بارش قدرت کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، جس کے ان گنت فوائد ہیں۔ یوں تو بارش پورے سندھ میں ہوتی ہے، لیکن سندھ کے مشرقی حصے تھر میں بارش کا سماں کچھ الگ ہی ہوتاہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو پورا تھر جل تھل ہو جاتا ہے اور پھر اس کی شادابی اور سر سبزی قابلِ دید ہو جاتی ہے ۔ تھر میں بارش کا سلسلہ تقريباً دو ماہ یعنی جولائی تا اگست جاری رہتا ہے۔ اس لیے تھرکے لوگ اسے ایک مستقل موسم قرار دیتے ہیں۔
بارش کا موسم ایسا ہوتا ہے جب نہ صرف انسانی جذبات پورے عروج پر آجاتےہیں، بلکہ نباتات و حیوانات بھی ان سے یک ساں متاثر نظر آتے ہیں ۔ تھر میں کوئل اور پپیہا ہوتے ہیں جنہیں برسات کا نقیب کہا جائے تو نامناسب نہیں ہوگا۔ خدا جانے ان پرندوں میں موسمِ برسات میں کس غضب کا جوش پیدا ہو جاتا ہےکہ ان کی درد بھری صدائیں انسانی دل کو بے قابو کر دیتی ہیں اور امنگوں کی بجھی ہوئی چنگاریاں بھڑک بھڑک کر پوری فضا کو مسحور کر دیتی ہیں۔
ذرا تصور کیجیے ! تھر میں ریت کے بڑے بڑےٹیلوں پر گھنگھور گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں ۔ ہلکی ہلکی پُھوار پڑ رہی ہے ۔ بجلی کی کڑک اور بادل کی گرج پور ے جوش پر ہے ۔ سبزے کی لہک اور پھولوں کی مہک فضاکوبد مست کیے دیتی ہے۔ کوئل کی کُوک اور پپیہے کی’’پی ۔پی‘‘والی سُریلی شامیں، جذبات کی امنگیں، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں، غرض،جنت نگاہ کے تمام سازو سامان میسر ہیں۔ بارش کا موسم اُن ہجراں نصیبوں پر، جن کا محبوب پاس نہ ہو، قیامت سے کم نہیں۔ وہ اندھیری کالی راتوں میں بجلی کی چمک، بادلوں کی گرج اور موسلادھار بارش کے طوفان میں تڑپ تڑپ کر وقت گزارتے ہیں۔ ایسے میں آتشِ فراق کے بھڑکتے ہوئے شعلے گیتوں کی شکل میں ڈھل جاتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اصولِ فطرت کے لحاظ سے عورت کا شوہر سے خطاب سچی محبت اور جذباتِ وفا کا آئینہ دار ہوتا ہے اور وہ اپنی مصیبت اور فراق کی منظوم کہانی جن درد بھرے الفاظ میں بیان کرتی ہے، وہ ہر حساس دل کو تڑپائے بغیر نہیں رہتی۔ ان جذبات کے اظہار کا جو ذریعہ موزوں ہو سکتا ہے وہ بلاشبہ اپنے لوچ اور رس کی وجہ سے گیت ہی ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا خیال ہے کہ گیت مزاجاً نسوانیت کے غنائی اظہار کی ایک صورت ہے اور گیت عورت کے جسم کا اظہار نہیں بلکہ اس کی پکار ہے ‘‘۔
اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ گیت بہ اعتبار موضوعات و مضامین اور بہ لحاظ اسالیب و آہنگ غزل سے بھی بہت زیادہ وسیع، متنوع و مختلف ہوتے ہیں ۔ یہ لوک گیت وقتی اور عوامی ہونے کی وجہ سے بڑی حد تک زبان و بیان اور اظہار و ابلاغ کے قواعد و شرائط سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ بارش کے دنوں میں تھر میں جو گیت گائے جاتے ہیں ، ان کا دامن بڑا وسیع، کشادہ اور اس کا آنچل بہت رنگا رنگ ہوتا ہے۔
یوں تو ان گیتوں میں تھری زبان کی عامیانہ اور دیہی خصوصیات بھی ملتی ہیں، مگر ان میں فن کارانہ ذہانت اور جمالیاتی ذوق کی چاشنی اس قدر موجود ہےکہ آدمی حیرت کے جہاں میں پہنچ جاتا ہے۔ ان گیتوں کو خواہ وقت، جذبات و احساسات کی قلم رو میں بہنے والے چشموں سے تعبیر کریں جو اپنی روانی کے آپ مالک ہوتے ہیں یا طبیعت کی آزاد روی اور مزاج کی بے ساختگی کے پرچموںسے تشبیہہ دیں، جو اپنی آن بان سے لہراتے ہیں، مگر فکر و خیال کے ان مرقعوں میں عوامی زندگی کی چھاپ بڑی گہری ہوتی ہے۔
ساون کے دن ہوں ۔ بادل شمال سے اُمنڈ اُمنڈ کر آئیں ، بوندا بادی شروع ہو اور مور قطاروں میں ریت کے ٹیلوں پر ناچتے ہوئے نظر آئیں تو پھر انسانی جذبات بارش سے مل کر گیتوں کی ایک مالا پروتے ہیں ۔ درج ذیل تھری گیت آپ کو تھرلے جائیں گے۔
پنہیاری: پنہیاری کا مطلب ’’پانی بھرنے والی عورت‘‘ ہے۔ بارش کے بعد تھر میں جب سارے تالاب پانی سے بھر جاتے ہیں تو پندرہ بیس لڑکیاں بناؤ سنگھار کرکے، مٹکے اٹھا کر پانی بھرنے جاتی ہیں۔ ایک ایسی بھی لڑکی ہوتی ہے، جس کا شوہر پردیس میں ہوتا ہے تو وہ میلے کپڑوں میں ہی تالاب پر جاتی ہے اور یہ گیت الا پتی ہے : میری سکھیاں تالاب پر ہیں سب نے ریشمی جوڑے پہنے ہیں، لیکن میرا جوڑا تو میلا ہے، سب کے شوہر تو گھروں پر ہیں پر میرا محبوب پردیس میں ہے۔
اس گیت کا بنیادی موضوع شوہر اور بیوی کی اٹوٹ محبت ہے۔ جب کسی سہاگن کا پیارا شوہر مدت سے پر دیس کا پنچھی ہو رہتا ہے اور بارش کا موسم آتے ہی گاؤں کی گوریاں گھر سے باہر پانی بھرنے جاتی ہیں تو یہ ابھا گن بڑی حسرت سے ان کے بناؤ سنگھار اور ٹھاٹ، باٹھ دیکھ کر آہیں بھر نے لگتی ہے کہ میرا شوہر تو پر دیس میں ہے، میں کیسے ہار سنگھار کر سکتی ہوں اور کس کے لیے خوش رہنے کی بے سُود کوشش کروں۔ دل کی تڑپ اور انتظار کی شدت میں جب مزید اضافہ ہونے لگتا ہے تو وہ گھر سے نکل کر کسی چوراہے پر جاکھڑی ہوتی ہے۔
یہ پریم کی دیوی مسافروں کی آمد ورفت کو مایوسانہ نظروں سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اس وقت ایک حسین اونٹنی سوار مسافر اس کے قریب سے گزرتا ہے۔ اسے مغموم پا کر ہمدردی کے لہجے میں بات کرتا ہے اور پھر پوچھتا ہے: ’’ اے حسینہ ! تو ایسے وقت میں جب دونوں وقت مل رہے ہیں، تنہا بستی سے باہرسرِراہ کیوں کھڑی ہے ؟ کہیں تیری ساس تو بدمزاج نہیں ، جس کی وجہ سے تو بھاگ کر میکے جارہی ہو اور دوریٔ مسافت کے باعث ملول ہو؟‘‘۔حسینہ جھینپ کر کہتی ہے: ’’اے راہی! تو اپنا راستہ لے، تجھے ان باتوں سے کیا غرض؟ میری ساس بُری ہے اور نہ ہی میرا میکہ دور ہے۔ میرا تو شوہر پردیس گیا ہے میں کھڑی اس کی راہ دیکھ رہی ہوں اور یہ اس کی جدائی ہے جو مجھے اس درجہ مغموم کیے ہوئے ہے۔‘‘نوجوان بولتا ہے:’’اپنے شوہر کا خیال اب دل سے نکال دے۔
