• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کا چھو ‘‘ صحرائے تھر کے بعد سندھ کا دوسرا بڑا صحرا ہے جو ضلع دادو سے لے کر شمال میں قمبر ، شہداد کوٹ اور جیکب آباد میں بلوچستان کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے ۔کاچھو سندھی زبان کا لفظ ہے ،جس کے اردو معنی ’’دامن‘‘یا گود ‘‘ کے ہیں ۔یہ صحرائی علاقہ کیر تھر کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے۔ اسی لیے اسے ’’کاچھو ‘‘کانام دیا گیا۔

اس کی مغربی سمت کیرتھر کا پہاڑی سلسلہ ،مشرق میں فلڈ پروٹیکشن یعنی ایف پی بند اور دریائے سندھ، جنوب میں منچھر جھیل اور شمال میں جیکب آباد اور بلوچستان کے ’’کچھی ‘‘کا صحرا ہے۔ مقامی آبادی زیادہ تر کھیتی باڑی کے پیشے سے وابستہ ہے لیکن صحرائے تھر کی مانند کاچھو بھی بارانی علاقہ ہے۔ زیادہ تر یہاں خشک سالی کا دورہ دورہ رہتا ہے ،جب بارشیں ہوتی ہیں تو کیر تھر کے پہاڑی سلسلے سے پانی نشیب کی طرف بہہ کر آتا ہے اور صحرا میں سبزہ اگنے لگتا ہے۔ بارش کے بعد کاچھو کے باسیوں کی زندگی میں بھی بہار آجاتی ہے اور دہقان فصلیں کاشت کرتے ہیں۔

سندھ کا دوسرا بڑا صحرا جس کی وسعت دادو سے جیکب آباد تک ہے 

جب مینہ نہیں برستا تو ان علاقوں میں خشک سالی کے باعث قحط پڑجاتا ہے اور لوگ دوسرے علاقوں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں ۔مقامی لوگ قحط سالی سے پریشان ہو کر بیراجی علاقوں میں پڑاؤ ڈالتے تھے جہاں گندم کی فصل تیار ہوتی تھی اور یہ لوگ اجرت پر گند م کی کٹائی کرتے تھے ۔فصل کی کٹائی کرنے والوں کو سندھی زبان میں ’’لاہیارا ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ لاہیارے گندم کی فصل کاٹنے کے بعد اجرت کے طور پر اناج لے کر واپس کا چھو آتے ہیں ۔لیکن موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہاں بھی اب بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے کاچھو کے باسیوں کے نقل مکانی کے رجحان میں کمی واقع ہوئی ہے۔

بارشوں کے موسم میں کھیر تر پہاڑی سلسلہ میں سے برساتی نالے کاچھو کے صحراکی جانب بہتے ہیں، جس سے زمینیں سیراب ہوتی ہیں۔ ان میں جھل مگسی ،نئے مولہ یا مولا ،سالاری ،گاج ،نلی ،ککڑانی ،ہلیلی ،کھند ھانی، انگئی، نئیگ اور دوسرے برساتی نالے صحرائی علاقے کو سیراب کرتے ہیں ۔وسطی سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں مون سون کے موسم کے علاوہ بھی بارشیں ہونے لگیں لیکن کنوئیں خشک ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی قحط آب کا شکار ہوگئی۔

زیر زمین پانی کی سطح 60 سے 70 فٹ سے بھی نیچے چلی گئی ،خاص طور پر جوہی شہر سے متصل علاقے ،چھنی ۔سالاری اور شاہ گوڈرو اور دیگر علاقے شدید متاثر ہوئے، لوگ پینے کے پانی کو بھی ترس گئے اور ان کے مویشی پیاس سے مرنے لگے ،جس کی وجہ سے وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے۔

کاشت کاری کے علاوہ کاچھو کے باسیوں دوسرا ذریعہ معاش بان (رسی ) کاتنے کا ہے ۔بان کی پتلی رسیاں چار پائیاں بُننے میں کا م آتی ہیں۔ بان ’’پیش ُ‘‘(peesh) نامی پودے کے پتوں سے بنتا ہے جو کھجور کے پتوں کی مانند ہوتے ہیں۔ بان بنانے کا کام زیادہ خواتین کرتی ہیں۔ کاچھو میں جال کا درخت وافر تعداد میں پایا جاتا ہے۔ اس میں جو میوہ لگتا ہے اسے ’’پیروں‘‘ کہتے ہیں۔ پیروں کا پھل انتہائی خوش ذائقہ ہوتا ہے جسے کاچھو کی سوغات سمجھا جاتا ہے۔

خود رو پودے اورجڑی بوٹیاں بھی صحرائی میدانوں میں ہر طرف اُگی نظر آتی ہیں۔ کئی سال کی قحط سالی اور قلت آب کے باعث جنگلی حیات یاتو کاچھو سے ناپید ہوگئی یا پھر انسانوں کی طرح دیگر علاقوں کی جانب ہجرت کر گئی تھی ،مگر اب گزشتہ دوسال سے بارشوں کے بعد جب ہر طرف سبزہ نظر آتا ہے ،درخت اور پودے اُگے ہوئے ہیں۔ سفید تیتر اور گیدڑ بھی بڑی تعداد میں نظر آنے لگے ہیں۔ محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق کاچھو میں تیتر ،پٹ تیتر ،بٹیر ،فاختہ ،سرہ ،ہرن ،لومڑ ،گیدڑ ،سیڑھ اور دوسرے جنگلی جانور پائے جاتے ہیں۔