• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھی ثقافت کے دھنک رنگ کتنے کاریگر ہیں یہ ....

دنیا بھر کی تہذیبیں اور ثقافتیں دریاوں کے کناروں پر پروان چڑھتی رہی ہیں۔ پاکستانی ثقافت کا بنیادی جزو موہن جودڑو بھی دریائے سندھ کا مرہون منت ہے۔ موئن جو دڑو سندھ کی تاریخ کے تمدنی، تہذیبی اور ثقافتی ماضی کا ایک لازوال اثاثہ ہے۔ یوں تو قدیم ویدوں، جوکہ سندھو دریا کے کناروں پر لکھے گئے تھے، میں دریائے سندھ کا تذکرہ بار بار ملتا ہے، مگر حسن ولطافت اور جذب وکیف کے اظہار کے موثر ذریعے کے طور پر شاعری وادی مہران کی عوامی زندگی کی مقبول ترین اساس ہے۔ 

خلوتیں ہوں یا جلوتیں، اشعار ابیات، ڈوھیرے، کافیاں، لوک گیت ، منظوم کہاوتیں، لوریاں وغیرہ ایسے شعر پارے ہیں، جنہیں عوامی زندگی سے الگ کرنا ممکن نہیں۔ دریائے سندھ کے سینے پر کشتی کھیلنے والا ملاح ہو یا تھر کا گلہ بان یا پھر خیر پور اور روہڑی کے کھیتوں میں لگے کھجوروں کے اونچے اونچے درختوں پر کمند کے ذریعے چڑھنے والا ’چاڑھا‘۔ شعرو نغمہ سے اس کی زندگی کو حرارت اور توانائی ملتی ہے۔ 

سمنگ چارن، مائی کرکھاں شیخن، قاضی قادن، شاہ عبدالکریم بلڑی وارو سے لیکر جدید سندھی شاعری کے امام حضرت شاہ عبدالطیف بھٹا ی تک شعرا کا ایک طویل سلسلہ ہے، جس سے سندھی لوگ مضبوطی سے بندھے ہوئے ہیں۔ شاہ لطیف کا کلام ان کے زمانے سے لوگوں کے سینوں میں محفوظ چلا آرہا ہے۔ پورے سندھ میں ان کے کلام کے سینکڑوں حافظ ہیں۔ ان کا کلام گذشتہ ساڑھے تین سو سالوں سے سندھ کے عوام کے کانوں میں رس گھول رہا ہے۔

سندھی زبان میں لوک ادب کا زبردست اور حیران کن ذخیرہ موجود ہے ۔ لوک کہانیاں، لوک داستانیں اور لوک شاعری کسی حیرت کدے سے کم نہیں، علاوہ ازیں لیلیٰ مجنوں شیریں فرہاد ، سیف المکوک اور بدیع الجمال، ہیر رانجھا، یوسف زلیخا، سلیمان اور بلقیس،مل محمود اور مہر سنگسار جیسی عشقیہ داستانوں کا سندھ کی دھرتی سے کوئی تعلق نہیں، تاہم یہ سندھی ثقافت میں اس طرح گہرائی سے شامل ہوگئے ہیں کہ ان کے بغیر سندھی لوک ادب مکمل ہی نہیں ہوتا۔

یہاں کے مقامی قصوں کو بھی سندھی ادب وشاعری میں نمایاں جگہ حاصل ہے۔ یہاں کی لوک شاعری کی اصناف،مثلاً لوری، مورو ، سہرا ، وغیرہ سندھی عوام میں صدیوں سے بے حد مقبول رہی ہیں۔ پیرو کھٹی، جلال کھٹی، شیخ حماد جمالی ، وغیرہ سندھی لوک ادب کے وہ ستون ہیں ، جن کے بغیر سندھی لوک اور ثقافتی شاعری کا تصور بھی ممکن نہیں۔