اس کی امید میں اپنے حسن اور روپ کو یوں برباد نہ کر ۔ آ ، میرے ساتھ چلی چل۔ میں تجھے سونےسے لاد دوں گا۔ تیرے بال بال میں موتی پرو دوں گا۔ تجھے مالا مال کر دوں گا ۔ تم خواہ مخواہ مغموم ہو۔ دیکھو ! میں حاضر ہوں۔ اگر مجھے منظور کرو گی تو تمہیں شوہر سے بھی زیادہ خوش رکھوں گا۔ بولو، منظور ہے؟‘‘۔ اس پر عورت اجنبی سے لڑ جھگڑ کر گھر کو لوٹتی ہے ۔ جب اس کی ساس سارے قصے سے واقف ہوتی ہے تو ہنس کر اپنی بہو سے کہتی ہے:’’ اری ! وہ تو تیرا شوہر تھا ، جسے تُو نے بہت دن دور رہنے کی وجہ سے پہچانا نہیں۔‘‘ اس پر وہ عورت اپنی سچائی اور آزمائش پر ناز کرنے لگتی ہے۔
سالون ٹیجساون ٹیج، تھر کا معروف لوک گیت ہے۔ اس گیت کا تعلق ساون کے موسم سے ہے اور اس کی بہت سی اقسام ہیں۔ گاؤں کی دوشیزائیں درختوں میں لگے ہوئے جھولوں میں جھولتے وقت اس گیت کو سنگیت سے آراستہ کرتی ہیں۔ وہ سارا دن گھر سے باہر ہوتی ہیں۔ پورے دن کھانا نہیں کھاتیں، بلکہ کھویا، پیڑے، کھوپرا اور خشک میوے کھاتی رہتی ہیں۔
اس گیت میں پردیس کو بیاہی لڑکی کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ نوبیاہتا لڑکی اپنی ماں کو ساس کے متعلق شکایتوں سے بھرا ہوا ایک پیغام بھجواتی ہے:ماں ری ماں، دیکھو بارش آئی ہےتمہاری لاڈلی بیٹی سسرال میں ہے۔ ساری سکھیاں کھیلنے کو گئی ہیں، ساس سنگوڑی مجھے اجازت نہیں دیتی ،اس نے باجرا صاف کرنے کو دیا ہے۔
آدھا من باجرا صاف کیا ہےماں! سکھیاں تالاب پر نہانے گئی ہیں اور ساس نے مجھے چکی پر بٹھایا ہے اور میں باجرا پیس رہی ہوں۔اے ماں! میں چکی کو توڑ ڈالوں اور سارا باجرا آنگن میں بکھیر دوں اماں! چھوٹے بھائی کو بھیج دو، وہ آئےتاکہ میں تمہارا مُنہ دیکھ سکوں۔ میں انتظار میں بیٹھی ہوں۔
ہمرچو: لفظ ہمرچو بنیادی طور پر ’’ہم راہ اچو‘‘ (ساتھیوں آؤ!) ہے اور بار بار بولنے سے ہمرچو بن گیا ہے۔ یہ گیت تھر میں اُبھرا اور پھر پوے سندھ میں مشہور ہوگیا۔ یہ گیت فصل کے لیے زمین کی تیاری کے وقت یا پھر فصل کی کٹائی کے وقت لوگ مل کر گاتے ہیں۔ شروع میں دو یا تین لوگ سر میں گیت الاپنا شروع کرتے ہیں اور پھر باقی لوگ ان کے ہم نوا بن جاتے ہیں۔ اس گیت کی ابتداء کے متعلق ایک روایت موجود ہے۔
پرانے زمانے میں ایک دفعہ تھر میں بارش نہیں ہوئی اور زبردست قسم کا قحط پڑا۔ ایک گاؤں میں ‘‘سوڈھی‘‘ اور اس کا شوہر ’’چُھتا‘‘ رہتے تھے ۔ پورا گاؤں عمر کوٹ کے قریب آکر آباد ہوا، لیکن کسی وجہ سے چُھٹا بے چارہ گاؤں میں ہی رہ گیا۔ جب بارش ہوئی تو فصل بھی اُگائی گئی اور پھر کٹائی کے وقت یہ گیت سوڈھی نے گایا۔ اس گیت میں بارش کے بعد تھر کی کھیتی، باڑی، گھاس پُھوس، ہریالی اور جغرافیائی حالات کا ذکر ملتا ہے۔ ہمرچو کے بول یہ ہیں: میرا دیس تو دور رہ گیاالا، ہمرچو ہو رے الاسب سکھیاں ٹیلوں پر گھوم رہی ہیں۔ الا ہمرچو ہو رےا لامیں یہاں اکیلی رہ گئی ہوں۔
الا ہمرچو ہو رےا لااک دن میرا محبوب آئے گا۔الا ہمرچو ہو رے۔ا لا سب سے ملوائے گا۔الا ہمرچو ہو رے الا۔ایک اور ہمرچو یہ بھی ہے: بارش کے دن آئے ہیں الا۔ ہمرچو ہو رے الا۔شمال سے کالے بادل ابھرے ہیں الا۔ ہمرچو ہو رےا لا۔ پپیہا اڑتا ہوا گا رہا ہےالا۔ ہمرچو ہو رے الا۔بادل آسمان پر دوڑ رہے ہیں الا۔ ہمرچو ہو رے الا۔ بجلی بھی چمک ہی ہےالا۔ ہمرچو ہو رےا لا۔بارش نے تالاب بھر دیے ہیں الا۔ ہمرچو ہو رے الا۔ ہر سُو ہریالی ہوگئی ہےالا۔ ہمرچو ہو رہے الا۔
رانو: یہ گیت سندھ کی مشہور رومانوی داستان ’’مومل رانو‘‘سے متعلق ہے اور تھر میں رائج ہے۔ جب بارش ہوتی ہے اور پھر ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوتی ہے اور جانور ٹیلوں پر کھا س چرنے جاتے ہیں تو ایسے میں مومل اپنے محبوب رانو کو یاد کرتی ہے اور ایک قاصد بھیج کر کہلواتی : ’’اے رانا! برسات کی یہ سہانی راتیں تم بن کیسے کاٹوں۔
قاصد کے آتے ہی تم میرے پاس پہنچ جاؤنا!‘‘ محبت اور محبوب سے ملاقات کے جذبات پر مشتمل یہ گیت عام طور پر تھر میں بارش کے موسم میں بہت گایا جاتا ہے: ٹیلوں پر بارش ہوئی اور گھاس اُگ آنے پر آنگن بہت حسین ہے۔بیچ آنگن ایک کنواں بھی ہے۔ کنویں کا پانی بہت میٹھا ہے ۔چندن کی لکڑی کا جھولا بھی رکھا ہے،جس میں بچے جھول رہےہیں۔ مومل نے قاصد بھیجا اور کہلوایا کہ بارش کی رات میں تو آؤ رانا!
چوماسو: سندھی زبان میں ’’چوماسو‘‘ بارش کے موسم کو کہا جاتا ہے ۔ تھر میں یہ بے حد مقبول گیت ہے ، جسے گاؤں کی لڑکیاں ساون کے موسم میں مل کر گاتی ہیں ۔ اس گیت کا مرکزی موضوع برسات کے دنوں میں اپنے میکے اور سہیلیوں کو یاد کرنا ہے۔ جب کسی دور دراز گاؤں میں بیاہی ہوئی لڑکی کو اپنی سہیلیوں سے ملنے کا غم اور آبائی محبت یاد آتی ہے، تو آسمان کے ابرآلود ہونے کے وقت وہ بہت بے قرار ہو جاتی ہے اور گاتی ہے: میکے کے دیس میں بارش ہوئی ہے، بابل کا گاؤں بارش نے بھگودیا ہے بھائی! اونٹ کو تیار کرکے لے آاور پھر اپنی بہنا کو لے جا۔ بجلیاں چمک رہی ہیں اور بارش برس رہی ہے۔ میں صدقے جاؤں! بھائی آگیا! اونٹ بھی پُورا بھیگ گیا ہے بھائی کی تو پگڑی بھی بھیگ گئی ہے۔ ہاری بھیگ گیا اورر باجرا بھی بھیگ گیا
