معاشی منظر نامہ

June 03, 2023

کورونا کی جان لیوا وبا کے بعد ایک ہی سانس میں روس یوکرین جنگ کے اثرات نے جس طرح ساری دنیا کو کساد بازاری کی لپیٹ میں لیا، اس سے امریکہ جیسا ملک بھی دیوالیہ ہونے سے بمشکل بچ سکا ہے۔ معاشی طور پر مضبوط ممالک اپنے لچکدار نظام کی بدولت خود محفوظ رہے لیکن اس کا اثر ترقی پذیر اور غریب ممالک پر پڑا۔ پاکستان جو پہلے ہی بیرونی قرضوں کے غیر معمولی بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور گذشتہ برس کی طویل اور موسلادھار بارشوں ، سیلابوں اورمعیشت بچانے کیلئے آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کی سخت ترین شرائط سے دوچار ہوا ، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر دوگنا زیادہ ہوجانے سے اس کے غیر قانونی کاروبار نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ تجارتی عدم توازن اور ترسیلات زر میں کمی کا عنصر زرمبادلہ کے قومی ذخائر پر اثرانداز ہوا، اور معیشت دیوالیہ ہونے کی نہج پر آگئی ۔ اب 30 جون کو اختتام پذیر ہونے والے مالی سال کے معاشی اشاریے حسب سابق باعث تشویش اور مالی سال 2023-24 کے بجٹ کی تیاری میں نئی مشکلات لے کر آئے ہیں، ٹیکس وصولیوں میں 430 ارب روپے کی کمی اس سال بھی ایف بی آر کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بن کر ابھری ہے جس کے تحت ہرسال پیدا ہونے والا بجٹ خسارہ ایک ایسا منحوس چکر بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھتے بڑھتے 54 ہزار ارب روپے سے متجاوز ہوچکا ہے۔ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کے حصول کی خاطر مالی سال 2022-23 جو ریکارڈ مہنگائی لے کر آیا، اس میں عام اور غریب طبقے کی قربانی بھی کام نہ آسکی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے میں کوشاں اور پرامید ہیں، نے ایک بار پھر اس بات کو دہرایا ہے کہ غیر معمولی لچک اور استعداد کی بدولت معیشت دوبارہ اٹھے گی اور حکومت شراکت داروں کے ساتھ مل کر مسائل پر قابو پالے گی۔دوسری طرف انہی حالات میں جمعرات کے روز امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 18 روپے کی ریکارڈ سطح پر بڑھی جبکہ اس سے ایک روز قبل حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے فی لیٹر کمی کی ہے جس کا اثر روز مرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں ظاہر ہونا چاہئے۔ وفاقی ادارہ شماریات نے مالی سال 2022-23 کے حوالے سے جو رپورٹ جاری کی ہے ،اس کے مطابق ایف بی آر بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ساتھ طے کردہ بجٹ اہداف پورے نہیں کر پایا ،جس کی روشنی میں یہ قیاس غلط نہ ہوگا کہ 9ویں جائزے کے تحت ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط کا حصول جو پہلے ہی سرد خانے میں پڑا ہوا ہے ، اس کے اجرا کیلئے آئی ایم ایف نئی شرائط لاسکتا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جائزہ رپورٹ کے مطابق 2022-23 کے دوران شہروں میں مہنگائی 35 اعشاریہ ایک جبکہ دیہی علاقوں میں 42 اعشاریہ دو فیصد کی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی۔ ایک سال میں کھانے پینے کی اشیا 48اعشاریہ 65 جبکہ ٹرانسپورٹ کے کرائے 53 فیصد بڑھے۔ تفریحی سہولیات گذشتہ برس کے مقابلے میں 72 فیصد مہنگی ہوئیں ، ریستوران اور ہوٹل اخراجات میں 42 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ تعلیم ساڑھے آٹھ، علاج معالجہ 19 ، یوٹیلٹی بل ساڑھے 20 اور کپڑے اور جوتے 23 فیصد مہنگے ہوئے۔ ان حالات میں 9 جون کو پیش کیے جانے والے وفاقی بجٹ برائے 2023-24کا تخمینہ 14 ہزار 600 ارب روپے سے زیادہ رکھے جانے کی تجویز ہے جبکہ مہنگائی سے دوچار عوام کیلئے ریلیف کمیٹیاں سفارشات تیار کر رہی ہیں ۔زمینی حقائق کے مطابق وزارت خزانہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں لیکن حالات کا ناگزیر تقاضا ہے کہ متوسط اور غریب طبقہ جو پانچ سال سے مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے ، اس کے معاشی دکھوں کا مداوا بہرحال تنخواہ میں مناسب اضافے کی شکل میں ضروری ہے۔