پانی، پھول پرہو تو شبنم،جوش میں ہو تو طوفان، سکون سے ہو تو دریا آنکھ میں ہو تو آنسو، آسمان سے برسے تو بارش کہلاتا ہے، یہی پانی جب کیرتھر کینال میں بہتا ہوا سات مضبوط پلروں سے ٹکراتا گزرے تو ان پلروں کے اوپر ہی بنی ایک چھوٹی مگر پروقار مسجد کو ’’پانی والی مسجد‘‘ کا نام دیتا ہے۔ اس مسجد کا دوسرا نام ’’جونیجہ مسجد‘‘ بھی ہے۔ لیکن زیادہ تر لوگ اسے ’’پانی والی مسجد‘‘ کے نام ہی سے جانتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی مسجد ہے جس کے متعلق بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا۔
اس خوبصورت مسجد کا پس منظر جاننے کیلئے تقریباً ایک صدی پیچھے سندھ کے تاریخی گائوں امروٹ شریف کی طرف لوٹنا ہوگا، جہاں اپنے وقت کے جید عالم اور انقلابی شخص مولانا تاج محمود امروٹی رہتے تھے،انہو ں نے امروٹ شریف میں ایک دینی مرکز قائم کیا تھا۔ اس مرکز میں انہوں نے قرآن،حدیث، فقہ، علم الکلام، فلسفہ، عالم المنطق اوردوسرے علوم پڑھائے، اس طرح سندھ کے طلباء کو پہلی باراسلامی علوم کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ مولانا عبیداللہ سندھی بھی درس دیا کرتے تھے۔ مولانا تاج محمود امروٹی وہ شخصیت ہیں، جن کے علم اور فیض کی شہرت نہ صرف سندھ کے کونے کونے میں ہے بلکہ ہندوستان،کابل، عرب، انگلستان اور ایران تک پھیلی ہوئی ہے۔
مولانا امروٹی کی مذہبی، روحانی، سماجی، علمی و قومی خدمات ، کارنامے اور قربانیاں سندھ کی تاریخ میں ایک شاندار باب کا درجہ رکھتی ہیں۔ مولانا کا اسم مبارک سید تاج محمود جیلانی اور ان کے والد بزرگوار کا نام سید عبدالقادر شاہ عرف بھورا شاہ ہے۔ آپ ضلع خیرپور میرس کے ایک چھوٹے سے گائوں’’دیوانی‘‘ میں پیدا ہوئے۔ امروٹ شریف میں آکر آباد ہوئے اور امروٹ شریف دینی تعلیم اور روحانی تربیت کا مرکز بن گیا۔ اسی مرکز سے اُن بڑی بڑی شخصیات نے تعلیم حاصل کی، جنہوں نے آگے چل کر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
اس طرح امروٹ شریف جیسے چھوٹے سے گائوں کو وہ تاریخی حیثیت مل گئی جو سندھ کے کسی بھی گائوں کے نصیب میں نہ آسکی۔ مولانا تاج محمود امروٹی، جب امروٹ شریف تشریف لائے تو سب سے پہلے انہوں نے یہاں ایک مسجد قائم کی۔ مسجد کا کام مولانا کے ایک قریبی ساتھی مستری عبدالرحیم سومرو شکارپوری کے ہاتھوں انجام پایا، کام پورے ایک سال تک جاری رہا۔ مسجد کے مکمل ہونے کی تاریخ مسجد کے بیرونی دروازے پرکندہ ہے۔ دروازے پر 1321ہجری بمطابق 1904ء لکھا ہوا آج بھی دھندلا دھندلا نظرآتا ہے۔
مسجد پرکمال کاریگری سے کام کیا ہوا ہے۔ ساری عمارت پکی اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہے اور اس پر گل کاری اور مینا کاری کا عمدہ کام بھی نظرآتا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی کے ہجرے کا لال اور پختہ اینٹوں کا مینارہ آج بھی انقلاب کی داستانیں سنانے کیلئے بیتاب ہے۔ اس سے ملحقہ قدیم مسجد کا مشرقی اور جنوبی حصہ ابھی تک بہتر حالت میں موجود ہے۔ اسی مسجد سے بڑی بڑی شخصیات نے مولانا امروٹی سے فیض حاصل کیا۔