دراصل کسی خطے کے ثقافتی کوائف زیادہ تر اس علاقے کی زبان سے ہی عبارت ہوتے ہیں۔ سندھ کے ثقافتی پس منظر کو بھی سندھی زبان کے شعر وادب اور فن وثقافت سے ملاکر دیکھنا چاہیے۔ یہ وہ زبان ہے جو پورے سندھ کے علاوہ پنجاب میں صادق آباد، رحیم یارخان، بہاولپور اور ملتان اور بلوچستان کے مشرقی اور شمالی علاقوں میں مقامی طور پر بولی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے سندھ، پاکستان کی ثقافت کا ایک ایسا خیابان لطیف ہے، جس کی خوشبو ملک کے تمام صوبوں میں ہے۔

روح کی غذا کے طور پر موسیقی کو سندھ میں اس قدر اہمیت حاصل رہی ہے کہ ’’گھر گھر راگ،گھر گھر ڈھولک‘‘ کی کہاوت مشہور ہوگئی۔ سندھی موسیقی بنیادی طور پر لوک موسیقی ہی ہے، اس لئے کلاسیکی موسیقی یہاں بے حد کم ترقی پاسکی ہے۔ سندھی موسیقی کی روایت کو قدیم عہد سے دیکھا جاسکتا ہے ،موئن جودڑو سے دریافت شدہ ڈانسنگ گرل اور بھنبھور کے آبشاروں سے ملی ایک ناچنے والے جوڑے کی مورتی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سندھی موسیقی عہد قدیم سے ہے اور ترقی کے مختلف مراحل طے کرتی ہوئی آج کے دور میں داخل ہوئی ہے۔ 

موئن جودڑو سے ایک ساز بوڑینڈو بھی ملا تھا، جو آج بھی سندھی موسیقی کا ایک اہم جز مانا جاتا ہے۔ عرب دور میں سندھ میں منگتے فقیروں(لنگھا) اور بھٹ لوگوں سے سندھی موسیقی کی روایت میں ایک نئی روح پھونکی۔ اس کے بعد سومرا اور سمہ دور میں بھی اسےسرپرستی حاصل رہی، تاہم سندھی موسیقی، سندھی سماج کا جزو لاینفک رہی۔ کلہوڑا دور میں شاہ عبدالطیف بھٹائی سب سے بڑے اور مشہور موسیقار رہے۔ان کی شاعری اور موسیقی دراصل ایک ہی چیز کے دونام ہیں۔ دنبورو کی ایجاد کے ذریعے شاہ لطیف نے سندھی موسیقی کو مستحکم بنیادیں فراہم کیں اور ایک نئے مکتبہ فکر کو متعارف کروایا۔

لوک موسیقی ،داستان گوئی کی موسیقی، سر موسیقی اور دھرمی موسیقی سندھی موسیقی کے چار درجے ہیں، جن میں مختلف نوع کی شاعری گائی جاتی ہے، بعد ازاں کلاسیکی موسیقی بھی سندھ میں متعارف ہوئی۔ استاد عاشق علی خان، استادامیرخان، استاد غلام رسول خان، استاد خیروخان، وغیرہ نے سندھ میں کلاسیکی موسیقی کوشاندار رواج دیا۔

سندھی موسیقی کا اہم ستون کافی بھی ہے۔ کافی گانے والوں میں استاد منظور علی خان، استاد محمد جمن، ڈھول فقیر، چاکرخان چانڈیو، فقیر عبدالغفور،ظفر علی خان وٖیرہ کے نام بے حد نمایاں ہے۔ اس طرح لوک موسیقی میں علن فقیر، مائی بھاگی، زرینہ بلوچ، وغیرہ نے سندھی لوک موسیقی کو ابدی دوام بخشا ہے۔ لوک موسیقی میں عوامی ساز استعمال کئے جاتے رہے ہیں، جن میں یکتارہ، دنبورو، چنگ، سرندوم کینرو، بین یا الغوزو، مرلی، نڑ،شہنائی، بوڑینڈو، ڈھولک، پکواز، گھڑویا، مٹکا، جھانجھ وغیرہ جیسے ساز خاص طور پر عوام میں بے حد مقبول ہیں۔

