سیاست کے تماشے

June 09, 2023

کئی دہائیوں سے سیاست کے تماشے دیکھ رہا ہوں، حالت یہ ہے کہ سیاستدان غریبوں کے لئے لڑتے لڑتے کھرب پتی بن گئے اور غریب زندہ باد مردہ باد کرتے کرتے فاقوں مرنے لگے۔ کوئی لیڈر کبھی اچھا تو کبھی برا بنا دیاجاتا ہے۔ ایسے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان یاد آتا ہے’’دنیا جب کسی کی طرف رخ کرتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں اس سے منسوب کر دیتی ہے اور یہی دنیا جب کسی سے منہ موڑتی ہے تو اس کی ذاتی خوبیوں سے بھی منکر ہو جاتی ہے۔‘‘

میں نے ابتدا میں کئی دہائیوں کا تذکرہ کیا ہے ان دہائیوں پر مشتمل کچھ واقعات اختصار سے پیش کر رہا ہوں۔ مشرقی پاکستان ہمارا دیس تھا، بنگالیوں نے قیام پاکستان میں بڑا کردار ادا کیا مگر پھر ظلم یہ ہوا کہ حسین شہید سہروردی کو غدار قرار دے دیا گیا۔ اس سے بڑاظلم یہ ہوا کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غدار بنا دیا گیا۔ الیکشن ہوا تو ایوب خان کا پھول جیت گیا، لالٹین ہار گئی۔ شاید روشنی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ شیخ مجیب الرحمٰن کا جرم یہ بھی تھا کہ وہ محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھی تھا۔ عجیب بات ہے شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کرنے والی ٹیم میں شہید ارشد شریف کے والد بھی شامل تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن کہتاتھا مجھ سے بات تو کرو، جواباً تھپڑ رسید کر دیا جاتاتھا۔ 70ء کے الیکشن میںعوامی لیگ پر زمین تنگ کر دی گئی۔ زبیر عمر کے والد جنرل عمر عوامی لیگ کے خلاف پیسے بانٹتے رہے اور بقول بریگیڈیئر حامد سعید جو بھی عوامی لیگ کا امیدوار بنتا، اسٹیبلشمنٹ کفن اور کافور پر مشتمل پارسل اس کے گھر بھیجتی ۔ بعض لوگ ڈر گئے تو ان کی جگہ بہادرآگئے۔ الیکشن ہوا تو مشرقی پاکستان کی 162 میں سے 160 سیٹیں شیخ مجیب الرحمٰن جیت گیا۔مغربی پاکستان میں 138 میں سے بھٹو کو 81 سیٹیں ملیں۔ بھٹو اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کر چکا تھا سو اس مرحلے پر جمہوری اصولوں کو پامال کرتے ہوئےاکثریت کو اقتدار دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اسی انکار کی کیفیت میں مارچ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں ایک بھر پور فوجی آپریشن شروع کیا گیا ، اس آپریشن سے پہلے شیخ مجیب الرحمٰن صرف حقوق کی بات کرتا تھا مگر اس اندوہناک آپریشن کے بعد اس نے آزادی کی بات شروع کر دی اور بالآخر بنگالی ہم سے الگ ہو گئے ۔ ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا جس کی معیشت آج جنوبی ایشیا کے تمام ممالک سے بہتر ہے۔ موجودہ پاکستان میں بھٹو کی مقبولیت کا طوطی بولتا تھا مگر پھر اسے بھی لٹکا دیا گیا ۔ مشکل وقت میں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے 40 میں سے 38 ارکان پیپلز پارٹی چھوڑ گئے اور 75 ایسے تھے جو ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے ممبر بن گئے۔ نوے دنوں کا وعدہ لمبا ہوا اور 1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک میں جلاؤ گھیراؤ حد سے بڑھا تو پیپلز پارٹی پر زمین مزید تنگ کر دی گئی۔ پیپلز پارٹی کی کوکھ سے مساوات پارٹی، پروگریسیو پیپلز پارٹی اور نیشنل پیپلز پارٹی نکالی گئیں، بعد میں شیر پاؤ گروپ، شہید بھٹو گروپ اور پیٹریاٹ بھی نکالے گئے۔ 1985ء کا الیکشن شاطرانہ چال کے تحت غیر جماعتی بنیادوں پر کرایا گیا پھر اس میں سے مسلم لیگ برآمد کی گئی مگر 1988ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا پھر پیپلز پارٹی کو روکنے کے لئے آئی جے آئی بنائی گئی۔ آئی جے آئی کے مختلف رہنماؤں کو پیسے دئیے گئے۔ 1990ء کاالیکشن دھاندلی زدہ تھا۔ پھر مسلم لیگ میں سے ن، جناح اور جونیجو لیگ نکالی گئیں۔ یہ منظر بھی دیکھا گیا کہ ایک ہی رات میں پوری پارٹی منظور وٹو کی جھولی میں آ گری۔ مشرف کی آمد کے بعد ن لیگ میں سے ق لیگ نکالی گئی اور جب ظفر اللہ جمالی وزیراعظم نہیں بن رہے تھے تو پیٹریاٹ بنائے گئے ۔ 2008ء کا الیکشن ہوا تو ابتدا میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی اکٹھے تھے پھر آصف علی زرداری نے’’قاتل لیگ‘‘ کو گلے لگا لیا۔ 2013ء کے الیکشن میں ن لیگ نے 146ٹکٹ ق لیگ سے آئے ہوئے لوگوں کو دئیے کیونکہ یہ مہربانوں کی منشا تھی۔ 2018ء کے الیکشن سے پہلے جیتنے والوں کو پی ٹی آئی کی طرف دھکیلا گیا اور قاسم خان کے والد کو ایسا اقتدار دیا گیا جس میں انہیں ہر وقت مینڈک تولنا پڑتے۔ ایک برس پہلے ان کی حکومت ختم کر دی گئی ، اس کے بعد پی ٹی آئی پر زمین تنگ ہو گئی اور حالیہ کرشنگ سیزن میں پارٹی کو خالی کر دیا گیا ۔ جان وارنے والےکئی پروانے جدا ہو چکے ہیں، اب روایتی لوٹوں پر مشتمل استحکام پاکستان کے نام پر ایک نئی کنگز پارٹی بنا دی گئی ہے، باقی مال زرداری صاحب لے اڑے ہیں، کبھی کوئی بہت اچھا بن جاتا ہے اور کبھی بہت برا۔ سیاست میں یہ تماشےکئی دہائیوں سے دیکھ رہا ہوں کہ بقول راولپنڈی کے جواں مرگ شاعر محمد صدیق ضیاء

تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی