• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

6اضلاع پر مشتمل سندھ کا دوسرا بڑا ڈویژن ’حیدر آباد‘

حیدر آباد ڈویژن سندھ کا دوسرا بڑا ڈویژن ہے۔ سندھ حکومت نے 11؍جولائی 2011ء کو اسے ڈویژن کی حیثیت دی۔ اس کی آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 105,92,635ہے، کل رقبہ 33,527کلو میٹر ہے۔ انتظامی لحاظ سے حیدر آباد ڈویژن چھ اضلاع پر مشتمل ہے، ضلع حیدرآباد، ضلع دادو، ضلع جامشورو ، ضلع مٹیاری ، ضلع ٹنڈوالٰہ یاراور ضلع ٹنڈو محمد خان۔محل ووقوع کے اعتبار سے حیدرآباد ڈویژن کے شمال میں شہید بے نظیر ضلع اور سانگھڑ کے ضلع ہیں۔ جنوب میں ضلع بدین مشرق میں ضلع تھرپارکر اور مغرب میں ضلع ٹھٹھہ ہیں۔ جامشور، ٹنڈوالٰہ یاراور ضلع ٹنڈو محمد خان کے بارے میں آپ کے گوش گزار کر چکے ہیں اس ہفتے،ذیل میں حیدر آباد ڈویژن کے مزیدتین اضلاع کا تعارف پیش کر رہے ہیں۔

ضلع حیدر آباد

حیدر آباد ایک قدیمی شہر اور دریائے سندھ کے کنارے آباد ہے۔ اس شہر کا پرانا نام ’’نیرون کوٹ‘‘ تھا لیکن بعد میں حضرت علی (حیدرکرار) کے نام سے حیدر آباد پڑ گیا۔ شہر کی بنیاد میاں غلام شاہ کلہوڑہ نے 1768ء میں رکھی تھی۔1789ء میں تالپور حکمران میر فتح علی خان نے اسے دارالحکومت بنایا۔ حیدر آباد، سندھ کا دوسرا بڑا صنعتی شہر ہے۔ یہاں سیمنٹ، کپڑے، کاسمیٹکس، پلاسٹک کی مصنوعات، چوڑی سازی، رنگ سازی، بناسپتی گھی، چمڑا سازی، جفت سازی، قالین بافی، ہینڈی کرافٹس کے کارخانے قائم ہیں۔ حیدر آباد کے ساتھ ہی صنعتی ایریا ’’نوری آباد‘‘ بھی اب ترقی کر رہا ہے تقریباً 200کے قریب کارخانے کام کر رہے ہیں۔زرعی لحاظ سے بھی حیدر آباد ضلع خاصا زرخیز ہے،یہاں گندم، جوار، مکئی، باجرا اور چاول اہم فصلیں ہیں۔

خریف کی فصل میں کپاس، سرسوں اورگنا شامل ہیں۔ ضلع میں ہر قسم کی سبزیاں بھی کاشت ہوتی ہیں۔ حیدرآباد کو بادبانوں حسین شاموں اور دلنواز صبح کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا پرانا شہر جس میں پھلیلی، پریٹ آباد، سرے گھاٹ اور چھوٹکی گئی وغیرہ کا علاقہ شامل ہے، جبکہ اسی پرانے شہرکا علاقہ ہیرآباد جہاں قیامِ پاکستان سے پہلے ہندوئوں کی آبادی تھی زیادہ وسیع اورکشادہ ہے۔ غلام شاہ کلہوڑہ نے یہاں پکی اینٹوں کا ایک عظیم الشان قلعہ تعمیرکرایا تھا۔ حیدرآباد میں بھٹ شاہ کے مقام پر صوفی شاعر، شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ کا آخری مسکن ہے۔ قریبی ہالا شہر ہے۔

حیدرآباد میں اُردو، سندھی، پنجابی،گجراتی، بلوچی، پشتو، سرائیکی اور میواتی زبان بولنے والوں کی ملی جلی آباد ی ہے۔ دیکھا جائے تو سندھ کی سیاست کا مرکز بھی حیدرآباد رہا ہے ،یہاں سے تعلق رکھنے والے سپوت، سر غلام حسین، ہدایت اللہ، قاضی محمد اکبر، غلام مصطفی قاسمی، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، ڈاکٹر نجم الاسلام انصاری، اساتذہ میں ڈاکٹر پروفیسر انصاری، ڈاکٹر ابراہیم خلیل، غلام محمد گڑی، محمد عثمان ڈیپلائی، ڈاکٹر الیاس عشقی، پروفیسر عظیم عباسی، شمشیر الحیدری، محسن بھوپالی، حمایت علی شاعر اور ممتاز مرزا جیسے ادیب و شاعر ہیں، جبکہ اداکاروں میں اداکار محمد علی، مصطفی قریشی، روبینہ قریشی، ساقی، عبدالکریم بلوچ، محمد جمن اور استاد امید علی خان ، سیاستدانوں میں سید نوید قمر، قاضی عابد، احد یوسف اور مولانا وصی مظہرندوی جیسے سیاستدان شامل ہیں۔ تعلیمی لحاظ سے دیکھا جائے تو حیدر آباد میں 1954ء میں کراچی سے سندھ یونیورسٹی حیدر آباد منتقل ہوئی۔ لیاقت میڈیکل کالج ،کالجز میں سٹی کالج، گورنمنٹ کالج حیدرآباد، زبیدہ گرلز کالج، غزالی کالج حال ہی میں قائم ہونے والی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآباد اہم تعلیمی مراکز ہیں۔ 

شاپنگ سینٹرز میں اہم شاہی بازار، ریشم گلی، تلک چاڑی اور گاڑی کھاتہ مشہور ہیں۔ تفریح گاہوں میں رانی باغ، نیاز اسٹیڈیم، ٹھنڈی سڑک، ایئرپورٹ، کوٹری بیراج، گدو بندر جیسی جگہیں ہیں۔ حیدر آباد میں سندھی ادبی بورڈ 1962ء میں بنا ،مہران سہ ماہی مجلہ یہی بورڈ نکالتاہے۔ شاہ ولی اللہ اکیڈمی، مذہبی کتابوں کا مرکز، حیدر آباد سے کئی روزنامے اور ماہنامے شائع ہوتے رہے ہیں۔ جن میں ’’ہلال پاکستان‘‘ اور عبرت شامل ہیں۔ اُردو روزناموں میں صرف پاسبان ہی جاری رہ سکا۔ حیدرآباد کی اہم عمارتوں میں مکھی بلڈنگ، پوکھیانی بلڈنگ، تولہ رام بلڈنگ، کانگریس محل، روپ محل، شری رام بلڈنگ، ہوم اسٹڈیم ہال، بسنت ہال، سرکٹ ہائوس، سیشن کورٹ بلڈنگ، گول بلڈنگ، اسٹیٹ لائف بلڈنگ، نیشنل بینک بلڈنگ، نول رائے مارکیٹ، کلاک ٹاور سول ہسپتال، ایچ ڈی اے بلڈنگ وغیرہ وغیرہ۔

انتظامی لحاظ سے ضلع حیدرآباد چار تحصیلوں (تعلقوں) پر مشتمل ہے،جن میں حیدر آباد شہر، حیدرآباد دیہی، لطیف آباد تحصیلاور قاسم آباد تحصیل۔ حیدرآباد ضلع کارقبہ 908کلو میٹر، آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 21,99,463 ہے۔ یہ ضلع 1843ء میں قائم ہوا تھا۔ضلع میں مسلمان 90.86 فیصد، ہندو 8.2فیصد، عیسائی8.86فیصد اور دیگر مذاہب کے ماننے والے 0.06فیصد رہتے ہیں۔ 

ضلع میں 88دیہات ہیں ۔ یونین کونسلز کی تعداد 52ہے۔ رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 10,49,585ہے، جس میں مرد، ووٹرز 579371 اور خواتین، ووٹرز 4,70,214ہیں۔ قومی اسمبلی کی تین نشستیں NA-227تا NA-225 ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی چھPS-67تاPS-62 ہیں۔ سیاسی شخصیات میں رسول بخش تالپور، میر علی احمد تالپور، میر اعجاز علی تالپور، سید نوید قمر، صاحبزادہ ڈاکٹرابوالخیر، نواب راشد علی خان، کنور نوید جمیل، آفتاب احمد شیخ اور خالد مقبول صدیقی نمایاں ہیں۔

ضلع دادو

یہ حیدرآباد ڈویژن کا دوسرا ضلع ہے، اس ضلع کا نام ’’داد نامی‘‘ کے نام پر پڑا۔ اس کو 1932ء میں ضلعی حیثیت ملی تھی۔ ضلع کا رقبہ 7,866کلو میٹر، آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 15,50,266ہے۔انتظامی لحاظ سے ضلع چار تحصیلوں پر مشتمل ہے ،جن میں دادو تحصیل ، جوہی تحصیل، خیرپور ناتھن شاہاور میہڑ تحصیل شامل ہیں، ضلع میں 52یونین کونسلز ہیں۔ ضلع کی سرحدیں مغرب میں کراچی اور مشرق میں لاڑکانہ کو چھو رہی ہیں۔ 

دادو کراچی سے کوئٹہ جانے والی مرکزی ریلوے لائن پر واقع ہے۔ یہ زیادہ پرانا شہر نہیں اس کی عمر تقریباً دو سو سال کے لگ بھگ ہے۔ شہر میں طرز تعمیر جدید ہے اور خوبصورت عمارتیں جن میں ٹریژری آفس کی بلڈنگ، ڈسٹرکٹ کونسل بلڈنگ، مختیار کار آفس، ڈپٹی کمشنر کا آفس اور جیل کی عمارت اہم ہیں۔ شہرمیں کئی محلے ہیں ،جن میں مشہور شاہانی محلہ، جگت آباد محلہ، غریب آباد محلہ، شمس آباد محلہ، مزدور آباد، کنبھار محلہ ، میر بحر محلہ، آخوند محلہ اور وڈیرا محلہ قابل ِ ذکر ہیں۔ ضلع دادو میں کئی بازار ہیں جن میں مشہور شاہی بازار شہر کا سب سے بڑا بازار ہے اس کے علاوہ رائے بازار اور کئی چھوٹے چھوٹے بازارہیں۔ شہر میں چار چوک ہیں ،جو بازار وں کے اہم چواہوں پر قائم ہیں۔ یہ چوراہے نیا چوک، پرانا چوک، چاندنی چوک اور نورانی چوک کے نام سے مشہور ہیں۔

شہر میں علاج و معالج کے لئے سب سے بڑا ’’سول ہسپتال‘‘ ہے، جبکہ جگہ جگہ کئی پرائیوٹ کلینک بھی ہیں۔ شہر میں ایک اسٹیڈیم ہے جہاں کالجوں اور اسکولوں کےطلبا کے درمیان مقابلے ہوتے ہیں ،ہر سال پاکستان والی بال شوٹنگ ٹورنامنٹ منعقد ہوتا ہے،جس میں ملک بھر سے ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ ضلع دادو میں مختلف اقوام آباد ہیں، جن میں پنہور، سولنگی، قریشی، شیخ ، صدیقی، قاضی وغیرہ۔زرعی لحاظ سے ضلع خاصا زرخیز ہے یہاں کی پیداوار میں کاٹن، چاول،گنا، جوار، باجرہ، گندم، مکئی اور تمباکو ہیں ،جبکہ پھلوں میں کیلا، کجھور، آم، فالسہ، پپیتا، مالٹا، لیمن اور انگور کے باغات ہیں۔ ضلع میں 2,17,000ایکڑ اراضی پر جنگلات ہیں۔ گائے، بھینس، بھیڑیں، اونٹ، گھوڑے اور گدھے بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ضلع میں آثار قدیمہ چنہورڑو، خدا آباد اور دوسو سال قدیم جامع مسجد کی صورت میں موجود ہیں۔ثقافتی لحاظ سے دادو میں میلے، ملاکھڑے ہوتے ہیں۔ شہرمیں تین میلے سلطان شاہ، فقیر بہرام خان اور دادن شاہ لگتے ہیں۔ سب سے بڑا میلہ حضرت لعل شہباز قلندرؒ کے سالانہ عرس کے موقع پر لگتا ہے۔

دادو میں سیروتفریح کے لئے ایشیا کی سب سے بڑی جھیل’’منچھر‘‘ ہے۔ یہ جھیل دادو سے 20کلو میٹر دور ہے۔ منچھر جھیل ہمیشہ سے غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ جھیل کے پرندے یہاں کی اہم سوغات ہیں۔علمی و ادبی اور سیاسی لحاظ سے بھی دادو نمایاں رہا ہے۔ یہاں کی اہم شخصیات میں حافظ احسن چنہ، آخوند عبدالعزیز، سیٹھ شمس الدین میمن، شفیع محمد اسی، اہل علم و قلم میں تاج صحرائی، استاد بخاری، وزیر منگی، اطہر منگی، عثمان میمن، سلیم سولنگی، عادل سنجرانی،آخوند رحمت اللہ شامل ہیں۔ ایک لائبریری ، علامہ آئی آئی قاضی کے نام سے منسوب ہے۔

صنعتی لحاظ سے، چاول صاف کرنے ، کپاس اور کاٹن کے کارخانے، شوگر مل اور دیگرکارخانے ہیں۔ ضلع معدنی ذخائر سے بھی مالا مال ہے۔ سیاسی لحاظ سے بہت سرگرم ہے۔ مشہور سیاسی شخصیات میں لیاقت علی خان جتوئی، غلام نبی سومرو، ظفر علی خان، پیر مظہرالحق، علی محمد سومرو اور رفیق احمد جمالی ہیں۔ ضلع میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں NA-235، NA-234 ہیں، جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں چار PS-86تاPS-83ہیں ووٹرز کی تعداد733,351ہے۔ یہ کہنا صحیح ہے کہ ’’دادو جادو‘‘ ہے۔ اس لئے اس ضلع کا پیار ومحبت کاجادو ہرکسی کو اپنا اسیر بنا لیتا ہے۔

ضلع مٹیاری

یہ حیدر آباد ڈویژن کا چھٹا ضلع ہے۔حیدرآباد سے 35کلو میٹر دور قومی شاہراہ پر واقع ہے۔ مٹیاری کو سندھ کی تاریخ میں ادب کے حوالے سے ہمیشہ منفرد مقام حاصل رہا ہے۔ جتنے علماء و فضلاء اس شہر میں موجود تھے، شاید ہی کسی اور شہر میں ہوں۔ مٹیاری کو ضلعی حیثیت 04؍اپریل 2005ء کو ملی۔اس کا رقبہ 1417کلو میٹر اور آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 7,69,349نفوس پر مشتمل ہے۔30یونین کونسلز ہیں ۔انتظامی اعتیار سے مٹیاری ضلع تین تحصیلوں (تعلقوں) پر مشتمل ہے۔1۔ ہالا تحصیل 2۔مٹیاری تحصیل 3۔ سعید آباد تحصیل ضلع میں مسلمان 83.28فیصد، ہندو 16.66فیصد اور دیگرمذاہب سے تعلق رکھنے والے 0.96فیصد ہیں۔ ضلع میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان سندھی ہے جو 92.50 فیصد، اُردو 2.68فیصد، پنجابی 1.10فیصد، بلوچی 1.04فیصد اور دیگر زبانیں جوبولی جاتی ہیں وہ 2.68فیصد ہیں۔ مٹیاری سندھ کا سب سے زیادہ زرخیزی والا ضلع ہےاور سب سے زیادہ جو فصل پیدا ہوتی ہے وہ کپاس ہے، اس کے علاوہ کیلا، آم، گندم، پیاز اور گنا پیدا ہوتا ہے۔ 

ضلع میں دیہات کی تعداد112ہے۔ محل و قوع کے اعتبار سے مٹیاری کی سرحدیں شمال میں ضلع شہید بے نظیر آباد جنوب میں ضلع حیدر آباد، مشرق میں ضلع سانگھڑ اور ٹنڈوالٰہ یار اور مغرب میں دریائے سندھ سے ملتی ہیں جس کے پار ضلع جامشورو واقع ہے۔ یہاں جو اقوام رہتی ہیں ان میں مقلوی سادات سرہندی، پیر، قاضی، میمن، سمہ، لاکھا، منگوانا، سومرہ، ساء، خاص خیلی، پنہور، ترک ، میگھواڑ اور شیدی قابل ذکر ہیں۔ تحفۃ الکرام میں اس شہر کے بارے میں ھیوڑ نے لکھا ہے کہ یہ شہر 1322ء میں ایک سمہ نے بنایا تھا۔ تاریخ میں مٹیاری کا پہلے نام مقلوی تھا، اسے مٹارن بھی کہتے تھے۔ پیرومل نے مقلوی سادات لکھا۔ مقلوی سادات نے اس علاقہ کی بنیاد 801ہجری میں رکھی تھی۔ 

پہلے یہ علاقہ متعلوی اور پھر مٹیاری مشہور ہوگیا۔اس کے آثارِ قدیمہ میں مشہور مساجد 1۔ مینارے والی مسجد 2۔ جامع مسجد (شاہی بازار)3۔ پیرزادہ مسجد یہ مساجد سیاحوں کے لئے انتہائی دیدہ زیب ہیں۔ یہاں سندھ کی پہلی اسلامی یونیورسٹی قائم ہوئی مٹیاری مدارس، مساجد اور حافظ ِ قرآن لوگوں کا شہر کہلاتا ہے۔ مٹیاری کے میلے اور عرس بہت مشہور ہیں۔ محقق ارشاد شاہ ہاشمی یہاں کے عرس اور میلوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’مٹیاری کی تاریخ یہاں کی خانقاہوں اور منعقد ہونے والے میلوں کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔‘‘ضلع مٹیاری میں بھٹ شاہ کے مقام پر سندھ کے عظیم صوفی شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ کے مزار کے باعث اس ضلع کو اہم تاریخی حیثیت حاصل ہے جبکہ ہالا میں مخدوم نوح سرور ؒ کی درگاہ اور شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ کی جائے پیدائش ہالا حویلی ۔یہاں کے دیگر تاریخی مقامات ہیں۔

ضلع مٹیاری نے بڑے بڑے سیاسی رہنمائوں کو جنم دیا جن میں مشہور مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ (شاعر و رہنما) سابق وفاقی وزیر مخدوم امین فہیم سابق وزیراعلیٰ سندھ مخدوم خلیق الزماں سابق وزیر مملکت شگفتہ جمانی، سید پیر نور شاہ ہاشمی، سید حاجی امیر علی شاہ جاموٹ، سید شہاب الدین شاہ حسینی، سید جلال شاہ جاموٹ، مذہبی شخصیات میں شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ، مخدوم سرو ر نوح ؒ ، سید آدم شاہ، سید ساجد سوائی، سید علی ٭٭٭،حضرت پیر آغا عبدالرحیم، پیر آقاغلام مجدد، پیر محمد عمر جان سرہندی ؒ ، مخدوم محمد عثمان، قاضی لعل محمد، آخوند محمد بچل انور، میاں جڑیل میمن، شیخ ابراہیم بن ستابو، ادبی وسماجی ٭٭٭ میں پروفیسر حاجی محمد حاجی شیخ، غلام نبی مغل (صحافی) غلام محمد میمن (ادیب) پیر بہائو الدین سرہندی، محمد حاجی سائل محمد (عالم دین) عبدالرزاق میمن (سندھی کہانی نویس) عبدالرحمن میمن (اہل حدیث عالم دین)۔

مٹیاری اجرکوں کا گڑھ ہے۔ رلّی بھی سندھی ثقافت کا حصہ ہے اس کے علاوہ گھریلو دستکاریوں میں سندھی کڑاہی والے گلے، سندھی ٹوپیاں، لوئی اور بیٹری خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ مٹیاری میں کل ووٹرز کی تعداد3,42,904ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 1,82,892اور خواتین ووٹرز 1,60,012ہے۔ضلع میں قومی اسمبلی کی ایک نشست NA-223اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں PS-59 تا PS-58ہیں۔ فون کوڈ نمبر02203ہے۔ ضلع مٹیاری اپنی مصنوعات اور مخصوص پارچہ جات کی وجہ سے پورے سندھ میں ترقی کی منازل طے کر رکھا ہے۔