بادلیئو: تھر کی آبادی کا انحصار برسات پر ہے ۔ برسات ہو گی توہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہوگا۔ اس لیے تھر والوں کو بارش کا شدید انتظار رہتا ہے ۔ جب شمال سے کالے بادل جھوم کر آتے ہیں اور برساتی ٹھنڈی ہوا چلنا شروع ہوتی ہے تو پھر سہیلیاں مل کر یہ گیت گاتی ہیں :اے بادل! تھر پر آکر خوب برس ۔تمہارے بغیر ہاری کیسے ہل چلائیں؟کنواں سُو کھ گیا ہے۔ پاتہیاری (پانی بھرنے والی) پریشان ہے۔ ایسے بَرس کہ میں پوری بھیگ جاؤں۔ اے بادل! جب تم برسو گے ناتو پھر میں اپنے محبوب کو بلاؤں گی
بھئیو:یہ تھر کا مشہور لوگ گیت ہے، جو بارش کے موسم میں فصل کےلیے زمین کی تیاری کے وقت اور بعد ازاں فصل کی کٹائی کے وقت گایاجاتا ہے۔ کسی زمانے میں تھر کے ایک گاؤں میں بھائی بہن رہا کرتے تھے ۔ دونوں میں بے حد محبت تھی۔ جب بہت بڑی ہوئی تو اس کی شادی دور دراز کے ایک گاؤں میں کردی گئی۔ لہٰذا بھائی کی یاد میں وہ گیت گایا کرتی تھی ۔ اس لیے اس گیت کا نام بھئیو (بھائی) رکھا گیا۔
گیت کے بول یہ ہیں:بھیا! اپنی بہن کو بُلالوبھیا! تمہاری بہنا تمہاری راہ دیکھ رہی ہےکہ میرا بھیا آرہا ہے۔ میں نے پیپل کے درخت میں جُھولا ڈالا ہے۔ بھیا آئے گا تو ساتھ جھولیں گے۔آج تو تالاب بھی بھر گئے ہیں۔ ٹیلے پر مورنی دوڑ رہی ہےبھیا۔ مور بھی ناچ رہا ہےبھیا! آجاؤ ! مجھے اپنے دیس لے جاؤو
رسارو: ور سارو کے معنی ہیں : تیز بارش۔ یہ گیت خاص طور پر بارش کے موسم میں تھری خواتین فرصت کے وقت مل کر گاتی ہیں ۔ مضمون کے لحاظ سے ایک بیوی اپنے شوہر کی تڑپ میں اور بہن اپنے بھائی کے لیے ، جو پردیس میں ہوتے ہیں ،یہ گیت گاتی ہے۔ جب تھر میں بارش ہوتی ہے تو سارے تالاب پانی سے بھر جاتے ہیں اور کھیت بھی سر سبز ہو جاتے ہیں۔
ایسے میں یہ گیت گایا جاتا ہے۔ بیوی بولتی ہے : میرے محبوب ! راستوں میں بارش ہوئی ہے۔ تمہارا دیس جل تھل ہو گیا ہے۔ اب پر دیس سے واپس آجاؤ ۔گھر کی طرف تو آؤ۔میں واری جاؤں تم پر۔ آؤ تو ساتھ گزاریں یہ ساون ۔اور بہن گاتی ہے :ٹیلے پر بیٹھ کر تمہاری بہن کب سے تمہاری راہ تک رہی ہے۔اونٹوںپر جانے والوں سے بولتی ہوں،بھائی کو دیکھو تو ادھر بھیجنا۔آؤ تومکھن میں پکی روٹی کھلاؤں۔ اورلسی بھی تم کو پلاؤں ۔
رائدھن وَریہ۔ تھر کابے حد مشہور گیت ہے ،جو بارش کے موسم میں تھرکی نوخیز لڑکیاں گاتی ہیں۔زبردست بارش کے بعد تھر کے لوگ اور جانور بے حد خوش ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا اس خوشی میں لڑکیوں کا ایک گروہ یہ گیت گانا شروع کر دیتا ہے ۔اس گیت کا پس منظر یہ ہےکہ سومر ادور حکومت میں رائدھن سومرو نامی حکم راں ایک دفعہ ڈھٹ کے علاقے میں ایک تالاب کے کنارےٹھہرا۔ اسی تالاب پر لڑکیاں پانی بھرنے آئی ہوئی تھیں۔ ان میں گاؤں کے وڈیرے کی بیٹی بھی تھی ، جو بے حد خوبصورت تھی۔
