پرانی ہوا کے جھونکے تازہ ہوگئے

June 16, 2023

(عکّاسی: اسرائیل انصاری)

کراچی میں واقع سندھ آرکائیوز ایک انتہائی اہم ادارہ ہے جہاں لاکھوں سرکاری دستاویزات، کتابیں، مخطوطے، پمفلٹ، پرانے اخبارات و رسائل اور تاریخی اہمیت کے نقشے محفوظ ہیں۔ آرکائیوز کا انگریزی لفظ اب اردو میں بھی کثرت ِاستعمال کی وجہ سے عام فہم بن چکا ہے لیکن اردو لغت میں اس کے لیے چند ایک بہت اچھے الفاظ موجود ہیں مثلاً ’دفترخانہ‘ یا’ محافظ خانہ‘۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آرکائیوز کے لفظ کے ساتھ ساتھ ہم اپنی زبان کے خوبصورت الفاظ کو بھی رواج دینا شروع کریں۔

ایسے دفتر خانے یا محافظ خانے دنیا کے سب ملکوں میں موجود ہوتے ہیں جن میں ماضی کا ریکارڈ خواہ مطبوعہ ہو یا غیر مطبوعہ محفوظ کرلیا جاتاہے۔یہ ریکارڈ بعد میں آنے والوں کے لیے تحقیق کا سامان فراہم کرتا ہے۔ وہ محقق جو بنیادی مآخذ کی تلاش میں رہتے ہیں ان کے لیے یہ محافظ خانے ایسی جگہوں کی حیثیت رکھتے ہیں جن کو وہ نظر انداز نہیں کرسکتے۔ یہ آرکائیوز سرکاری ضروریات کے لیے بھی کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔

حکومتوں کو جب پالیسیاں بنانی ہوتی ہیں، اسمبلیوں کو قانون سازی کرنی ہوتی ہے یا غیر سرکاری ادارے،خاص طور سے وہ جوترقیاتی شعبوں سے وابستہ ہوتے ہیں، اپنے منصوبے بنانے کے لیے ماضی کے منصوبوں اور ان سے متعلق دستاویزات کو پیش نظر رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے ایسے آرکائیوز ہیں جو عالمی شہرت کے حامل قرار پاچکے ہیں۔ لندن میں واقع ’انڈیا آفس لائبریری‘، تاریخی دستاویزات، مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریروں، نقشوں اور دیگر ایسی ہی چیزوں کا ایک ایسا خزانہ ہے جس کو ان اشیا کی قدروقیمت جاننے والے رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان سے استفادے کے خواہشمند بہر طور ان تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان میں ماضی کی دستاویزات اور دیگر اشیاکو محفوظ کرنے کا بہت اچھا نظام تو موجود نہیں ہے، بڑی تعداد میں تاریخی اہمیت کی چیزیں ضایع ہوجاتی ہیں لیکن چند ایک ادارے ایسے ضرور موجود ہیں جہاں ماضی کے یہ خزانے محفوظ کرلیے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں’نیشنل آرکائیوز‘ ایک بڑا ادارہ ہے جس میں سرکاری اور غیر سرکاری دستاویزات اورماضی کی سرکاری فائلوں کا بڑا ریکارڈ محفوظ ہے۔

وہ سرکاری فائل، وزرا اور وزیر اعظم کی خط وکتابت، کابینہ کے اجلاسوں کے منٹس جو ازروئے قانون تیس سال تک خفیہ رہتے ہیں، وہ یہ مدت پوری ہونے کے بعو کیبنٹ سیکرٹیریٹ میں عام مطالعے کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔ ’سندھ آرکائیوز‘ بھی ایک قابل ذکر محافظ خانہ ہے۔ پچھلے دنوں، 9جون کوسندھ آرکائیوز نے بھی اپنے یہاں محفوظ تاریخی سرمائے کو لوگوں کے ملاحظے کے لیے پیش کیا۔ ایک روزہ اس نمائش میں شرکت تاریخ کے کسی بھی طالب علم کے لیے بڑی معلومات افزا اور ذہن میں تحقیق کے نت نئے در وا کرنے کا سبب تھی۔

سندھ آرکائیوز کا پس منظر

ہندوستان کے دوسرے خطوں کی طرح عہدِ وسطیٰ تک سندھ میں بھی دستاویزات، مخطوطات ،پرانی کتب،جرائد و رسائل اور اخبارات بالعموم ذاتی ذخیروں میں جگہ پاتے تھے۔ یا مختلف محکمے مثلاً ریونیو کا محکمہ یا پو لیس اور عدالتیں، اپنے ریکرڈ کو اپنی ہی عمارتوں میں مختص کردہ جگہوں پر محفوظ کر لیتی تھیں۔ ان تمام چیزوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مرکزی نوعیت کے اداروں کارجحان کم پایا جاتا تھا۔ اداروں کے حوالے سے بات کی جائے تو قدیم نسخے اور دستاویزات، مخطوطات، رسائل و جرائد ،دینی مدارس کے کتب خانوں اور محافظ خانوں میں بھی ضرور رکھ لیے جاتے تھے لیکن ان مخصوص شعبوں سے متعلق محفوظ خانوں میں سرکاری کاغذات اور پرانی فائلوں کی موجودگی ممکن نہیں تھی۔

ہندوستان میں انگریز کی آمد کے بعد آرکائیوز بنانے کے رجحان نے پورے ہندوستان میں فروغ پایا۔ اس کا ایک بڑا سبب تو یہ تھا کہ انگریز قدیم چیزوں کو محفوظ رکھنے کا غیر معمولی ذوق رکھتے تھے۔پھر جب ان کے یہاں انتظامی اور سیاسی ادارہ سازی نے ترقی پائی تو انہوں نے سرکاری کاغذات اور دستاویزات ضائع کرنے کے بجائے محفوظ کرنے کابا ضابطہ نظام وضع کیا۔یہ دستاویزات بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے ماضی کی پالیسیوں کو سمجھنے اور ان کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر بن گئیں۔ ہندوستان میں بھی برطانوی استعمار نے اس عمل کو آگے بڑھایا۔

انگریز کا یہاں مقصد اپنی نوآبادی پر مؤثر کنٹرول حاصل کرنا تھا ،جس کے لیے انہوں نے ہندوستان کے حالات و کوائف کے بارے میں غیر معمولی تگ و دو کے بعد اعدادو شمار جمع کیے۔ لوگوں کے رہن سہن، ان کی سماجی زندگی، دیہی معاشرت کی تفصیلات،قبائلی نظام کی روایتوں،حتیٰ کہ دور افتادہ علاقوں کے موسمی حالات،وہاں کی فصلوں اور جانوروں تک کی تفصیلات کو جمع کرکے گزیٹئرز کی اشاعت کاسلسلہ شروع کیا۔

ہندوستان کے چھوٹے سے چھوٹے علاقوں پر انگریز کے گزیٹئرز معلومات کا خزانہ ثابت ہوئے۔ گزیٹئرز کے علاوہ انہوں نے ہندوستان میں ایسی لائبریریاں بنائیں اور ایسے آرکائیوز جمع کیے جہاں پرانی دستاویزات اور فائلوں کو محفوظ کیا گیا۔ ایسی لاکھوں کتابیں، فائلیں، نقشے اور دیگر اشیا وہ انگلستان بھی لے گئے جو وہاں کے آرکائیوز میں آج بھی محفوظ ہیں۔

سندھ آرکائیوز بھی انگریز کے زمانے میں بننا شروع ہوا۔سندھ پر انگریز کا قبضہ تو 1843 میں ہوا لیکن سندھ سے متعلق معلومات وہ اس سے بھی پہلے سے حاصل کررہا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی استعماری ریشہ دوانیوں سے تو ایک دنیا واقف ہے لیکن ہندوستان پر قبضہ کرنے اور 1857کے بعد ملک پر اپنے قبضے کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے اس نے جس قدر تگ و دو کی اور جس محنت کا مظاہرہ کیا وہ اس کے استعماری مفادات کے پیشِ نظر تو کارآمد تھا ہی لیکن اس سے کم از کم یہ اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ چیزوں کو محفوظ کرنے کا سلیقہ بجائے خود کتنا اہم ہے۔ سندھ کے آرکائیوزاپنی موجودہ وسیع و عریض عمارت میں 1992 میں منتقل ہوئے۔