سندھی فلم ایکتا1940سے لیکر آخری سندھی فلم ’ہمت‘1997بننے تک جن گلوکاروں نے فلمی موسیقی میں اپنے جھنڈے گاڑے ، ان میں گلشن صوفی، کوشلیادیوی، نزیر بیگم،ماسٹرترنم نورجہاں، مہدی حسن، روبینہ بدر، مہناز، ناہید اختر،نوشی،حمیرا چنا، عبداللہ پنہور، سجاد یوسف، شبنم مجید، سلیم شہزاد، انور رفیع، رفیق چودھری، ریشماں تبسم وارثی نے سندھی فلمی موسیقی کی قابل ستائش خدمت کی ہے،جب کہ غلام بن عبداللطیف، غلام علی، فیروز گل، فیروز دین، ستار حسین، امداد حسین، فتح محمدنظر لعل محمد اقبال، امانت گل، ببر علی، ضامن علی وغیرہ وہ ستارے ہیں جو سندھی فلمی موسیقی کے افق پر سدا چمکتے رہیں گے۔

موسیقی کو جذبات کی صوتی مصوری کہا جاتا ہے، لیکن رنگ اور برش کے ساتھ فنکار کی انگلیاں، جو فن پارے تخلیق کرتی ہیں، وہ بین الاقوامی زبان بن جاتی ہے۔ وادی سندھ میں ظروف کی جو ٹھیکریاں ملی ہیں، ان پر بنی ہوئی تصاویر سے عہد قدیم کے سندھی باشندوں کے ذوق مصوری کی عکاسی ہوتی ہے۔ 712ء میں سندھ میں اسلام کی آمد کے بعد یہاں مصوری کی سرکاری سطح پر کوئی خاص حوصلہ افزائی نہیں کی گئی، تاہم مقامی حکمران انفرادی طور پر مصور اور مصوری کو ایک نیا رخ ملا۔

اس دوڑ میں ایران، افغانستان اور وسط ایشیا سے کئی ایک ہنر مند سندھ لائے گئے، جن میں مصور بھی تھے۔ یہاں کے سندھی مصوروں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ،اس طرح سندھی مصوری کی کمزور روایت قوی ہونے لگی۔ مرزا جامن بیگ ترخان اور ان کے بیٹے مرزا غازی بیگ ترخان کی شہنشاہ جہانگیر اور اکبر اعظم کے دربار سے گہری وابستگی تھی۔ ان کے جو دھپور اور جیسلمیر کی ریاستوں کے حکمرانوں سے بھی قریبی مراسم تھے،لہٰذا مغل اور راجپوت مصوری کی روایات کا اثر سندھی مصوروں پر بھی پڑا۔ 

اس ضمن میں نامور ماہر آثار قدیمہ اور مورخ، شیخ خورشید حسن نےاپنے ایک مقالے بعنوان "Paintings in Muslim Sindh" میں لکھا ہے کہ ’’مرزا غازی بیگ ترخان نے ٹھٹھہ میں دو محلات بنوائے تھے، جن کو چھوٹی پینٹنگز سے سجایا گیا تھا۔ یہ محلات ویسے ہی بنوائے گئے تھے، جیسے آگرا اور لاہور میں مغلوں نے بنوائے تھے۔ ٹھٹھہ کے محلات وقت کے ہاتھوں میں محفوظ نہ رہ سکے، تاہم یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ان محلات میں لگائی گئی دیواری تصویریں مغل اور راجپوت مصوری کی روایات سے اثرلئے بغیر نہ رہ سکیں، کیوں کہ ترخانوں سے مغلوں اور راجپوتوں کی خاندانی رشتہ داریاں تھیں،اس کے علاوہ سندھی مصوری کا ایک الگ مکتبہ فکر بھی تھا، جو راجپوت اور دکنی مصوری کا ہم عصر تھا۔

کلہوڑا عہد حکومت میں سندھی مصوری کو بڑا عروج نصیب ہوا۔اس دور کی پینٹنگز میں مضامین کی کشادگی اور فن اپنی کمال صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ رنگوں کا امتزاج بیحد حسین اور دل کو لبھا دیتا ہے۔ اس دور میں بنایا گیا میاں محمد عطر خان کلہوڑو کا رنگین پورٹریٹ سندھی مصوروں کی اعلیٰ ذہانت کا ایک خوبصورت عکس ہے۔