اس کی نظر رائدھن سو مرو پر پڑی اور وہ اس پر عاشق ہو گئی ۔ گھر جا کر ماں سے بولی:’’ میں رائد ھن سے شادی کروں گی‘‘ ۔ ماں نے جواب میں کہا:’’ وہ تو بادشاہ ہے ۔ تم سے کیسے شادی کرے گا۔ لڑکی نے بہت ضد کی اور یہ گیت گانے لگی :آج تو زبردست بارش ہوئی ہے، میں نے اپنے محبوب کو تالاب پر دیکھا اے ماں! اس سے میری شادی رچا، اے جیجل ماں! اے رانی ماں!اُس کی پگڑی میں لال پھندنا لگا ہوا تھا۔ میری اس سے شادی کروادے ۔اس نے پیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میرا اس سے بیاہ رچاناں اماں ! لڑکی کی ضد اور تڑپ دیکھ کر والدین نے بادشاہ کو شادی کا پیغام بھجوایا ۔ رشتہ قبول ہوا اور پھر ان کی شادی ہوگئی۔
لُلریاڑی لو: یہ گیت عمر کوٹ اور چھاچھرو کے شمالی علاقوں میں بارش کے دنوں میں گایا جاتا ہے۔ للر ایک پودا ہوتا ہے ، جس کا سالن پکا کر تھرکے لوگ کھاتے ہیں۔ اس گیت میں بتایا جاتا ہے کہ خوب بارشیں ہوئی ہیں ۔ ہر طرف ہریالی ہے۔ جانور خوشی سے دوڑ رہے ہیں۔ بہت گھاس اُگی ہے اور قدرت نے بڑی کرم نوازی کی ہے ۔ اس گیت کے بول کچھ اس طرح ہیں : کھیت تیار ہوئے اور فصلیں پک گئیں۔
ٹینڈے ، شلغم اور کو کلے بھی بہت آگئے۔تربوز سے تو بہت پیار ہےجو ٹیلوں کے دامن میں اُگا ہے۔ اس دفعہ اناج بہت ہے۔جانور گھاس چَر رہے ہیں۔دودھ بہت مل رہا ہے۔ میں پیالہ بھر کے پیتی ہوں۔ دلیہ بھی بہت مزےدار ہے۔ مالک کی کرم نوازی سےسارے خوش حال ہیں۔
خیالی گومند: یہ تھر کا مشہور گیت ہے، جو خواتین بارش کے موسم میں گاتی ہیں۔ تھری محاورے میں’’ شوقین نوجوان‘‘ کو خیالی گومند کہا جاتاہے۔ ایک عورت اپنے دیور کی شادی کرانا چاہتی ہے اور اس کی آنکھوں میں کاجل ڈال رہی ہے تاکہ وہ حسین نظر آئے اور اس کا کہیں رشتہ ہو جائے اور پھر اس کا شادی کا شوق پورا ہو جائے۔ ٹیلوں پر بر سات ہوئی ہے، زمین پر باجرا اور مونگ اُگی ہے، اے شوقین جوان! آنکھوں میں کاجل ڈال ۔کاجل تو میرے دیور کی آنکھوں کا سنگھار ہے۔ کل میں اپنے میکے جاؤں گی تمہارے رشتے کی بات کروں گی۔ تم آنکھوں میں کاجل تو ڈالو خیالی گومند !
تھر میں بارش کے ان گیتوں کی تاریخ بہت پر انی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں ان گیتوں کے بول ، اتفاقیہ طور پر اور اختصار سے چند حساس لوگوں کے ما فی الضمیر سے اُبھر کر زبان زدِ عام ہوگئے ہوں گے۔ جن میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا ہے۔ بہ ہر حال، اصلیت کچھ بھی ہو ، یہ حقیقت ہے کہ یہ گیت انسانی ذہن اور احساسات کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