سندھ آرکائیوز میں کیا کچھ ہے؟

سندھ آرکائیوزمیں ماضی کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے، جس میں سرکاری فائلز، مختلف محکموں کے ریکارڈ، بیش بہا تاریخی نقشے، خفیہ رپورٹیں، اخبارات و جرائد کے فائل، گزٹ، اسمبلیوں کے مباحث، مردم شماری کی رپورٹیں، عدالتوں کے ریکارڈ اور ذاتی ذخیرے موجود ہیں۔ جن بڑی علمی، ادبی اور سیاسی شخصیات کے ذاتی کتب خانے اور کاغذات سندھ ا ٓرکائیوز نے حاصل کیے ہیں یا جن کے ذحیروں کے کیٹلاگ یہاں موجود ہیں، ان میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، پیر علی محمدراشدی، پروفیسر شریف المجاہد، پروفیسر جمناداس بھاٹیا، سید شمس الحسن ، سرغلام حسین ہدایت اللہ، ڈاکٹر این بی جی قاضی، شیخ ابراہیم خلیل، خالد شمس الحسن، اور ممتاز مرزا شامل ہیں۔

نمائش میں کیا کچھ نظر نواز ہوا

سندھ آرکائیوز کی نمائش میں وہ سارا ذخیرہ تو شرکاء اور مہمانوں کے سامنے نہیں رکھا جاسکتا تھا جو کئی کمروں، بیسیوں الماریوں اور مختلف ڈبوں میں محفوظ ہے، مگر نمائش کے لیے مختص دو ہال ایسی ہی نادر چیزوں کو اپنی دیواروں پر آویزاں اور شوکیسوں میں سجائے ہوئے تھے، جن کو دیکھ کر کوئی بھی شخص اندازہ لگا سکتا تھا کہ آرکائیوز کی عمارت کے اندرمزید کیا کچھ موجود ہوگا۔

جو کچھ ان دیواروں اور شوکیسوں میں موجود تھا اور جو معلومات سندھ آرکائیوز کے ڈائریکٹر عبدالفتح شیخ، ڈپٹی ڈائریکٹر مخدوم ذوالفقار، ماضی کے ریکارڈ کو محفوظ کرنے اور اس کی مناسب درجہ بندی کے کام میں مصروف آرکائیوسٹ گل ناز صاحبہ اور ٹیم کے سربراہ اور وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے آرکائیوز محمد طارق حسن کی زبانی حاصل ہوئیں، اُن سے اندازہ ہوا کہ نمائش میں رکھی گئی چیزیں تو بیشتر اصل کاغذات فائلوں، کتابوں اور اخبارات و جرائد کی ،کمپیوٹر کے ذریعے تیار کردہ تصویریں اور شبیہیں ہیں مگر جو اصل نوادرات ہیں اُن کو بھی کیمیائی عمل سے گزار کر محفوظ بنایا جارہا ہے۔

یہ کام اتنا آسان نہیں خاص طور سے اس لیے بھی کہ یہ سارا خزانہ برسہا برس سے عدم توجہ کا شکار رہا۔اخبارات اور دفتری فائلوں کے ریکارڈ برسوں مٹی سے اٹے پڑے تھے۔ سینکڑوں قیمتی دستاویزات اور آرکائیوز میں کیڑا بھی لگ گیا، مگر اب چیزوں کو سنبھالنے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور اس کے لیے جدید مشینری اور تربیت یافتہ اسٹاف کو استعمال میں لایا جارہا ہے۔نمائش میں رکھی گئی چیزیں تاریخ کے طالبعلموں کے لیے ایک پورا جہانِ معنی اپنے اندر سموئے ہوئے تھیں۔چند چیزوں کی جھلک سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

