• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے قدیم اور تاریخی شہر نصرپور میں واقع سندھی زبان کے قادر الکلام صوفی شاعراور سندھ میں بیحد مقبول صنف سخن ’’کافی‘‘ کے بادشاہ سائیں مصری شاہ کے مزار پر حاضری دے کر سندھ کے نامور کاشی گر استاد مشتاق احمد کی اوطاق کی طرف بڑھنے لگا تو میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی۔ ہر دکان، ہر گھر ٹائیلوں سے سجا ہوا۔ پورا شہر عجائب گھر ہو جیسے ! عین اسی وقت ہنگری کے بیسویں صدی کے اوائل کے نامور شاعر، گیولا جوہاسز کی ایک نظم میرے ذہن میں گونجنا شروع ہوئی:

آیئے: ان لوگوں کا خیال کریں

جو آزادی سے گیت گاتے ہیں

جن کے پاس مفروضات اور داستانوں

کے بہت بڑے خزانے ہیں

جن کی عورتیں برتنوں پر نقش و نگار بناتی ہیں

اور جن کے مرد اپنے سونے جیسے ہاتھوں سے

لکڑی پر کندہ کاری کرتے ہیں

ان کا یہ کام تو فنا ہوگا ہی نہیں

اگرہوگیا تو پھر انسانیت بھی فنا ہو جائے گی

آیئے! ان کے کام کو جمع کریں

اور دل سے محفوظ کریں

آیئے! ان سے بہت کچھ سیکھیں

ان کا فن تو فطرت کی طرح دائمی ہے

ان کا فن تو تاریخ کا تسلسل ہے

ان کا فن تو ہماری روح کا حصہ ہے

گیولا جوہاسز نے یہ نظم نصرپور کے لوگوں کیلئے ہی لکھی تھی جیسے ۔ نصر پورمیں ہر طرف حیرت ہی حیرت،ہر طرف فن ہی فن،ایک باکمال فن۔

استاد مشتاق احمد اپنی چوپال کے باہر میرے منتظر تھے۔ مجھے دیکھ کر آگے بڑھے اور گلے سے لگا لیا۔ اوطاق کے داخلی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو ایک اور حیرت میری منتظر تھی۔ ایک بڑے ہال نما کمرے میں موئن جودڑو کا ایک بہت بڑا ریپلیکا (Replico) بن رہا تھا۔ ذہین اور متین نوجوان ڈاکٹر اشفاق احمد نے بتایا۔’’یہ ریپلیکا میں ہی بنا رہا ہو۔ 

یہ کام آسٹریلیا کے وزیراعظم کے حکم پر ہو رہا ہے۔ میں اگلے سال آسٹریلیا جائوں گا تو یہ بھی اپنے ساتھ لے جائوں گا۔ یہ ریپلیکا وزیراعظم صاحب اپنی سرکاری رہائش گاہ میں رکھوائیں گے۔ اس سے پہلے میں جاپان کے باشادہ اور ہندوستان کے سابق وزیراعظم آئی کے گجرال کیلئے بھی موئن جودڑو کے ریپلیکا بنا چکا ہوں‘‘۔

یہ بات مجھے حیرت زدہ کرنے کیلئے کافی تھی۔ استاد مشتاق احمدنے کہا ’’سائیں! ہماری ثقافت کو دنیا بھر میں زبردست پذیرائی حاصل ہے، ہمارے ہنر کو دیکھ کر لوگ داد دیتے نہیں تھکتے! لوگ ہمیں اور ہمارے ہاتھوں کو حیرت سے تکتے رہتے ہیں‘‘۔

’’یہ تو ہے !‘‘ میں نےکہا، ’’لیکن سائیں ! کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ، ہماری ثقافت مررہی ہے، اس کا کوئی مستقبل نہیں ‘‘۔ ان کے منہ میں خاک!‘‘ استاد مشتاق احمد جذباتی ہوگئے ۔ ’’یہ بیوقوف لوگ ہیں جو ایسا کہتے ہیں،ان کو ثقافت کی کوئی پہچان ہےاور نہ قدر، آپ ان کی باتوں پر ہر گز نہ جائیں‘‘۔