خاص طور پر مولانا عبدالوہاب کولاچی، مولانا عبداللہ کھڈرے وارو اور مولانا عبدالقادر دین پوری، ابتدائی دور کے وہ طالب ِعلم تھے،جنہوں نے اسلام کے حقیقی شعور کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ انسان دوستی اور مذہبی روا داری کا پیغام سندھ کے کونے کونے میں پہنچایا اورآج بھی اس دینی مرکز پر مستقبل کے معمار دینی علم ذوق و شوق سے حاصل کرتے ہیں۔ اس مرکز کے مشرقی دروازے سے باہر نکلا جائے تو چند قدموں کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے قبرستان میں مولانا امروٹی آسودئہ خاک ہیں۔ ان کی قبر کے سرہانے ایک سادہ ساکتبہ لگا ہوا ہے۔
جس پر مولانا کی تاریخِ وفات 5؍نومبر 1949ء بروز شنبہ ایک بجے رات درج ہے۔ مولانا تاج محمود امروٹی بہت بڑے عالم، ادیب اور قادرالکلام شاعر تھے۔ انہوں نے ’’محمود المطابع‘‘ نامی ایک پریس بھی امروٹ شریف میں قائم کیا تھا۔ مولانا کا ایک بہت بڑا علمی کارنامہ قرآن پاک کا سندھی ترجمہ ہے ۔ قرآن پاک کی اشاعت کرنے والی ملک کی سب بڑی اشاعتی کمپنی ’’تاج‘‘ بھی انہی کے نام سے موسوم ہے۔ آج تک مولانا کے سندھی ترجمے کے لاکھوں ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ سندھ کے بڑے بڑے عالم، سندھی زبان کے ماہر اور دینی اسکالر اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن پاک کا ایسا سلیس سندھی ترجمہ آج تک کوئی نہیں کر سکا ہے۔ مولانا تاج محمود امروٹی کی دینی اور ادبی تصانیف سندھی علم و ادب کا بیش بہا خزانہ ہیں۔
مولانا تاج محمود امروٹی کی تمام عمر علم اور روحانیت کو عام کرنے میں گزرگئی۔ آپ سکون حاصل کرنے،مراقبہ اور یادالٰہی میں مشغول ہونے کے لئے امروٹ شریف سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹے سے گائوں جسے ’’سندھو جی وانڈھ‘‘کہتے ہیں، جایا کرتے اور وہاں بھی ایک چھوٹی سی مسجد قائم کی۔ سندھو جس وانڈھ جانے کیلئے امروٹ شریف کی پختہ سڑک سے گزریں تو آبادی کے ساتھ کھیتوں اور باغات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جگہ جگہ بچھے مخملی گھاس کے قطعے ماحول کو انتہائی خوبصورت بنا دیتے ہیں۔ سرسبز کھیتوں کی خوشبو آوارہ گردی کرتی ہے۔ دُور دُور تک پھیلے چاول کے کھیت سبزلبادہ اوڑھے اپنے حسن کا جادو پھیلائے حیران کر دیتے ہیں۔
پرندوں کے گیت فضا میں گھلے ہوتے ہیں کھجور کے درختوں کی شاخیں دُور سے ہاتھ ملا کرآنے والوں کوخوش آمدید کہتی ہیں۔ جب سرسبز کھیتوں اور کھجوروں کے باغات پیچھے چھوڑ کر دوکلو میٹر امروٹ شریف کی جنوبی جانب آگے بڑھیں تو اچانک ہی ایک خوبصورت سی مسجد نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے۔ پانی والی مسجد … جہاں مولانا تاج محمود امروٹی ذکرِ الٰہی میں مشغول رہا کرتے تھے ۔ 1923ء کی بات ہے، جب سکھر بیراج اورکینال پروجیکٹ کا کام برطانیہ سرکار کی نگرانی میں شروع ہوا۔ بلوچستان کو آبپاشی کا پانی پہنچانے کے مقصد سے جب سکھر کے قریب سے کیرتھر کینال کی کھدائی شروع ہوئی تو یہ چھوٹی سی مسجد کیرتھر کینال کے راستے میںآرہی تھی، اس لئے انگریز سرکار نے اس مسجد کو شہید کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیا۔
یہ مسجد اس وقت جو نیجہ لوگوں کے گائوں میں تھی۔ انگریز سرکار نے جونیجہ لوگوں کو گائوں چھوڑنے کا نوٹس دے دیا۔ گائوں کے لوگ کسی اور جگہ آباد ہوگئے اور برطانوی سرکار نے گائوں کے مکانات، درخت اورکینال کے راستے میں آنے والی ہرشے کوختم کرتے ہوئے کھدائی شروع کردی۔ مسجد کو بھی راستے میں آنے کی وجہ سے شہید کرنے کا پروگرام بنا لیا گیا۔ مولانا تاج محمود امروٹی نے انگریز سرکار کو مشورہ دیا کہ کینال کا رُخ تبدیل کیا جائے اور اس طرح مسجد کو شہید ہونے سے بچایا جائے لیکن انگریزعملدار مسجد کوشہید کرنے پر بضد تھے۔ مولانا تاج محمود امروٹی نے تحصیلدار،کلیکٹر اور انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ والوں کو کئی ایک درخواستیں دیں، لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔
نتیجتاً مولانا صاحب نے انگریز سامراج سے مقابلہ کرنے اور ان سے آزادی حاصل کرنے کا اعلان کر دیا۔ ہزاروں لوگ جمع ہوگئے اور ایک ایسی دینی، سیاسی اور مزاحمتی تحریک شروع ہوئی۔ جس نے برصغیر میں موجود انگریز سرکار کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔ مولانا تاج محمود امروٹی نے مسجد کی حفاظت کیلئے لوگوں کے گروہ مقرر کر دیئے جو الگ الگ اوقات میں مسجد پر پہرہ دینے لگے۔ مولانا تاج محمود امروٹی کا کہنا تھا کہ انگریزوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ پورے برصغیر میں لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور عبادت گاہوں کو سلامتی ہوگی تو پھر یہ وعدہ خلافی کیوں ہے؟
مولانا تاج محمود امروٹی کے سینہ سپر ہو جانے سے اس مسجد کو شہید کرنے کا فیصلہ ملتوی کردیا گیا اور اُس وقت کے انگریز انجینئرز نے سات پلروں کی بھرائی کرکے مسجد تک پہنچنے کیلئے ایک راہداری بنائیی ،مسجد کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کیلئے سیسہ، لوہا اور سیمنٹ استعمال کی گئی اس طرح مسجد نہر کے درمیان میں آگئی۔ دونوں اطراف سے کینال کا پانی جاری کردیا گیا اور مسجد پورے آب و تاب سے کھڑی رہی اسی وجہ سے جونیجہ مسجد کا نام آہستہ آہستہ پانی والی مسجد میں ڈھل گیا ۔ یہ ایک ایسی مسجد ہے، جسے دیکھ کر سیاح دنگ رہ جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ انسان ہی تو ہے، جس نے اپنی محنت کے انمٹ نقوش چھوڑے اور ناممکن کو ممکن کردکھایا۔
پانی والی مسجد کے کینال کے اطراف میں لگے درختوں پر گلہریاں آنکھ مچولی کھیلتی ہیں۔ دُور پرے کھیتوں میں محنت کش ہاری سرجھکائے محنت کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ مولانا تاج محمود امروٹی جیسی بڑی ہستی کی سرزمین سے ان کا تعلق ہے۔ قرب و جوار کے لوگوں کا زیادہ تر پیشہ زراعت ہے وہ اپنے کھیتوں اور بھیڑ بکریوں کو دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں۔ محنت کش بیل گاڑیوں پر آتے جاتے دکھائیں دیتے ہیں۔ کیرتھر کینال کا پانی دھیرے دھیرے بہتا مسجد کے مضبوط پلروں سے سرگوشیاں کرتا گزرتا ہے۔ شام کے وقت سورج کا زرد سونا پگھل پگھل کر کینال کے پانی میں جذب ہونے لگتا ہے۔ مٹی کا اڑتا سفوف فضا میں گھلنے لگتاہے۔
