پارلیمنٹ کے مقابل اتنی بڑی جسارت؟

April 27, 2023

(گزشتہ سے پیوستہ )

آپ نے لاکھوں ووٹرز کے نمائندوں کو فلور کراسنگ کا جرم ثابت ہوئے بغیر ہی ان کا حق رائے و نمائندگی چھین لیا، ہائیکورٹس میں اپیلیں چل رہی تھیں مگر سب کچھ بلڈوز کر دیا ،الیکشن کمیشن کی اتھارٹی کو رونڈ ڈالا اس کے کیس میں محض ایک پارٹی کوسنا اور دوسروں سے حق سماعت چھین لیا ،ساتھی ججز کو او ایس ڈی بنائے رکھا، کوئٹہ و لاہور رجسٹری کو ویران کر ڈ الا، تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد اسمبلی نہیں توڑی جا سکتی، آئین واضح ہے۔ جن لوگوں نے اس حوالے سے کھلی آئین شکنی کی ان کے سامنے آپ کی پیشانی پر شکن تک نہ آئی، انہیں خبر نہیں ہوئی ہو گی آگ انہوں نے نہیں” لگائی ہو گی” اپنے آپ لگ گئی ہو گی، صبح، دوپہر اور شام من مانےبنچزبنائے اور توڑے۔ جس جج کا پورے قومی میڈیا میں اسکینڈل چل رہا تھا اسے سینے سے لگائے ہوئے حکومت کو کونسا پیغام انصاف بھیجا جا رہا تھا؟ آپ فلاں سے معاملات کر لیں ورنہ قانون کی تلوار لہرائے گی ۔چاہے آپ یہ سب حقائق بے معنی پروپیگنڈہ کہہ کر مسترد فرما دیں لیکن بائیس کروڑ عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ کے سامنے کھڑے ہو جانا کہ وہ جو قانون بنانے یا قواعد وضع کرنے جا رہی ہے ،وہ نہیں کرنے دئیے جائیں گے۔کیا آپ پارلیمنٹ پر بھی حاوی ہیں، اتنی بڑی جسارت اور وہ بھی آئین، قانون اور انصاف کے نام پر؟ رہ گئے پنجاب کے انتخابات تو خاطر جمع رکھئے 14مئی کو ناممکن قرار پا چکے ہیں بلکہ کسی متنازع شخص کے زیر سایہ ممکن نہ ہو پائیں گے، اتحادیوں ہی کا نہیں پوری قوم کا ایک ہی موقف ہونا چاہئے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات جب بھی ہونگے اکٹھے ہونگے اور الیکشن کمیشن کی دی ہوئی تاریخ 8اکتوبر میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ججز نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں لیکن یہاں ہر دوحوالوں سےحدیں پار کی جاتی دکھائی دے رہی ہیں ۔ انسان جس ذمہ داری پر فائز ہو کم از کم غیر جانبداری کا کچھ نہ کچھ بھرم ہی رہنے دے۔ انصاف کی کرسی چھوٹی ہو یا بڑی اس کا ایک ڈیکورم یا بھرم ہوتا ہے آپ لوگوں کو منصفی کی سب سے بڑی کرسی پر براجمان ہو کر بھی کہیں ذرا جھجک محسوس نہیں ہوئی کہ کم از کم غیر جانبداری کا تھوڑا سا بھرم یا تاثر ہی رہنے دیں ؟آج بلاول اگر یہ کہہ رہا ہے کہ بندوق کی نوک پر مذاکرات نہیں ہو سکتے تو مولانا کا استدلال ہے کہ عدالتی ہتھوڑا تسلیم نہیں کر سکتے عدالتی جبر قبول نہیں ،جس شخص کو سیاست سے باہر رکھا جانا مطلوب تھا سپریم کورٹ اسے سیاست کا محور بنانے پر کیوں تلی بیٹھی ہے آپ لوگ اگر اس شخص کیلئے لچک پیدا کرسکتے ہیں تو ہمارے لئے کیوں نہیں ؟درویش کی رائے میں مولانا کو کسی نوع کی عدالتی لچک طلب نہیں کرنی چاہئے تھی موقف قطعی واضح ہونا چاہئے، آئین کی کوئی ایک شق دوسری آئینی شقوں یا تقاضوں پر حاوی نہیں ہونی چاہئے اس سے بھی بڑھ کر شفاف انتخابات کے جو تقاضے ہیں پہلے وہ پورے کئے جائیں پھر اگلی بات کی جائے ۔انڈیا کے برعکس ہمارا آئینی بندوبست اتنا الجھا ہوا ہے کہ اگر قومی و صوبائی انتخابات اکٹھے نہیں ہوتے تو شفافیت ممکن نہیں اور اسی طرح اگر ترازو کے دونوں پلڑے برابر نہیں کئے جاتے تب بھی شفافیت ناممکن رہ جاتی ہے اور پھر جس طرح سے بنچز بنائے گئے ہیں جب یہی قبول نہیں تو پھر ان کے فیصلے کیونکر قابل قبول کیے جائیں گے ۔ اگر کسی کا تمامتر مس کنڈکٹ واضح ہو چکا ہے تو پھر اسے پارلیمان کے سامنے سر نگوں ہونے کو کیوں نہیں کہا جانا چاہئے ؟سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے اس کے خلاف پوری کارروائی ہونی چاہئے بلکہ جس نوع کا ایگزیکٹو آرڈر افتخار چوہدری کی بحالی کیلئے نکل سکتا ہے اسی نوع کا فراغتی آرڈر یہاں بھی نکلنا چاہئے اور چارج سینئر موسٹ کے حوالے ہونا چاہئے۔ جب ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے آرٹیکل 184/3یعنی سو موٹو کی پوری وضاحت و صراحت کا تعین ہو چکا ہے تو پھر اس پر عملدرآمد میں جو کوئی رکاوٹ بننے کیلئے کوشاں ہےاس کو ہٹانے کا اہتمام کون کرے گا ؟اس آرٹیکل کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کتنی لاجک سے وضاحت فرما چکے ہیں کہ اس کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا تھا اور سپریم کورٹ سے مراد فرد واحد نہیں اور آئین میں یہی لکھا ہے کسی چیف جج یا فرد واحد کو یہ اختیار نہیں دیا گیا تھا، اگر فرد واحد نے من مانی تشریح کرتے ہوئے اس کا ناروا استعمال کیا ہے تو اس کا ازالہ ہونا چاہئے بلند پرواز کو بھی چاہئے کہ اس عہدے پر براجمان ہوئے انہیں پورا ایک سال بیت گیا ہے، انہوں نے ا تنی بڑی زیادتی کو ختم کرنے کیلئے اب تک کیا کیا ہے ؟ہماری جوڈیشری نے بھی اگر آئین و قانون کی بجائے پنچایتی و سیاسی دکان چمکانی ہے تو پھر کیا معترضین کا یہ اعتراض درست ثابت نہیں ہوگا کہ کھلاڑی تو اقتدار سے نکل گیا ہے مگر اس کےساتھی جوں کے توں براجمان ہیں اگر فیصلے پنچایت نے کرنے ہیں تو پھربہتر ہو گا کہ اس پنچائت کے ذریعے سب کو اکٹھے فارغ کر دیا جائے تاکہ فریش مینڈیٹ کے حصول کی راہ آسان ہو سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)