جنڈی کے ہنر کی ایک حسین مثال، لکڑی کی ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے ڈاکٹر اشفاق احمد نے کہا ’’ اصل میں عالمگیریت کے باعث مغربی ثقافت کا جو پھیلائو ہوا ہے، لوگ اس سے خائف ہوگئے ہیں۔ ثقافت ایک کنواں نہیں ، بلکہ ایک دریا ہے، جس میں پانی مسلسل بہتا رہتا ہے۔ جو پانی بہتا رہتا ہے وہ گندا نہیں ہوتا، رکا ہوا پانی بدبودار ہو جاتا ہے۔ ثقافت کی ایک اچھی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ قابل قبول اقدار دوسری ثقافتوں سے تحفتاً وصول کرتی ہے، جس سے وہ اپنا دامن وسیع کرلیتی ہے۔ 

ہماری اپنی ثقافتی اقدار صرف ان بیرونی چیزوں اور رویوں کو قبول کریں گی جو ان سے ٹکرائو میں نہیں آئیں گے۔ ہماری ثقافت کی جڑیں بیحد گہری اور مضبوط ہیں،ماضی سے حال کا ایک زبردست تسلسل ہے،جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں۔‘‘

ڈاکٹر اشفاق احمد نے بڑی فکر انگیز باتیں کیں۔ ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہاں سے موئن جو دڑو کا ریپلیکا نظر آرہا تھا۔ میں اس حسین ریپلیکا کو مسلسل گھورے جارہا تھا اور پھر میرا ذہن سندھ کی ثقافتی رنگ سارنگی میں کہیں کھو گیا۔

سندھ کا ثقافتی دھارا باپو دریائے سندھ کی طرح صدیوں سے رواں دواں ہے۔ تمام تر تنوع اور تبدیلی کے باوجود بھی یہ ہزاروں سال سے یکساں طو پر بہہ رہا ہے۔ اسی طرح سندھی ثقافت کے مرکزی دھارے نے بھی تمام تر اونچ نیچ اور پرییچ راہوں سےگزرنے کے باوجود بھی رنگا رنگ ثقافت کو برقرار رکھا ہے۔ جغرافیائی صورتحال نے سندھ کو ایک ایسے ثقافتی قلعے میں تبدیل کردیا ہے،جس کے کئی دروازے اورکھڑکیاں ہیں،ان کھڑکیوں سے جھانکا جائے تو سندھ کی مختلف ثقافتیں نظر آئیں گی، مثلاً:وادی سندھ کی ثقافت بحیثیت مجموعی کچھ یوں ہے۔

دیہاتی ثقافت، شہری ثقافت، جھیلوں کی ثقافت، دریائی ثقافت، پہاڑی ثقافت، میدانی ثقافت، اترادی ثقافت، شکار پوری ثفافت، نارو ثقافت، کاچھو ثقافت، وچولو ثقافت، لاڑی ثقافت ،تھری ثقافت،ٹھٹھہ ثقافت، ساحلی ثقافت ،ماہی گیری ثقافت، سمندری ثقافت، دوآبہ ثقافت اور منچھر ثقافت۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جس طرح انسان اپنے ماحول کو متاثر کرتا ہےاسی طرح ماحول بھی انسان پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ،جس کےنتیجے میں خارجی ماحول کی صورت گری ہوتی ہے جو ثقافتی رنگا رنگی اور تنوع کا باعث بنتی ہے۔ اس طرح کا تنوع ہمیں سندھ ثقافت میں بھی نظر آتا ہے۔

ثقافت اصل میں ایک طرز زندگی ہے،سوچ اور عقائد کا مجموعہ نہیں۔ اس کے معیار اور رنگت کا تعین اس پر عمل پیرا ہونے سے ہوتا ہے ۔عمل پیرا ہونے کی ایک مثال و ادی سندھ کی تہذیب بھی ہے۔ پانچ ہزار سال قبل سندھ میں دراوڑ لوگ آباد تھے، جنہوں نے دنیا کو اہرام اور محل نہیں دیئے بلکہ بہتر نقشوں کی مدد سے بنائے ہوئے صاف ستھرے شہر دیئے، جہاں نکاسی آب کا شاندار نظام تھا، جہاں کے شہریوں کے غریب تر طبقے کے مکانات بھی پر آسائش تھے اور جن میں اناج کا ذخیرہ طریقے سے کیا جاتا تھا۔

یہ اعلیٰ درجے کی کھیتی باڑی کرنے والے امن پسند لوگ تھے۔ کپاس کی کاشت اور اس کی تجارت کرتے ، کپڑے بنتے، اجرک بنانے کیلئے رنگین سیاہی کے ٹھپے استعمال کرتے، شہر سجاتے،دریائی بیڑے بناتے اور دنیا بھر میں تجارت کرتے تھے۔ یہ تہذیب یافتہ اور امن پسند طرز زندگی رکھنے والےکامیاب رہائشی تھے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ لکھنے پڑھنے میں بھی بڑے ماہر تھے۔ بدقسمتی سے ان لوگوں کےرائج رسم الخط کو اب تک نہیں پڑھا جاسکتا۔ لیکن یہ طے ہے کہ مصر کی تصویری رسم الخط سے ان کا رسم الخط زیادہ ترقی یافتہ محسوس ہوتا ہے۔ 

سندھ کی منقش مہریں، اس کی دور دور تک پھیلی ہوئی بین الاقوامی تجارت اور وسیع تر ثقافت کا آغاز دریائے سندھ کے کناروں سے ہی شروع ہوا تھا۔ موہن جو دڑو کے باشدوں کے اوزان اور ماپنے کے طریقے میں صحتمند یکسانیت اس وادی کے تاجروں کے ایماندارانہ برتائو کا زندہ ثبوت ہے۔ غسل خانے اور نکاسی کا نظام سندھ سماج کے نمایاں پہلو ہیں جو روحانی پاکیزگی، تجارت میں ایمانداری اور اعلیٰ تمدنی اقدار کا اظہار ہیں۔

سندھ ایک ایسی سرزمین ہے، جو موجود عظیم ترین تہذیب کا مرکز رہی ہے۔ اس تہذیب نے دنیا کی ہمعصر تہذیوں کی ترقی میں خالصتاً ایک انفعالی کردار ادا کیا ہے۔ یہ حقیقت ایک ایسی تاریخ ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ سندھی تہذیب عطا کرنے والے لوگ تھے۔ نامور ماہر آثار قدیمہ اور پروفیسر فیئر سروس کے بقول،’’ وادی سندھ کے شہر اور قصبے در حقیقت شہروں کے ماڈل دکھائی دیتے ہیں اور اپنی عملی صورت میں منظم دیہات کی شکل میں ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ دیہی اور شہری زندگی کا یہ تال میل پورے برصغیر کی تاریخ پرپھیلا ہوا نظر آتا ہے‘‘۔

لہٰذا سندھ کی ثقافت دفن شدہ ہر گز نہیں،یہ زندہ ہے اس کا ورثہ ’میرا جاوداں‘ ہے۔ اس کا تسلسل صدیوں اور کئی قدیم تہذیبوں پر محیط ہے۔ اس لئے اس ثقافت کو ’اوراق گمشدہ‘‘ کہنا سراسر غلط ہے،اگرچہ موہن جودڑو کی کھدائی ابھی نامکمل ہے۔ لیکن اس حالت میں بھی وہ یہ ثابت کرنے کےلئے کافی ہے کہ برعظیم میں آریائوں کے داخلے سے صدیوں قبل سندھ میں ایک اعلیٰ درجے کی تہذیب پرورش پا رہی تھی اور موہن جو دڑو ایک ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل کرچکا تھا۔