ٹالپر دور میں بھی جو مصوری کی گئی، اس کے لاتعداد نمونے اب بھی حیدرآباد اور خیرپور میرس کے ٹالپر خاندانوں کے پاس موجود ہیں۔ انگریز دور میں بھی سندھی مصوری نے خوب ترقی کی، ترقی کا یہ سلسلہ تقسیم برصغیر کے بعد بھی چلتا آرہا ہے۔ ہم عصر دور میں محمد علی بھٹی، فتاح ہالیپوٹو، انجینئر شفقت حسین ودھو، سعید منگی، نعمت خلجی، مسرت مرزا، حفیظ قریشی وغیرہ نے سندھی مصوری کو بین الاقوامی سطح پر منوایا ہے۔

خطاطی ایک اسلامی فن اور،روح پرور آرٹ ہے۔ اسلام کی آمد کے بعد سندھی فنکاروں نے خطاطی کو بہت ترقی دی ،قرآن پاک کے انتہائی نفیس نسخے اور نمونے رقم کئے۔ ساتویں صدی عیسوی کے بعد ایران، عراق، شام، افغانستان اور وسط ایشیا سے کئی خطاط سندھ آئے، جنہوں نے خط نسخ، خط کوفی اور خط نستعلیق یہاں متعارف کروائے۔ 

سندھی خطاطوں نے ان سے بہت کچھ سیکھا اور پھر خطاطی کے ایسے نمونے سامنے لائے، جن کو دیکھ کر دنیا دنگ رہ گئی۔ ٹھٹھہ سندھی میں خطاطی کا سب سے بڑا مرکز رہا ہے۔ سندھی خطاط طاہر حسین بن رکن الدین نے شاہجہانی مسجد ٹھٹھہ پر جو خطاطی کی ہے وہ باکمال ہے۔ ان کے والد رکن الدین، ترخان دور کے سب سے بڑے خطاط تھے۔ مکلی کے قبرستان میں مرزا عیسیٰ خان ترخان کے مقبرے پر قرآن پاک کی آیات انہوں نے ہی خطاط کی تھیں۔

کلہوڑا اور ٹالپر حکمرانوں نے خطاطی کی بڑی سرپرستی کی۔ وہ سندھی خطاطوں کو وظیفہ دے کر ایران بھجواتے تھے، تاکہ وہ وہاں جاکر خطاطی سیکھیں اور اس میں مہارت پیدا کریں۔ موجودہ دور میں شاہ لطیف کی شاعری کو بھی خطاط کیا گیا ہے، جس میں نمایاں نام راز ناتھن شاہی کا ہے،اس کے علاوہ قیوم منگی اور خالیق چنا دور جدید کے نامور سندھی خطاط ہیں۔

سندھ میں مجسمہ سازی کی روایت بڑی قدیم ہے۔ اس کے نمونے، جو موئن جو دڑو سے ملے ہیں، وہ کمال کاریگری کے شاہکار عکس ۔ موئن جو دڑو سے انسانوں، جانوروں اور پرندوں کے مجسمے بڑی تعداد میں ملے ہیں۔ تانبے سے بنا ہوا ڈانسنگ گرل کا مجسمہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اس کے علاوہ کنگ پریئیسٹ کا مجسمہ، موئن جو دڑو کے مجسمہ سازوں کے اپنے فن میں کامل مہارت کا ایک ثبوت ہے۔ سندھ میں جہاں بھی دڑے اور ٹیلے دریافت ہوئے ہیں، وہاں سے بڑی تعداد میں مجسمے بھی ملے ہیں۔

گذشتہ سال شادی لارج (ضلع بدین) کے قریب گائوں وڈھڑی چک کے باسیوں نے کئی ایک مجسمے دریافت کئے،جوسب بدھ دور کے ہیں یہ پیتل اور تانبے کے بنے ہوئے ہیں۔ اس گائوں کے قریب سے کسی زمانے میں ہاکڑا دریا بہتا تھا،جس کے کنارے ایک قدم شہر آباد تھا، جو عین ممکن ہے کہ زیریں سندھ کا دارالخلافہ رہا ہو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عربوں کے زیر اقتدار اور مذہبی فرمانروائوں کے زیر نگیں رہنے کی وجہ سے سندھ میں مجسمہ سازی کو فروغ حاصل نہ ہوسکا۔ اس کے باوجود بھی سندھ میں متعدد مقامات پر فن مجسمہ سازی کے شاہکارہیں۔

