انتظامی لحاظ سے پاکستان صوبوں، ڈویژنوں، اضلاع اور تحصیلوں پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ انگریزوں نے ملکی نظم و نسق کو چلانے کیلئے ڈسٹرکٹس یعنی اضلاع کے نظام کو تشکیل دیا تھا۔ سب سے پہلے چارلس نیپیئر نے صوبہ سندھ کو تین اضلاع میں تقسیم کیا، اس زمانے میں جو اضلاع بنائے وہ (1)۔ کراچی (2)۔حیدر آباد(3)۔ شکار پور تھے۔ ان کا قائم کیا ہوا اضلاع کا انتظام ہم نے بھی آزادی کے بعد جاری رکھا۔ قیام ِ پاکستان کے بعد اضلاع میں اضافہ ہوتا گیا۔ آج پاکستان میں )6؍ ستمبر2022ء) تک پاکستان میں اضلاع کی کل تعداد 135ہو چکی ہے۔ اس ہفتے ’’ٹنڈو محمد خان‘‘ کے بارے میں ملاحظہ کریں۔
ضلع ٹنڈو محمد خان صوبہ سندھ کے حیدر آباد ڈویژن کا ایک ضلع ہے۔2017ء کی مرد م شماری کے مطابق یہ پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے 95 نمبر پر آتا ہے۔ 4؍اپریل 2005ء کو اسے ضلع کا درجہ دیا گیا اس سے پہلے یہ ضلع حیدر آباد ضلع کی تحصیل تھی۔ اس کے شمال میں حیدرآباد اور ٹنڈو الٰہ یار کے اضلاع واقع ہیں جبکہ جنوب اور مشرق میں ضلع بدین ہے۔ مغرب میں اس کی سرحدیں ٹھٹھہ سے ملتی ہیں جبکہ شمال مغرب سے دریائے سندھ گزرتا ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع کی کل آباد ی 6,77,228 نفوس پرمشتمل ہے۔
جس میں مردوں کی تعداد 3,49,122اور خواتین کی 3,28,106ہے۔ ضلع کا کل رقبہ 1733مربع کلو میٹر ہے۔ انتظامی لحاظ سے ضلع تین تحصیلوں (تعلقوں) پرمشتمل ہے جو یہ ہیں،جن میں، بلڑی شاہ کریم تحصیل ،ٹنڈو محمد خان تحصیل،ٹنڈو غلام حیدر تحصیل شامل ہیں۔ ضلع میں 17یونین کونسلز ہیں۔ ٹیلی فونک رابطہ کوڈ 0224سے ہوتا ہے۔ ضلع کی تحصیل ٹنڈو محمد خان کی آبادی 2012ء کی مردم شماری کے مطابق 2,25,662 تحصیل بلڑی شاہ کریم کی آبادی 2,36,913اور تحصیل ٹنڈو غلام حیدر کی آبادی 1,84,653 نفوس پرمشتمل ہے۔
زرعی لحاظ سے ٹنڈو محمد خان ضلع بہت زرخیز ہے۔ اس کی 70 فیصد آبادی زراعت سے منسلک ہے۔ نہر پھلیلی کے کنارے باغات کی وجہ سے شہر کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ ضلع میں جو اہم زرعی پیداوار ہوتی ہیں ان میں گنا، چاول، گندم، کپاس، باجرہ، مکئی وغیرہ اکرم کینال پانی کیلئے اہم ذریعہ ہے۔ ضلع میں 20 چاول کی ملزاور 4عدد شوگر ملزہیں۔ پھلیلی اور پنیاری کینال میں ایک کاٹن جیننگ فیکٹری بھی قائم ہے۔