تیرہ سو سال گزرے،جب 712ء میں مسلمان عربوں نے سندھ پر قبضہ کیا تھا۔ انہوں نے تین سو سال تک حکمرانی کی۔ اس دوران سندھی ثقافت کئی علوم و فنون سے آشنا ہوئی۔ خطاطی، عربی حروف، مساجد اور مقابر کا فن تعمیر، عربی گلکاری، ظروف، آرائشی اور روغنی برتن وغیرہ، جو منصورہ اور بھنبھور سے برآمد ہوئے، کو یہاں رائج ہونے میں بہت وقت لگا، لیکن عوامی ثقافت نے ان پر ایسا اثر کیا کہ ان کی اصلیت ہی ختم ہوگئی۔

لوک روایات سندھی ثقافت کا بنیادی عنصر ہیں۔ اس کی بدولت ہم روز مرہ کی زندگی، بھائی چارے، اپنے گروہ میں لین دین، باہمی تعلقات، رابطہ رفاقت، برادری، سماجی سنگت ، میل ملاقات، محبت اور بول چال کے اشتراک میں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں۔

بنیادی طور پر ثقافت عام لوگوں سے پھوٹتی ہے۔ لوگ گیت، لوک ناچ، لوک داستانیں، لوک کھیل (ملاکھڑو، کبڈی، بیلوں کی دوڑ، مرغوں کی لڑائی، گلی ڈنڈا، بلور وغیرہ)، لوگ لباس، دستکاریاں، لوک رسم و رواج لوک عقائد، عرس اور لوک میلے(شاہ لطیف، سچل سرمست، قلندر شہباز ، مصری شاہ وغیرہ کے میلے)، لوک تہوار جیسے عیدین، شب برات، موسمی تہوار جیسے، بیساکھی، بسنت، ہولی، دیوالی وغیرہ سندھی ثقافت کے اہم جزو ہیں۔ 

اس کے علاوہ مصری جوگی کی بین، عرب بھٹی کا انفوزہ، عبداللہ خان کی شہنائی، ذوالفقار لنڈ کا بوڑیندو، فقیر محمد بخش چنا کا چنگ، فقیروں کی دھمال ، مداری کے تماشے وغیرہ سندھی ثقافت کے رنگ ہیں۔ لوک ہنر جیسے کشیدہ کاری، اجرک ، جنڈی، لنگی ، رلی، کمہار کے برتن، ایک پوری ثقافت اپنے رنگوں اور چمک سمیت زندہ ہے۔

تھر، نارو اور کاچھو کے چرواہوں ک گیت، بدین کے نڑبیت، کھیر تھر پہاڑوں کے دامن میں بجنے والے سرندے، الفوزو پر ’’مورو‘‘ سنانے والے والی داد جھنجھی، بیلوں کیلئے بنائے جانے والے سیکڑوں ڈیزائن کے سندھی موڈے (ہار)۔ یہ سب لوک روایات کے شاہکار ہیں۔ ہماری اجتماعی ثقافتی زندگی کا جزو لاینفک ہیں۔ یہ ہی روایات ہمیں ایک اجتماعی ثقافتی شعور عطا کرتی ہیں،اس لئے کہ یہ عوامی روایات ہیں،عوام کے رجحانات کا عکس بھی اور ان کی پہچان بھی۔

سندھ کے عرس اور میلے ہماری عوامی امنگوں کا ایک شاندار نظارہ پیش کرتے ہیں،جو زندہ ثقافت کے آئینہ دار ہیں۔ ان میلوں میں شریک ہونے والے فنکار، دستکار ، ہنر مند وغیرہ ہماری ثقافتی روایات کا ایک زندہ تسلسل ہیں۔