استعمار ی تقرریاں اور نظم حکمرانی

نمائش میں آویزاں ایک عکس کے مطابق، گورنر جنرل کے حکم پر مشتمل 13مارچ 1843 کے گزٹ نوٹیفیکشن میں کہا گیا ہے کہ گورنر جنرل، میجر جنرل چارلس نیپئر کو بہ مسرت سندھ کے صوبے کا گورنر نامزد کررہے ہیں۔اس گزٹ میں مزیدکہا گیا ہے کہ گورنر جنرل یہ ہدایت کرتے ہیں کہ غلامی کے خاتمے اور غلاموں کی تجارت کی بیخ کنی کے لیے برطانوی پارلیمنٹ نے جو قوانین نافذ کیے ہیں ، اُن سب کا اطلاق سندھ کے اُن علاقوں پر جن پر برطانوی فوج کا قبضہ ہوچکا ہے یا جن پر بعد میں قبضہ کیا جائے گا،اطلاق ہوگا۔

طلبا کا ایک گروپ کی نمائش میں دلچسپی

بادی النظر میں یہ اعلان بڑا مستحسن اقدام نظر آتاہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ میں تو غلامی کا خاتمہ ایک بڑی جدوجہد کا نتیجہ تھا مگر ہندوستان میں اس کے اطلاق کی توجیہہ ذرا مختلف ہے۔ ہندوستان میں جہاں انگریز پوری قوم ہی کو غلام بنا چکا تھا، وہان چند بااثر مقامی سرداروں کو، جو خود بھی استعمارے نظام میں غلام ہی کی حیثیت رکھتے تھے، دوسروں کو غلام بنا کر رکھنا اصل مقتدر کی طاقت و اختیار کے لیے سوال اٹھا سکتا تھا۔ ریاست کا اقتداراعلیٰ ناقابلِ تقسیم ہو تا ہے، استعمارے ریاست تو اپنے اقتدارِ اعلیٰ کی کہیں زیادہ جم کر حفاظت کرتی تھی۔ تقرری کا ایک اور اعلان ایک اشتہار ی صورت میں ہے۔19مئی 1855کو کلکٹر کراچی،’اسٹیورٹ صاحب بہادر‘ کے دربار سے ’عام و خاص‘ کے لیے ایک اشتہار شایع کیا گیا۔

اس کا عکس دکھاتا ہے کہ حکومت نے ہسپتالوں میں مرنے والے مردوں اور عورتوں کے پوسٹ مارٹم سے متعلق احکامات جاری کیے۔ یہ اشتہار فارسی اور سندھی زبانوں میں شایع کیا گیا،جو انگریز کے نظم حکمرانی وسعت پر دلالت کرتا ہے۔نظم حکمرانی ہی کے متعلق ایک اور مثال دیکھیں۔ یہ سندھ اور بلوچستان کے سرکردہ قبائلی سرداروں کے شجرہ ہائے نسب ہیں، جو 1893 میں خان بہادر خداداد خان نے اُس وقت کے سندھ کے کمشنر کے حکم پر تیار کیے تھے۔خان آف قلات ، لسبیلہ کے چیف، مینگل خاندان کے چیف نورالدین خان مینگل کے یہ شجرہ ہائے نسب انگریز کمشنر نے یہ دیکھنے کے لیے تیار کروائے تھے کہ اُن قبائلی سرداروں کے خاندانوں میں آپس میں شادیاں کرنے کا کیا رجحان تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خاندانوں کی تفصیل میں نہ صرف یہ درج ہے کہ کس سردار کی بیوی کس باہر کے قبیلے سے تعلق رکھتی تھی، بلکہ بیویوں کے بارے میں مزید تفصیلات بھی درج ہیں۔ مثلاً خان آف قلات کے خاندان سے تعلق رکھنے والے میر مہراب خان کے لیے درج ہے کہ انہوں نے’نیچی ذات‘ کی عورت سے شادی کررکھی تھی۔ یہ ’نیچی ذات‘ کی عورتیں وہ تھیں جن کا تعلق کسی سرکردہ قبیلے سے نہیں تھا۔ انگریز کی استعماری پالیسی کس سطح تک جاکر اپنے محکوموں کے کوائف جمع کرتی تھی،یہ دستاویزاس کا بڑا چشم کشا مظہر ہے۔

جاگیروں اور القابات کی تفویض

انگریز نے اپنے دورِ اقتدار میں ہندوستان کی سیاسی،تعلیمی اور معاشرتی زندگی میں کس قدر اختیار حاصل کررکھا تھا ،اس کے جہاں اور بہت سے مظاہر ہیں، وہیں اس کاا یک مظہر ہندوستان کے مقامی سیاسی و تعلیمی عمائدین کو اعزازات سے نوازنے کی پالیسی بھی تھی۔’سر‘ کا خطاب انگریز حکومت نے بہت سوں کودیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’شمس العلما‘ کا اعزاز بھی استعماری حکام کی طرف سے عطا ہوتا رہا۔