تعلیمی لحاظ سے ضلع میں شرح خواندگی 31.96 فیصد ہے۔ جس میں مردوں میں شرح خواندگی 41.03فیصد اور خواتین میں 22.31 فیصد ہے۔ 2017ء کی پاکستان ڈسٹرکٹ ایجوکیشن رینکنگ میں ٹنڈو محمد خان کا 115واں نمبرہے۔ ضلع میں مڈل اسکولوں کی عمارتیں نہ ہونے کے برابرہیں۔ بجلی کی کمی تعلیمی سرگرمیوں میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ،اب ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن شہر میں شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی قائم کیاگیا ہے۔ یہ نوزائیدہ ضلع ہے لہٰذا یہاں پر اسکولوں کے معیار اور سلیبس کے بارے میں بھی میٹنگ ہوتی ہیں یہاں کے رہائشی لوگوں نے ضلع میں تعلیمی سرگرمیوں اسکولوں اورکالجز کے قیام پر زور دیا ہے۔
ضلع کا انفرا اسٹرکچر بن رہا ہے اورجلد ہی معیاری اسکولز اورکالجز بنیں گے۔ ضلع میں ایک ڈگری کالج لڑکیوں کیلئے،ایک ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ اور ایک ووکیشنل انسٹیٹیوٹ ہے۔ ٹنڈو محمد خان ضلع میں صحت کی بنیادی سہولیات دی جا رہی ہیں۔ ٹنڈو محمد خان سندھ کا چوتھا ضلع ہے جہاں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیوویسکولر ڈیزیز کی برانچ کھولی گئی ہے یہاں دن رات دل کے مریضوں کے آپریشن اور OPDکی سہولیات مہیا ہیں۔ اس ادارے کے قیام سے ضلع کے لوگوں کو کراچی تک اب نہیں آنا پڑتا۔
ٹھٹھہ، بدین اور تھرپارکر کے لوگ بھی اب یہاں علاج کروانے آتے ہیں ان کو بھی اب کراچی نہیں جانا پڑتا۔ ضلع میں ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہے جو روزمرہ کے مریضوں کیلئے بنایا گیا ہے کچھ پرائیوٹ شفاخانے اور ڈسپنسریاں، یونانی اور حیوانات کے شفاخانے بھی قائم ہو چکے ہیں جس سے ضلع میں مزید صحت کی سہولتوں میں اضافہ ہوگا۔ 4رورل ہیلتھ سینٹرز اور پبلک ہیلتھ یونٹ 12عدد ہیں۔ ڈسٹرکٹ کونسل ڈسپنسریاں 20عدد، 6 ویٹرنری سینٹرز ہیں ضلع ٹنڈو محمد خان کی آب و ہوا خشک گرم موسم ہے۔ اپریل مئی اور جون کے مہینے خاصے گرم ہوتے ہیں۔
دسمبر اور جنوری کے مہینے سرد ہوتے ہیں۔ سردیوں میں کم سے کم درجہ حرارت 10سینٹی گریڈ اور گرمیوں میں درجہ حرارت 40سے 43 سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔ جولائی اور اگست میں بارشیں ہو جاتی ہیں زیادہ سے زیادہ 130ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی ہے۔ ضلع میں دیہات کی تعداد تحصیل ٹنڈو غلام حیدر میں 55دیہات ہیں تحصیل ٹنڈو محمد خان میں 29دیہات میں اور تحصیل بلڑی شاہ کریم میں 76گائوں ہیں اس طرح ضلع میں دیہاتوں کی تعداد 160ہے۔
ضلع میں 77.53فیصد مسلمان 22.25فیصد ہندو اور 0.22فیصد دیگرمذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ شہری آبادی 1828523 اور دیہی آبادی 494376یعنی 73فیصد لوگ دیہات میں رہتے ہیں۔ضلع ٹنڈو محمد خان میں بولی جانے والی زبانوں میں سب سے زیادہ سندھی 94.51فیصد اس کے بعد اُردو 1.69فیصد پنجابی 1.07فیصد اور دیگر زبانیں 2.73فیصد بولی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھیلی، گجراتی، کچھی، میمنی، میواتی، بگری، پشتو، پوٹھواری اور سرائیکی بھی بولی جاتی ہیں۔ ضلع حیدر آباد سے 35کلو میٹردور ٹنڈو محمد خان سڑک کے ذریعہ تمام بڑے شہروں سے منسلک ہے۔