تھر کو دیکھئے۔ یہ حقیقت میں زندہ ثقافت کا ایک شاندار عجائب گھر ہے۔ دراوڑی ،مینگھواڑ، بھیل ، کوالہی، جوگی، منگنہار، اوہانا، ماڑیچا، ٹھکرا، راٹھوڑ، اوڑ وغیرہ جیسی قدیم اقوام یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔ یہ ناگ دیوتا، گائے ماتا، کالی ماتا اور وشنو بھگوان کی پوجا کرتے ہیں۔ تھر کے ریگستانوں میں پھیلے ہوئے ہزاروں مندر گوڑی کے ڈہرے اور نگرپار کر میں موجود جین مندر، شیو کے مندر، اس علاقے میں بسنے والے لوگوں کے عجیب و غریب عقائد اور مذہی رسومات کے آئینہ دار ہیں۔ 

ان لوگوں نے اپنی ثقافتی اقدار اور دھرتی سے بے پناہ عشق کیا ہے۔ اپنی لوک داستانیں۔ عمر ماروئی، مومل رانو، سسی پنوں ، لیلاں چنیسر وغیرہ کو وہ کبھی نہیں بھولے۔ چاچو علی نواز کھوسو جب کارو نجھر پہاڑ کے کسی تاریخی پتھر پر بیٹھ کر جام اوڑھو اور ہوتھل پری، کی داستان سنانے لگتا ہے تو وقت کی نبض تھم جاتی ہے اور کارونجھر کے دامن میں واقع سحر انگیز بھوڈسیسر جھیل میں شام کے وقت کشتی میں بیٹھ کر جب کلو بھیل کوئی تھری گیت الاپنے لگتا ہے تو فضا میں شدید ارتعاش پیدا ہوجاتا ہے۔

تھر کے لوک گیت،عوامی ناچ سن اور دیکھ کر سحر طاری ہو جاتا ہے۔ رائے چند (اے میرے رائے چند! میں تمہارے انتظار میں ہوں، اب تو پردیس سے لوٹ آئونا!)، کانگڑو (کالے کوے کا گیت، جو کسی کے آنے کی خوشخبری دیتا ہے) چرمی(محبت کا گیت جو ارمان بھرے دلوں کےمیلاپ کا ترجمان ہے) اور کئی ایسے سیکڑوں گیت سن کر آدمی کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتا ہے،ایک جادوئی ماحول بن جاتا ہے، جس کا اثر دل و دماغ پر بیحد گہرا اور دیرپا ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ لوگ گیتوں نے ہی سندھی شاعری کی بیشتر اصناف کو جنم دیا ہے۔ کافی ،وائی ،بیت، دو ہیڑو سر، حرفی وغیرہ سندھ کے معروف ثقافتی اصناف سخن ہیں۔ ان اصناف میں پیدائش سے لیکر موت تک کی رسومات دکھ، سکھ، خواب اور خواہشیں، عقائد، توہمات جذبات و احساسات اور امنگیں بیان کی جاتی ہیں، جیسے:

ہم چوکی بیلا! اے… اللہ !

ڈھورو میں پانی تیزی سے بہہ رہا ہے

ہم چوکی بیلا! اے… اللہ !

ہری ہری گھاس خوب اگی ہے۔اے …اللہ!

ہم چوکی بیلا!اے… اللہ !

لہٰذا کسی بھی قوم کی حقیقی روح کو صرف اس وقت سمجھا جائے گا ، جب اس کے لوک ادب، صوفیانہ شاعری، لوک گیتوں اور لوک کہانیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ لوک ادب سندھی ثقافت کی بنیاد ہے۔ زبان کی بنیاد بھی لوک ادب سندھی ثقافت کی بنیاد ہے، جو کسی بھی ثقافت کا ایک خالص ترجمان ہوتا ہے۔