نمائش میں رکھا گیا ’گزٹ آف انڈیا‘ کے 11جولائی1949 کے ایک صفحے کا عکس اُس نوٹیفیکشن پر مشتمل ہے جس کی رُو سے وائسرائے ہند نے ڈاکٹر عمر محمد دائود پوتہ کو شمس العلماء کے اعزاز سے سرفراز کیا۔ اس حکم نامے پر حکومت کے ایکٹنگ سیکریٹری اے ایم ٹی جیکسن کے دستخط ثبت ہیں۔ انگریز نے سندھ پر قبضہ کرنے کے بعد اُن لوگوں کو جاگیریں عطا کیں جنہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج کی قبضہ گیری میں اس کی مدد کی تھی۔1844 کی ایک سند کا عکس نمائش میں موجود تھا۔

مقامی سہولت کاروں کی’ عزت افزائی‘

نمائش میں رکھے گئے کاغذات میں چند سر ٹیفیکیٹ بھی ہیں جو انگریز حکومت کی طرف سے مقامی لوگوں کو اُن کی خدمات کے اعتراف میں دیے گئے۔ ایسے ہی ایک سرٹیفیکیٹ کا عنوان ہے’’آفرین نامہ‘‘۔ اس خوبصورت نام کا سرٹیفیکیٹ غلام قادر دایو نامی شخص کو دیا گیا ہے۔لاڑکانہ کے کلکٹر کے دستخطوں سے 12 اپریل1918 کو جاری کردہ اس آفرین نامے میں غلام قادر دایو کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ ’’یہ اعزاز آپ کو اُس خدمت کے اعتراف میں دیا جارہا ہے جو آپ نے فوج کے لیے ایک ریکروٹ سپلائی کرکے انجام دی ہے۔‘‘۔

آفرین نامے کی تاریخ بتارہی ہے کہ یہ پہلی جنگ عظیم (جو 28 جنوری 1914 سے 11نومبر1918تک جاری رہی)کے زمانے سے متعلق ہے۔یہ ایک معلوم تاریخی حقیقت ہے کہ انگریز نے جنگ کے دور میں ہندوستان سے بڑے پیمانے پر سپاہی بھرتی کیے تھے، یہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں فوجی سامان اور غذائی اجناس کی مال برداری کے لیے بہاولپور اور دوسرے ہندوستانی علاقوں سے اونٹ بھی بھرتی کیے گئے تھے۔ یہ سب خدمات استعمار کی طرف سے ’شاباشی‘ کی مستحق تھیں۔ آفرین نامے حاصل کرنے والے بھی، اگر انہوں نے یہ جنگی خدمات برضا و رغبت سر انجام دی تھیں ، تو اپنے تئیں سرخرو ہوتے ہوں گے۔

اخبارات کے نمونے

سندھ آرکائیوز میں پرانے اخبارات کی فائلوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے،ان میں جنگ، ڈان، حریت، مشرق، نوائے وقت،جسارت اور بہت سے اخبارات جو قیام پاکستان سے قبل یا بعد میں جاری ہوئے، شامل ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل کے اور متحدہ ہندوستان کے دنوں کے اخبارات میں’دکن ٹائمز‘ کے کئی شمارے اُس زمانے کے سیاسی رجحات کی تصویر پیش کرتے ہیں۔’دکن ٹائمز‘ کا یہ ریکارڈ پروفیسر شریف المجاہد کا عطیہ ہے ،جن کے پاس کتابوں، رسائل، دستاویزات اور اخبارات و رسائل کا ایک بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ اس کا ایک حصہ سندھ آرکائیوز کے حصے میں آیا۔مجاہد صاحب خود مدراس سے تعلق رکھتے تھے۔