کراچی سے اس کا فاصلہ 168کلو میٹر بدین سے 50کلو میٹر، جو قومیں ضلع میں آباد ہیں ان میں لغاری، لاشاری، خاصخیلی، مگسی، رند، چانڈیو، ڈار، ڈل، بھگرانی، خواجہ، نظامانی، شیخ، کیریو، لنڈ، ہالیپوٹا، چنگ، برہمانی، عالمانی، جمالی، سیتو، نوناری، سیال، ملاح، بروہی، بردی، سولنگی، پلیجو، جوکھیو، ساندھ، کاٹھور، کھوڈیو، ہندو اور عیسائی لوگ ہیں۔یہاںکے زیادہ تر لوگوں کا پیشہ زراعت ہے جو تقریباً 70فیصد ہے۔ اس کے علاوہ تجارت، مزدور،ماہر تعلیم، ڈاکٹرز، شوگر انڈسٹری اور آئل ایکسپولوریشن کے ماہرین، انجینئرز، پلانرز، ماہر تعمیرات اپنااپنا کردار ضلع کی ترقی میں ادا کررہے ہیں۔ضلع میں کچھ معدنیات بھی پائی جاتی ہیں جن میںکوئلہ کی کانیں اور 3عدد تیل و گیس فیلڈ موجود ہیں۔
ٹنڈو محمد خان،میر محمد خان تالپور نے آباد کیا تھا انہی کے نام پر ’’ٹنڈو محمد خان‘‘ رکھا گیا۔ برٹش راج میں اس علاقہ کو گنی(GUNI)آف ٹنڈو محمد خان کے نام سے مشہور تھا۔ ٹنڈو علاقے کے قریب بودھ کی پہاڑیاں ’’بودھ جائکہ‘‘ قدیم آثار قدیمہ ہیں۔ یہاں ایک قلعہ تھا جو غالباً 711ء میں محمد بن قاسم کے سندھ پر حملہ سے پہلے کوئی بد ھ دھرم کا مندر ہوا کرتا تھا۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قلعہ یہیں کہیں ہوگا۔ یہاں بلڑی شاہ کریم ایک صوفی منش شاعر اور بزرگ گزرے ہیں جن کا مزار بلڑی شاہ کریم میں ہے۔انہی کے نام سے ٹنڈو محمد خان کی ایک تحصیل کا نام بلڑی شاہ کریم رکھا گیا ہے۔ اس تحصیل کا اصل نام سید پور تھا۔ اور یہ سجاول روڈ پر واقع ہے۔ شا ہ عبداللطیف بھٹائی کے دادا سید عبدالقدوس کا مزار بھی یہیں ہے اور ایک درویش سید ابراہیم بھی اسی جگہ مدفون ہیں۔
ضلع ٹنڈو محمد خان میں ڈپٹی کمشنر کا آفس، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن، فنانس و پلاننگ ڈپارٹمنٹ ، ریونیو ہیلتھ، ورکس اینڈ سروسز، انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے دفاتر قائم ہیں۔ ڈاک کی سروس کے لئے جنرل پوسٹ آفس اور متعدد ڈاکخانے کام کر رہے ہیں۔ شہرکے پہلے ناظم عنایت علی خان تالپور تھے اور پہلے نائب ناظم پیراشفاق احمد سرہندی تھے۔ضلع میں 17یونین کونسلز کا م کر رہی ہیں۔ ضلع کے مشہور مقامات میں مزار شاہ عبدالکریم بلڑی وارد، ٹنڈو محمد خان ریلوے اسٹیشن، سرخ سندھی مویشی فارم ، کچہری فارم اور دین فارم قابل ِ دید ہیں۔