دور جدید میں عالمیگریت کے اثرات کے باعث سندھی ثقافت بھی ایک جزوی عبوری دور سے گزر رہی ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے وسیع تر پھیلائو نے سندھی ثقافت کو متاثر کیا ہے۔ ان کے توسط سے مغربیت کے اثرات سندھی ثقافت پر بھی پڑے ہیں ۔ مختلف پروگراموں اور ڈراموں میں مغربی لباس اور فیشن کی روایت نے بھی اپنا رنگ دکھایا ہے۔ اس کے علاوہ ٹی وی شوز میں ان مسائل و معاملات پر کھل کر بحث کی جاتی ہے،جن کو عام زندگی میں شاید زیر بحث نہ لایا جاتا ہو۔مغرب کے آزادانہ تصورات نے کچھ الگ سے راستے بنانا شروع کئے ہیں۔

ثقافت کا ایک ناگزیر حصہ مادری زبان بھی ہوتی ہے۔ شہروں میں سندھی لوگ بالخصوص سندھی نوجوان اپنی مادری زبان میں بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ متوسط اور اعلیٰ طبقے کے لوگ انگریزی بولنا قابل فخر سمجھتے ہیں۔ انگریزیت اختیار کرنے سے یہ لوگ نہ صرف اپنی زبان سے دور ہوتے جارہے ہیں، بلکہ انگریزی ثقافت، اقدار، رسومات اور روایات کے سانچوں میں ڈھلتے جارہے ہیں۔ یہ صورتحال تب شروع ہوئی جب انگریز یہاں آیا۔ لوگوں نے ان کی زبان کی نقل کرنا شروع کی اور اس کو سماجی برتری کا باعث سمجھنے لگے۔ یہ اثر جدیدت کے باعث گہرا ہوتا جارہا ہے۔ 

ہمارا تعلیمی نظام بھی ہر سطح پر انگریزی کو ترجیح دے رہا ہے۔ زبان کے علاوہ مغربی لباس بھی سندھ کے ثقافتی دائرے میں تیزی سے داخل ہوگیا ہے مغربی ممالک میں جو بھی فیشن مشہور ہوتا ہے،وہ یہاں فوراً ہی اختیار کیا جاتا ہے،یہ نہیں دکھا جاتا کہ آیا یہ ہمارے جسم اور ہماری روایت سے مطابقت رکھتا ہےیا نہیں۔ ہماری فیشن انڈسٹری بھی مغربی فیشن کے انداز سے بیحد متاثرنظر آتی ہے۔

مغربی کھانوں کا رواج بھی سندھی ثقافت کا ایک حصہ بن گیا ہے۔بڑے شہروں میں تو مغربی کھانوں والے ہوٹلز کا ایک موثر نیٹ ورک کام کررہا ہے۔ گھر کے روایتی کھانوں کا تصور فاسٹ فوڈز نے بدل دیا ہے۔ سندھی کھانے آج کے سندھی شہری نوجوان کو کم ہی پسند ہوتے ہیں۔

مشترکہ خاندانی نظام، جو کہ سندھ کی سماجی ثقافت کا ایک بنیادی جز رہا ہے، وہ بھی اپنی قدر و منزلت کھورہا ہے۔ نتیجتاً، انفرادیت کی ثقافت پروان چڑھ رہی ہے۔ آج کا نوجوان آزادی اور انفرادیت میں زیادہ یقین کررہا ہے ۔اس صورتحال کے تکلیف دہ نتائج نفسیاتی امراض، طلاقوں ، خود کشیوں اور جرائم کی شکل میں ہمارے سامنے آرہے ہیں۔

یہ ممکن نہیں کہ کوئی ثقافت تبدیلی قبول نہ کرے۔ ہمیں ہر صورت میں زمانے کی تبدیلی کو قبول کرنا ہے۔ لیکن بیرونی ثقافت سندھ کی ثقافت میں جذب ہوگئی تو پھر ہماری ثقافت اس کے امتزاج سے پروان چڑھے گی اور نئے رویئے بھی جنم لیں گے۔