سندھ میں رقص کئی شکلوں میں رائج ہے،اس کے ساتھ گیت بھی گائے جاتے ہیں۔ رقص قدیم ویدک دور سے سندھ میں رائج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب فصلیں پک جاتی تھیں تو کنوارے لڑکے اور لڑکیاں رقص کرتے تھے۔ موئن جو دڑو سے دریافت شدہ ڈانسنگ گرل (رقاصہ) کے مجسمے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں رقص کی روایت اپنے عروج پر تھی۔

فتح سندھ کے وقت مقامی لوگوں نے محمد بن قاسم کا استقبال (ادھر بھاء) ڈھولک اور شہنائی پر رقص کرتے ہوئے کیا تھا۔ سندھی رقص کو دیکھ کر فاتح سندھ بہت محظوظ ہوا تھا۔

سندھ میں رقص کی کئی اقسام مروج ہیں۔ شادیوں اور مختلف تہواروں کےموقعوں پر رقص بیحد ضروری ہوتا ہے۔ ہوجمالو، جھومر، ٹلو، راسوڑو، چھنو، ہنبوچھی، کھگی وغیرہ سندھ کے مقبول رقص ہیں۔

سندھی ثقافت کا ایک اہم جزو اجرک بھی ہے، جو صدیوں سے سندھی لوگوں کی پہچان ہے۔ موئن جو دڑو سے ایک پروہت کا مجسمہ ملا ہے، جس نے ایک چادر اوڑھی ہوئی ہے، اس چادر کو اجرک کا ابتدائی نمونہ کہا گیا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے خیال میں موئن جو دڑو میں اجرک بنانے والے ہنرمند رہتے تھے۔

یہ اجرک سندھ سے عرب علاقوں میں بھی گی، جہاں اسے ازرق کہا جانے لگا۔ ازرق کے معنی ہیں نیلے رنگ کا کپڑا۔ اصل میں اجرک کپڑے کے اس ٹکڑے یا چادر کو کہا جاتا تھا، جو نیل میں ڈبوئی جاتی تھی اور پھر اس پر لال رنگ کے گول دائرے یا پھول بنائے جاتے تھے۔ قدیم زمانے میں اجرک پر جانوروں اور پرندوں کی تصاویر بھی بنائی جاتی تھیں، لیکن سندھ میں اسلام کی آمد کے بعد تصاویر کی بجائے جیومیٹری کی مختلف اشکال اجرک پر بنائے جانے لگیں۔

اجرک کا بنیادی رنگ نیلا ہوتا ہے۔ ایک اجرک بنانے کیلئے 32 مرکبات استعمال ہوتے ہیں اور اس پر 5900 ٹھپے لگتے ہیں۔ اس کی تیاری کے سولہ مراحل ہوتے ہیں اور یہ 22 سے 28 دن میں تیار ہوتا ہے۔

اجرک سازی سندھ کی ایک بڑی گھریلو صنعت ہے۔ اسے بنانے کیلئے پانی کی بڑی مقدار درکار ہوتی ہے۔ لہٰذا دریائے سندھ، نہروں اور تالابوں پر اجرک کا کام کیا جاتا ہے۔ ٹھٹھہ، ہالا، سیکھاٹ، ٹنڈو محمد خان، مٹیاری، نصرپور، ماتلی وغیرہ اجرک کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ سندھ میں اجرک چھپائی کا سب سے بڑا مرکز ٹنڈو محمد خان ہے۔ یہاں کے اجرک سازوں نے امریکی صدر رونالڈ ریگن کی خواہش پر وائٹ ہائوس کا ایک کمرہ اجرک سے سجایا تھا۔اس کی تیاری میں لکڑی کے منقش بلاک بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس فن کو چوب کاری کہتے ہیں۔ یہ انتہائی محنت طلب ہنر ہے اور مقامی اجرک ساز اس ہنر میں طاق ہیں۔