آرکائیوز میں سندھ کے جو پرانے اخبارات طلبہ کو دعوت تحقیق دے رہے ہیں ان میں سکھر سے چھپنے والا انگریزی اخبار’ستارۂ سندھ‘ ، شکارپور کا سندھی زبان کا اخبار’وطن‘، سندھی ہی کا ’الوحید‘، اور انگریزی ہفت روزہ ’ دی سندھ سینٹینیل‘(جس کی سرخی کے نیچے چھپا تھا کہ یہ سندھ کا انگریزی زبان میں چھپنے وا لا واحد مسلم ہفت روزہ ہے) شامل ہیں۔ نمائش میں سندھی روزنامہ ’قربانی‘ کے کچھ شمارے بھی موجود تھے۔ شیخ عندالمجید سندھی کی ادارت میں نکلنے والایہ اخبار اپنے وقت کا اہم اخبار تھا۔ ’الوحید‘ کے 15ستمبر 1937کے شمارے کی ایک سرخی کا ترجمہ ہے: ’کانگریس وزارت کے خلاف کسانوں اور طلبہ کا زبردست مظاہرہ ‘۔ یہ 1937میں بننے والی کانگریسی صوبائی وزارتوں اور ان کے خلاف مسلم لیگ کی مہم کے پس منظر سے تعلق رکھنے والی ایک خبر کی سرخی ہے۔

اشتہاروں اور اعلان ناموں کے پوسٹر

نمائش میں ماضی کے بہت سے ایسے سیاسی اشتہار جو دیواروں پر لگائے جاتے رہے ہوں گے،اُن کے عکس فریم کرکے لگائے گئے تھے۔یہ اشتہار ماضی کا پراز معنی سفر طے کرادیتے ہیں۔’اطلاع عام‘ کے عنوان سے ایک اشتہار 11 اکتوبر 1916 کو ہونے والے ایک جلسے میں مسلمانوں کو مدعو کررہا ہے۔اطلاع ہے کہ ’ ـ’ایک جماعتِ برادرانِ وطن نے جو تحریک قانون میونسپلٹی میں مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کے خلاف پیدا کی ہے وہ اب اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ مسلمان اگر اُس جانب سے بے تعلقی کا طرز جاری رکھیں گے تو اُن کے سیاسی مفاد کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔اس لیے ضرورت ہے کہ مسلمان بھی اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے صدا بلند کریں۔

نمائش میں جنگ گروپ کے انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ کا ایک تراشہ

بدیں غرض ایک عام جلسہ بہ سرپرستی مسلم لیگ صوبۂ متحدہ، مسلمانانِ صوبۂ متحدہ بمقام لکھنو رفاہ عام بتاریخ 11اکتوبر1916 یوم چہار شنبہ بوقت 3بجے سہ پہر منعقد ہوگا۔تمام مسلمانانِ صوبۂ متحدہ سے استدعا و امید ہے کہ اپنی سیاسی زندگی کی بقا کی تدابیر پر غور کرنے کے لیے جلسے میں ضرور شرکت فرما ویں۔

عالی جناب آنریبل راجہ سر تصدق رسول صاحب بہادر کے سی ایس آئی صدرِ جلسہ ہوں گے۔اشتہار کے نیچے دس ’خادمانِ قوم‘کے نام درج ہیں، جو زیاد ہ تروکلا ہیں۔ یہ اشتہار مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب (separate electorates ) جس کو برطانوی حکومت نے 1909 میں تسلیم کرا تھا، مگر کانگریس جس کی شدید مخالف تھی، اس کے پس منظر میں یو پی میں ہونے والی سیاسی کشمکش کا مظہر ہے۔

آرکائیوز میں بیسیوں دیواری اشتہاروں، اعلان ناموں، اور سپاسناموں کے جہازی سائز کے پوسٹر موجود ہیں۔ یہ اردو یا انگریزی زبانوں میں ہیں۔ نمائش میں ان میں سے صرف چند ہی کے عکس منتخب کر کے پیش کئے گئے تھے۔بعض دیگر پوسٹروں کی سرخیاں کچھ اس طرح کی ہیں: ’’ مسلم ووٹرانِ مرکزی اسمبلی سے رہبرانِ ملت کی ا پیل‘‘، ’’ مسلم لیگ کی فتح عظیم اور اس کے حریفوں کی عبرتناک شکست‘‘، ’مسلمانانِ دہلی سے اپیل‘‘، اور ’’1945 ــ کا غزنوی جس نے سردار پٹیل کی ہاں میں ہاں ملا کر سومنات کا کفارہ دے دیا‘‘۔ مؤخرالذکر پوسٹر میں اشارہ پنجاب کانگرس کے صدرمولانا داؤد غزنوی کی طرف ہے جنہوں نے مسلمانوں کو مرکز میں مساوی نمائندگی دینے کے خلاف سردار پٹیل کے بیان کی تائید میں بیان دیا تھا۔

