دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

April 27, 2023

(گزشتہ سے پیوستہ)

چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تووزیراعظم نوازشریف نے عدالتی حکم کے مطابق سپریم کورٹ میں پیش ہونے کا اعلان کردیا۔ نوازشریف 17نومبر کو عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے وضاحت کی کہ وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اگر ان کے الفاظ سے کسی کی دل آزاری ہوئی تو وہ معذرت خواہ ہیں ۔تاہم نوازشریف نے خود کو عدلیہ کے رحم وکرم پر چھوڑتے ہوئے غیر مشروط معافی نہ مانگی ۔نوازشریف 9بج کر25منٹ پر سپریم کورٹ آئے اور ایک بجے تک عدالت میں رہے ۔جس روز وزیراعظم توہین عدالت کیس کی پیشی بھگت رہے تھے اسی دن امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ پاکستان میں تھیں اوروزیراعظم سے ان کی ملاقات طے تھی۔نوازشریف کے وکیل ایس ایم ظفر نے استدعا کی کہ ان کے موکل چونکہ وزیراعظم ہیں اسلئے انہیں استثنیٰ دیا جائے مگر یہ درخواست مسترد کردی گئی اور مکمل ریکارڈ فراہم نہ کرنے پر سیکریٹری قومی اسمبلی کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا گیا۔

نوازشریف مسلسل تین دن سپریم کورٹ میں پیش ہوتے رہے اور انہیں فرد جرم عائد کرنے کے بعد حاضری سے استثنیٰ دیا گیا۔اس دوران دو اہم واقعات پیش آئے ۔جسٹس سجاد علی شاہ کی بطور چیف جسٹس آئوٹ آف ٹرن تعیناتی کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میںچیلنج کیا گیا تو جسٹس ناصر اسلم زاہد اور جسٹس خلیل الرحمان پر مشتمل دو رُکنی بنچ نے اس معاملے کو چیف جسٹس کی طرف ریفر کرتے ہوئے سفارش کی کہ چونکہ پٹیشن میں بہت اہم نکتہ اُٹھایا گیا ہے اس لئے سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ بنچ تشکیل دیا جائے۔دوسری پیشرفت یہ ہوئی کہ قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ نے توہین عدالت کے قانون میں ترمیم کا بل منظور کرلیا ۔نئی ترامیم کے تحت توہین عدالت کے مقدمہ میں سزا ہونے پر نہ صرف ملزم کو انٹراکورٹ اپیل کا حق دیا گیا بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ جن ججوں نے سزا دی ان کے علاوہ سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل لارجر بنچ اپیل کی سماعت کرے گا اور جب تک فیصلہ نہیں ہوجاتا ،تب تک سپریم کورٹ کافیصلہ معطل رہے گا اور اس پر عملدرآمد نہ ہوگا۔ وزیراعظم اور چیف جسٹس کی لڑائی کے باعث اسلام آباد میں ہنگامہ خیزی کی کیفیت تھی۔ سجاد علی شاہ کی فاروق لغاری سے ملاقاتوں اور صلاح مشوروں کا سلسلہ تیز ہوگیا۔صدر لغاری توہین عدالت کے قانون میں ترمیم کے بل پر دستخط کرنے سے گریز کر رہے تھے۔نوازشریف نے بیان دیا کہ صدر بل پر دستخط کر دیں ،غیر یقینی کی صورتحال ختم ہو جائے گی۔حکومت نے بحران کے حل کے لئے آرمی چیف کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔اس دوران وفاقی شرعی عدالت میں توہین عدالت کے قانون کو چیلنج کردیا گیا اور موقف اختیارکیا گیا کہ توہین عدالت کا قانون اسلامی اصول انصاف کے منافی ہے۔وزیراعظم اور چیف جسٹس دونوں اپنی اپنی چالیں چل رہے تھے مگر چیف جسٹس کی پٹاری میں ابھی بہت کچھ باقی تھا۔جسٹس سجاد علی شاہ پرنسپل سیٹ پر موجود اپنے ہمنواپانچ ججوں میں سے دو جج لے کر اپنی سربراہی میں بنچ بناتے اور جو چاہتے فیصلہ صادر فرما دیتے ۔جس طرح چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل سے متعلق اپنی سربراہی میں ہم خیال ججوں پر مشتمل بنچ بنا کر حکم امتناع جاری کیا اسی طرح 20نومبر1997ء کو یعنی سینیٹ سے توہین عدالت کا ترمیمی بل منظور ہونے کے صرف دو دن بعد جسٹس سجاد علی شاہ ،جسٹس بشیر اے جہانگیری اور جسٹس چوہدری محمد عارف پر مشتمل تین رُکنی بنچ نے فریقین کو سنے بغیر توہین عدالت کاترمیمی بل معطل کردیا اور صدر فاروق لغاری کو حکم دیا گیا کہ اس بل پر دستخط نہ کریں۔

اس دوران خبر ملی کہ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کی کوششوں سے مصالحت کی راہ ہموار ہو گئی ہے ۔جسٹس سجاد علی شاہ اپنی کتاب ’’Law courts in a glass house‘‘میں لکھتے ہیں کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب( یعنی 20نومبر 1997ء) کومیں راولپنڈی اپنے گھر پر تھا جب ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نسیم رانا ملنے کے لئے آئے اور آرمی چیف کا پیغام پہنچایا کہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان ڈیڈ لاک سے متعلق بریک تھرو ناگزیر ہے اور مجھ سے درخواست کی گئی کہ توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت 15دن کے لئے ملتوی کردی جائے تاکہ آرمی چیف اس دوران ملک کے وسیع تر مفاد میںاس مسئلے کا حل تلا ش کرسکیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ 15دن کے التوا پر تو تیار نہ ہوئے تاہم اگلے روز سپریم کورٹ نے 13ویں آئینی ترمیم اور توہین عدالت کیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت ایک ہفتے کے لئےملتوی کردی۔اس دوران صدر ،وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان کئی بار مشاورت ہوئی، سپہ سالار جنرل جہانگیر کرامت نے صدر فاروق لغاری سے ملاقات کرکے الجھی ڈور سلجھانے کی کوشش کی مگر اختلافات کی ڈور مزید اُلجھتی چلی گئی۔ جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس خلیل الرحمان خان جو سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں تھے ،انہوں نے20نومبر کو ایک پٹیشن کی سماعت کی جس میں چیف جسٹس کی آئوٹ آف میرٹ تعیناتی پر سوال اُٹھایا گیا تھا۔یہ پٹیشن چیف جسٹس کو ریفر کرتے ہوئے سفارش کی گئی کہ سماعت کیلئے فل کورٹ بنچ تشکیل دیا جائے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے سپریم کورٹ کوئٹہ بنچ کی سفارش پر فل کورٹ بنچ نہ بنایا تو ان کی تعیناتی کے خلاف کوئٹہ بنچ میں ہی ایک اور درخواست دائر ہوئی اور 26نومبر 1997ء کو جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس خلیل الرحمان پر مشتمل دورُکنی بنچ نے جسٹس سجاد علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے انہیں کام کرنے سے روک دیا۔جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے چیمبر میں بیٹھ کر اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دے دیا توجسٹس ناصر اسلم زاہد،جسٹس خلیل الرحمان خان اور جسٹس ارشاد حسن خان نے چیف جسٹس کے انتظامی حکم کو اس بنا پر غیر موثر قرار دے دیا کہ وہ اب چیف جسٹس نہیں رہے۔(جاری ہے)