنی بنچ نے چودہویں آئینی ترمیم کو ایک عبوری حکم نامے کے ذریعے معطل کردیا ۔چودہویں آئینی ترمیم میں فلور کراسنگ کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کو نااہل قرار دینے کا قانون منظور کیا گیا تھا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے اٹارنی جنرل کو سنے بغیر جس طرح ایک آئینی ترمیم کو عبوری حکم کے ذریعے معطل کیا ،اس کی مثال پوری دنیا کی عدالتی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جسٹس سجاد علی شاہ کو عدلیہ کی صفوں میں بغاوت کا اندیشہ تھا اور وہ عدم تحفظ کا شکار تھے اس لئے انہوں نے تمام سینئر ججوں کو اسلام آباد پرنسپل سیٹ پر تعینات کرنے کے بجائے روسٹر تبدیل کرکے دور دراز شہروں میں بھیج دیا ۔جسٹس اجمل میاں،جسٹس شیخ اعجاز نثار اور شیخ ریاض احمدکو کراچی رجسٹری بھیج دیا گیا۔جسٹس راجہ افراسیاب کو لاہور تعینات کردیا گیا۔جسٹس سعید الزماں صدیقی ،جسٹس مامون قاضی اور جسٹس منیر اے شیخ کو پشاور رجسٹری بھیج دیا گیا جبکہ جسٹس ارشاد حسن خان،جسٹس خلیل الرحمان خان اور جسٹس ناصر اسلم زاہد کو سپریم کورٹ کوئٹہ بنچ پر تعینات کردیا گیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ وزیراعظم نوازشریف کے خلاف روایتی ہتھیار جمع کررہے تھے مگر اس دوران دو جوہری ہتھیار ان کے ہاتھ لگ گئے ۔سپریم کورٹ بار کے ایڈیشنل سیکریٹری اکرم چوہدری کی طرف سے وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کردی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ نوازشریف نے قومی اسمبلی میں فلورکراسنگ سے متعلق چودہویںآئینی ترمیم معطل کئے جانے کےفیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ اور چیف جسٹس کا مذاق اُڑایا ہے۔دوسری درخواست جو اقبال حیدر ایڈوکیٹ نے دائر کی اس میں13ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کیا گیا اوردرخواست کی گئی کہ اس ترمیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 58(2)Bکے تحت صدر کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اختیار کو بحال کیا جائے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے یہ دونوں درخواستیں سماعت کیلئے قبول کرلیں۔(جاری ہے)