پولیو ٹیمیں نشانے پر کیوں؟

June 02, 2023

شمالی وزیرستان کے علاقے سپین وام میں پولیو ٹیم پر فائرنگ کے افسوسناک واقعہ میں ایک سیکورٹی اہلکار کی شہادت اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ گمراہ اور شدت پسند عناصر کی وجہ سے ہی پاکستان آج بھی پولیو زدہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ 2021 میں پاکستان پولیو کو جڑ سے اکھاڑنے کے قریب تھا لیکن بعد میں دوبارہ کیسز سامنے آنا شروع ہو گئے۔ پندرہ ماہ کے وقفے کے بعد پولیو کا نیا کیس بھی شمالی وزیرستان سے رپورٹ ہوا ہے جس کی تصدیق قومی ادارہ صحت اسلام آباد کی نیشنل پولیو لیبارٹری میں ہوئی۔ حکومت نے چند روز پہلے شمالی وزیرستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم کا آغاز کیا تھا جسے دہشت گردوں نے متاثر کرنے کیلئے پولیو ٹیم پر فائرنگ کر دی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جوابی کارروائی کر کے پولیو ٹیم کو بحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا ہے۔ شمالی وزیرستان میں جون 2022 میں بھی پولیو ٹیم کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں تین سکیورٹی اہلکار جان کی بازی ہار گئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق 2012 سے اب تک پولیو مہم کے دوران ڈیوٹی دینے والے 101 سکیورٹی اہلکار شہید اور 141 زخمی ہو چکے ہیں ۔ شدت پسند پولیو مہم کو مغربی سازش قرار دیتے ہیں اور اکثر پولیو ورکرز پر حملے کرتے ہیں جو بیشتر قبائلی اضلاع میں ہوتے ہیں۔ پولیو ورکر اور انکی حفاظت پر مامور اہلکار مشکلات کے باوجود پوری جانفشانی سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ پولیو ٹیموں کیخلاف تشدد کی کارروائیاں صحت عامہ کی مہم کیلئے اہم چیلنجز رکھتی ہیں۔ جن کا بہرصورت تدارک ہونا چاہئے۔ ہماری سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ کوٹ عیسیٰ میں آپریشن میں دہشتگرد کمانڈر مظہر عرف جھنگی واصل جہنم ہوا اسکے سر کی قیمت 2.5 ملین روپے رکھی گئی تھی۔ جنوبی وزیرستان میں بھی دو دہشتگرد مارے گئے جو سکیورٹی فورسز کیخلاف دہشتگردی کی کارروائیوں اور معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث تھے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998