اصل میں مغربی ثقافت اقدار پر نہیں، بلکہ کمرشل ازم پر مبنی ہے۔ ایہ ایک دھکم پیل معاشرہ ہے جو صرف صنعتی کاروبار کو فروغ دے رہا ہے۔ اشتہاربازی، لین دین، منافع بخش کاروبار اور اپنے مفادات کی ترجیح کو ہی مقدم رکھتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سندھی معاشرہ کمرشل ازم سے بیحد دور ہے ،لہٰذا یہ قابل تعریف راست باز اور ایک اخلاقی معاشرہ ہے ۔ جدید دور کی ترقی سندھی ثقافت کی اہمیت کو کم کرنے میں قطعی ناکام رہی ہے۔

سندھی ثقافت اب بھی ایک زندہ روایت کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے، یہ لوگوں کے دلوں میں آباد ہے۔ سندھ کی نوے فیصد آبادی کو اپنی ثقافت کی روایت کا بھرپور ادراک ہے، وہ اپنی ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کو اپنی موسیقی، اپنے افکار، اپنے علم ، اپنے ہنر اور اپنی شناخت کا بھرپور شعورہے۔

ثقافت کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے بہت گہرا ہوتا ہے۔ سماجی روابط بڑھانے اور معاشی ترقی کے ضمن میں معاون چیز ثقافت ہی ہے۔ یہ سماجی ترقی، تعمیر نو معاشرتی اصلاح اور سماجی ہم آہنگی کا ایک موثر عملی ذریعہ ہے۔ یہ انسان کو ورثے میں ملتی ہے۔ بیرونی ثقافت کے مقابلے میں ہماری ثقافت ہمارے اپنے ورثے کی نمائندگی کرتی ہے۔سندھی قوم کے آگے کسی بھی دوسری بات سے مقدم ان کی اپنی آگہی، شناخت اور قومی شعور ہے۔ ثقافت ان کا اعتماد اور قومی عزورہے۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ کوئی بھی بیرونی ثقافت ان پرحاوی نہ ہو سکی ۔

سندھی ثقافت ماضی سے جڑی ہوئی ہے۔ ماضی کو ترک کرنا ممکن نہیں ہوتا، کیوں کہ ماضی حال میں بدل جاتا ہے اور پھر حال آنے والے وقت کی تشکیل کرتا ہے۔ سندھ کے ثقافتی ورثے نے طویل ارتقائی سفر کے بعد موجودہ شکل اختیار کی ہے۔ باہمی اشتراک، صدیوں کی دانش، عمل اور سوچ کا تسلسل، مذہبی عقائد،رسم و رواج ،مشترکہ تجربے اور ہر حملہ آورسے بچ نکلنے کی قوت سے وجود میں آنے والی سندھی ثقافت وقت کی بھٹی میں تپ کرتیار ہونے والا کندن ہے۔یہ وادی مہران کی جیتی جاگتی روایات کی امین ہے۔اور روایات کوئی بھولی بسر داستانیں نہیں ہوتیں۔

یہ نہ ختم ہوئی ہیں اور نہ ہی کہیں کھو گئی ہیں یا ان کا جدید دور سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ موہن جو دڑو کی ثقافت کے اثرات آج بھی سندھی سماج میں واضح طور پر پائے جاتے ہیں،جیسے گھر اور اینٹیں آج بھی پورے سندھ میں بنائی جاتی ہیں،بھٹی میں پکائی جاتی تھیں، تو آج تک وہ ہی طور طریقہ رائج ہے۔ 

شہروں کی گلیاں، عمارتیں اور نالے آج بھی ویسے ہی ہیں، شکار پور ،ہالا، نصر پور، ٹھٹھہ،روہڑی، مٹیاری وغیرہ جائیں ، وہاں کی تعمیری ساخت موہن جو دوڑ سے بیحد ملتی ہے۔ موہن جو دڑو سے برآمد ہونے والا ساز ’بوڑیندو‘ آج بھی سندھ کے گڈریے بجاتے پھرتے ہیں۔ بوڑیندو تین سوراخوں والا مٹی کا ایک گولا ہے۔یہ ساز پھونک سے بجایا جاتا ہے۔ گڈریے اس انتہائی قدیم ساز کو بجانے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں،وہ محض تین سوراخوں والے اس ساز سے پانچ دھنیں کیسے بجا پاتے ہیں، اس بات پر دنیا بھر کے پیشہ ور موسیقار انگشت بدندان ہیں۔