دُور دُور تک پھیلے سبز قطعے دیکھ کر لوگ شاداں و خرماں ہوتے ہیں۔ صبح کاذب ہوتے ہی اللہ اکبر کی صدا اس مسجد سے بلند ہوتی ہے اور پھر دن آہستہ آہستہ روشن ہونے لگتا ہے۔ سرسبزشاخوں پر رنگین پھول اپنی محفلیں جمانے لگتے ہیں اس عالم میں ہلکی ہلکی ہوا خوشی سے اٹھکھیلیاں کرتی ہے۔ نمازی، حئی علی الصلوٰۃ کی صدا پر دو رویہ لگی درختوں کے کچے راستے سے ہوتے ہوئے اس مسجد کا رُخ کرتے ہیں اور بائیں طرف لگے ہینڈ پمپ سے وضو کرکے پیپل کے گھنے درخت کی چھائوں تلے چار چھوٹے قدمچوں کی طرف بڑھتے ہیں کہ یہ چار سیڑھیاں، جن پر سفید اور نیلا ماربل لگا ہواہے۔ انہیں تین فٹ چوڑی اور سات مضبوط پلروں پر قائم راہداری سے گزار کر مسجد تک لے جائے گی۔ پچیس تیس قدم اٹھانے کے بعد بائیں طرف ہی مسجد کا لکڑی کا دوپٹ والا دروازہ کھلا ملتا ہے۔
مسجد کے اندر ہلکے سبزرنگ کی سادہ ٹائلیں نمازی کی آنکھوں کو ٹھنڈک دیتی ہیں۔ سامنے ہی دیوار میں بنائی گئی تین خانوں والی الماری میں قرآن پاک کے نسخے رکھے ہوئے ہیں۔ دائیں اور بائیں دیوار میں تین تین پٹ والی لکڑی کی کھڑکیاں ہیں جو اگر کھلی ہوئی ہوں تو ٹھنڈی ہوا مسجد کی چھت پرنصب پنکھا چلانے کی اجازت نہیں دیتی۔ ان ہی کھڑکیوں سے خوش گلو پرندوں کے نغمے اور نیچے بہنے والے نہر کے پانی کا شور ایک سکون سا بخشتا ہے۔ پانی والی مسجد کے سامنے کی طرف ہی ایک چاند بنا ہوا ہے اور اس کے نیچے اللہ اکبر اور کلمہ پاک درج ہے۔
اس مسجد کے چار مینار ہیں اور ہر مینار سے دوسرے مینار تک چھ چھ چھوٹے علامتی گنبد بنے ہوئے ہیں۔ ہر مینار کے اوپر سرے پر طاقچہ بنا ہوا ہے جو بلند میناروں کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث ہے۔ مسجد میں امام سمیت دس نمازیوں کی گنجائش ہے جو سہولت سے باجماعت فرض ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد میں مولانا تاج محمود امروٹی بھی اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے رہے۔ پانی والی مسجد کو دیکھنے اور دیکھ کر روحانی سکون حاصل کرنے کیلئے بہترین وقت اگست سے مارچ تک کا ہے۔ لیکن اگر گرمیوں میں بھی آیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ،کیونکہ مسجد کے نیچے بہتا ہوا ٹھنڈاپانی گرمی دور کرنے کیلئے تیراکی کی دعوت دیتا ہے اور خوش مزاج لوگ فرض یا شکرانے کے نفل ادا کرنے کے بعد کیرتھر کینال میں کود جاتے ہیں۔
کینال کے جنوبی جانب دھول اُڑاتے کچے راستے کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی نہر بھی ہے جب دوپہرکا سورج آگ بگولہ ہوجاتا ہے تو آس پاس کے دیہات میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے جانوروں کو چرتا چھوڑ کر اس میں غوطہ خوری کرتے ہیں۔ پانی والی مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد جب نمازی دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ اب اس سے زیادہ اور کیا مانگوں؟ یہ حسین و دل کش اور پرسکون ماحول، بزرگان دین کی روحانی برکات، نیچے بہتی نہر کا حمد سناتا پانی، فرحت بخش ہوا اور دین کی عظمت کی اس نشانی میں نماز پڑھنے کی سعادت سے بڑھ کر اور کیا چاہئے۔؟ بیشک پانی والی مسجد قدرت کا ایک عجیب نظارہ ہے جوکہ انگریزوں سے آزادی کی نشانی بھی ہے اوریہ وہ نرالی، تاریخی وثقافتی یادگار ہے جس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی۔ آج نوے سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی یہ مسجد پانی پر قائم ہے انشاء اللہ رہتی دنیا تک اسی آب و تاب کے ساتھ موجود رہے گی۔