تصاویر

نمائش میں تاریخی تصاویر بھی بڑی تعداد میں آویزاں کی گئیں ۔ان میں بیشتر تحریک پاکستان کے زمانے سے متعلق تھیں، کئی قیام پاکستان کے بعد کی بھی تھیں۔ قائد اعظم کی تصاویر زیادہ تر وہ تھیں جو وقتاً فوقتاً چھپتی رہی ہیں، البتہ دوسرے رہنمائوں کی بعض تصاویر شاید پہلی مرتبہ منظر عام پر آئیں، کچھ تصویروں کے کیپشن درج کرنے میں احتیاط نہیں کی گئی ۔مثلاً ایک تصویر میں قائد اعظم کو دو لیڈروں کے ساتھ گورنر جنرل ہائوس میں بیٹھا دکھایا گیا ہے۔

پس منظر میں پاکستان کا جھنڈا بھی ہے۔ یہ تصویر یقیناً قیام پاکستان کے بعد کی اور گورنر جنرل ہائوس ہی کی ہے مگر قائد کے ساتھ بیٹھے دو لیڈروں کے نام غلام حسین ہدایت اللہ اور سر عبداللہ ہارون درج کیے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سر عبداللہ ہارون پاکستان بننے سے بہت پہلے 1942 میں وفات پا چکے تھے۔ اسی طرح گورنر جنرل ہائوس ہی کی ایک تصویر میں قائد اعظم کے ساتھ بیٹھے سر غلام حسین ہدایت اللہ کو سندھ کا چیف منسٹر لکھاگیا، جب کہ وہ پاکستان بننے سے پہلے تو سندھ کے چیف منسٹر رہے تھے مگر قیام پاکستان کے بعد وہ سندھ کے گورنر کے منصب پر فائز ہوئے۔ کیپشنوں کے اندراج میں برتی گئی بد احتیاطی ظاہر ہے کہ توجہ طلب ہے۔ امید ہے کہ آرکائیوز کا عملہ ان فروگذاشتوں کا ازالہ کرے گا۔

نقشے

سندھ آرکائیوز کے قیمتی سرمائے کا ایک اہم حصہ پرانے نقشوں پر مشتمل ہے۔ انگریز حکومت کے زمانے میں خاص طور سے نقشہ نویسی کو بڑی اہمیت دی گئی۔ا س وقت کے بہترین تکنیکی وسائل کو استعمال میں لا کر تمام ضلعوں ، تعلقوں، دیہاتوں، سڑکوں، آبی راستوں ،الغرض جملہ دیہی و شہری خطوں اور ذرائع آمدورفت کو نقشوں کی صورت میں مدون کیا گیا۔ سندھ آرکائیوز میں دادو ڈسٹرکٹ (1880-1940 )، کراچی ڈسٹرکٹ (1874-1940)، لاڑکانہ ڈسٹرکٹ (1880-1940)، نواب شاہ ڈسٹرکٹ (1870-1940) کے علاوہ کئی دوسرے اضلاع کے نقشے موجود ہیں۔

ان میں سے کئی نقشے نمائش کی بھی زینت بنے۔ سندھ آرکائیوز کی ایک روزہ نمائش نے ہمارے تاریخی و تہذیبی وَرثے کی بہت اچھی نمائندگی کی۔ آرکائیوز کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے ، ان کو مشتہر کرنے اور طلبا و اساتذہ کو ان کی جانب متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں بہت بڑی ذمہ داری تعلیمی اداروں اور اساتذہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ نئی نسل کو اس وَرثے سے روشناس کرانے کے لیے علمی اور عملی دونوں طرح کی تدابیر بروئے کار لائیں۔