موہن جو دڑو سے ایک بیل گاڑی بھی دریافت ہوئی تھی۔ بالائی سندھ کے کسان آج بھی ایسی ہی بیل گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ ان کا ڈیزائن، بناوٹ، ناپ اور پہیوں کا سائز صدیاں گزرنے کے باوجود بھی نہیں بدلا ہے، یہاں تک کہ لکڑی پر کھدے ہوئے نقش و نگار بھی وہی ہیں۔یہاں کی دریائی کشتیاں، جو کبھی دریائے سندھ کی موجوں پر ادھر ادھر تیرتی پھرتی تھیں، آج بھی سکھر اور کوٹری بیراج کے اطراف اسعتمال میں ہیں۔

قدیم روایات کا ایسا تسلسل سندھی ثقافت کی بنیادی خصوصیت ہے،یہ جہاں ثقافت کو ناقابل یقین حد تک زرخیز اور بھرپور بناتی ہے،وہاں بھانت بھانت کے مختلف رنگوں کا جداگانہ ثقافتی سماج بھی تشکیل پاتا ہے۔اس کی رنگارنگی اس قدر بھرپور،توانا اور جڑیں اتنی قدیم ہیں کہ اگر سندھ میں کہیں بھی کھدائی کی جائے تو آثار قدیمہ کے شواہد آسانی سے مل جائیں گے۔یہاں چپے چپے پرسندھی روایات اور داستانیں بکھری ہیں،ہر پچاس کلو میٹر بعد کھانے، لباس اور سندھی زبان کے لہجے تبدیل ہو جاتے ہیں۔

ان روایات اور ثقافتی رنگا رنگی کو کوئی بھی سندھی بھلا نہیں پاتا، وہ جہاں بھی رہتے ہیں ،اپنی ثقافت سے جڑے ہوتے ہیں۔ نامور براڈ کاسٹر اور ادیب یاسر قاضی کے بقول’’سندھیوں نے تو امریکی ریاست ٹیکساس کو بھی سندھ بنادیا ہے۔‘‘

سچ تو یہ ہے کہ لوگ فطرت اور ثقافت کی طرف واپس جارہے ہیں ۔ دنیا کی سوچ اور رویے بدل رہے ہیں۔ دنیا بھر میں علاقائی ثقافتوں کیلئے پسندیدگی کا رجحان بہت بڑھ رہا ہے۔ مقبول ثقافتی روایات اور مقامیت کی اہمیت کو نئے سرے سے سمجھا جارہا ہے۔ ثقافتی رنگا رنگی کی موجودگی اور اہمیت کا احساس عام ہوتا جارہا ہے۔ یہ احساس دنیا بھر کے لوگوں کی سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی میں مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔

کسی ثقافت کو محض تاریخ اور جغرافیہ کے حوالے سے دیکھنے کا رویہ اب بدلتا جارہا ہے۔ پرانی سوچ، جس میں علاقائی ثقافت کو محض مادی اشیاء دستکاریاں، قدیم نوادرات وغیرہ کو تاریخی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اب دماغ سے نکل چکی ہیں۔ ان مظاہر کو تاریخ کی داستان قرار دے کر محفوظ کرنے کی سوچ کو کہیں جگہ نہیں مل رہی،اب رسم و رواج، لوک گیت اور کہانیاں زندگی کی متحرک علامات سمجھی جارہی ہیں۔ 

ان کو ماضی کی نشانیاں سمجھنے کی بجائے حال کی زندہ حقیقتیں سمجھ کر نئے سرے سے ان میں دلچسپی لی جارہی ہے۔ سندھی ثقافت بھی ایک انگارے کی مانند ہے،انگارا جو چولہے میں مسلسل دہکتا رہتا ہے اور کبھی بجھتا بھی نہیں۔