سیاسی لحاظ سے یہ ضلع ملکی سیاست میں بہت سرگرم ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعدادو شمار کے مطابق ضلع میں کل ووٹرز کی تعداد 2,74,941 ہے جو 45.08 فیصد بنتاہے۔ ضلع میں قومی اسمبلی کی ایک نشست NA-228ہے۔ جس میں 2018ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر جیتے تھے۔ ضلع میں دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں PS-68 سے سید اعجاز حسین اور PS-69 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے عبدالکریم سومرو کامیاب ہوئے تھے۔
ٹنڈو محمد خان ضلع کی مشہور شخصیات میں میر محمد خان تالپور مرحوم، سید میران محمد شاہ مرحوم، میرغلام علی خان تالپورمرحوم، پروفیسر سید غلام مصطفی شاہ مرحوم، خان بہادر سید محمد کامل شاہ مرحوم، میرغلام اللہ خان تالپورمرحوم، سید قمرالزمان شاہ، سید محسن شاہ بخاری، میر اعجاز علی خان تالپور، محمد نواز چانڈیو، پیر غلام حیدر شاہ مرحوم، عنایت علی خان تالپور، پیرخالد سعید جان سرہندی، اے ڈی خواجہ، ڈاکٹر سید ندیم قمر، اللہ بخش سومرو، روشن عیسانی۔ یہ ضلع ادب کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے یہاں جو مشہور شاعر و ادیب ہیں ان میں امداد حسین، پروانو بھٹی، ڈرامہ نگار محترمہ نورالہدیٰ شاہ، مرحوم محمد ابراہیم منشی، مرحوم حافظ حمید ٹکرانی، پروفیسر پیر بخش پیاسی، پروفیسر زیب بھٹی، ایاز پٹولی، ڈاکٹر ابراہیم سندھی، پروفیسر قادر بخش مگسی، ڈاکٹر انوار عالمانی، پروفیسر محمد موسیٰ بھٹی، محمود مہروی وغیرہ وغیرہ۔
ضلع ٹنڈو محمد خان صوفیوں، بزرگوں کے مزارات کی وجہ سے خاصی توجہ کا مرکز رہا ہےصوفی بزرگ حضرت شاہ عبدالکریم بلڑی کا مزار وارو میں ہے ان کے علاوہ اور بھی بزرگانِ دین کے مزارات ہیں، جن میں حضرت آغا عبدالرحمن جان (مقبرو شریف میں ہیں) حضرت سید عبدل الفتاح شاہ بخاری(ٹنڈو سینداد) میاں حاجی اللہ اُبھایو علوی (سعید پورہ) حضرت سخی سید مرتضیٰ شاہ (ٹنڈو سینداد) حضرت سید پیر حسین علی شاہ، حضرت نظر محمد شاہ (نصیرآباد) حضرت سبھاگو فقیر(بحرانی محلہ) پیرآغا عبدالحمید جان سرہندی، میاں محمد اسحاق (ملا کاتیرار) کےمزارات ہیں
تاریخی مقامات
ٹنڈو محمد خان کی تاریخی اور مشہور جگہیں ، مقبرہ بلڑی شاہ کریم، شاہجہان مسجد بلڑی شاہ کریم، سوھو رول واتھل تعلقہ بلری شاہ ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب جو اگست 2022ء میں پورے ملک میں آیا اس میں ٹنڈہ محمد خان کا ضلع بھی نہیں بچ سکا۔ بارشوں نے وہ تباہی مچائی کہ کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ لوگوں کے گھر بار میں پانی آگیا N-5 جو شاہراہ ہے اور ریلوے اسٹیشن کی پٹڑی تک مکمل ڈوب گئی ہے۔ ضلع میں سڑکوں کے بہہ جانے کی وجہ سے آمدورفت متاثر ہے۔