اجرک کی اہم ترین خصوصیت اس کے رنگ اور خوبصورت نقش ہیں، جو آنکھوں کو موہ لیتے ہیں۔ اجرک، عزت، وقار اور توقیر کی نشانی بھی ہے اور تقریبات میں عزت افزائی کیلئے پیش کی جاتی ہے۔ شادی میں اجرک کی پگڑی دولہا کی شان میں اضافہ کردیتی ہے۔ اب تو یہ عالمی پہناوا بن چکی ہے۔

اجرک کی طرح سندھی ٹوپی بھی بے حد مقبول ہے۔ اس کا رواج ٹالپروں کے سندھ میں آنے سے ہوا۔ شرع میں یہ ٹوپی صرف کالے رنگ کی ہوتی تھی، لیکن مقامی سندھیوں نے اس میں ترامیم کیں،اسے نئے رنگ روپ دیئے،اس پر بیل بوٹے بنائے اور کڑھائی کا شاندار کام کیا۔ اب پورے سندھ میں سندھی ٹوپی ضرور پہنی جاتی ہے۔ سندھ کے ہر علاقے اور گاؤں گوٹھوں میں مرد اور خواتین بڑی محنت سے ٹوپی بنانے کا کام کرتے ہیں۔

سندھ میں کاشی کا فن بیحد مقبول ہے۔ کاشی بنیادی طور پر ایران کے علاقے کاشان کی صنعت ہے۔یہ فن سندھ کو ایران سے ملا۔ کاشی کی اینٹیں چھ گونی، آٹھ گونی یا پھر گول ہوتی ہیں، جن پر بڑی مہارت اور کاریگری سے بیل بوٹے، نقش و نگار اور چرند و پرند کی تصاویر بنائی جاتی ہیں۔ سندھ میں کاشی کے استعمال کا بہترین اور سب سے اولین نمونہ ٹھٹھہ میں موجود ایک مقبرہ ہے۔ اس کے بعد دبگیر مسجد کو (1588ء) کاشی کی اینٹوں یا بلاکس بڑی نفاست سے سجایا گیا ہے۔ 

مکلی میں مرزا جانی بیگ کا مقبرہ کاشی کے ہنرمندوں کی کمال کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ نواب امیر خان کا مقبرہ، شاہجہان مسجد ٹھٹھہ اور جامع مسجد خداآباد میں کاشی کوخوبصورتی اور مہارت سے استعمال کیا گیا ہے،علاوہ ازیں 80 کے قریب مقبروں، مساجد اور مندروں میں کثرت سے کاشی کا استعمال کیا گیا ہے۔ شاہ لطیف (بھٹ شاہ) سچل سرمت (دراز اشریف) ، لعل شہباز قلندر (سیوہن شریف) شاہ عبدالکریم (بلڑی شریف) اور حیدر آباد میں موجود کلہوڑا حکمرانوں کے مقبروں پر کاشی کا کام حیرت کی دنیا میں لے جاتا ہے اس کے علاوہ سندھالوجی اور سندھ میوزم میں اس کا کام بے حد منفرد ہے۔ نصر پور شہر تو پورے کا پورا کاشی کے ٹائیلوں سے بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ برتنوں پر بھی کاشی کا کام بڑی باریک بینی سے کیا جاتا ہے۔

جنڈی کا کام سندھ کے ہنروں میں اہم مقام رکھتا ہے۔ اس میں لکڑی کو تراشا جاتا ہے۔ ضرورت کے مطابق اس میں سوراخ کئے جاتے ہیں، لکڑی کے اوپر رنگ و روغن کیا جاتا ہے اور پھر اس کےاوپر مختلف رنگوں سے نقش و نگار بنائے جاتے ہیں۔ جھولے، کرسیاں، ظروف وغیرہ بھی بڑی مہارت سے بنائے جاتے ہیں۔ یہ کام ہالا، مٹیاری اورکشمور میں ہوتا ہے۔

سندھ میں کڑھائی کے کام کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں۔ سندھی خواتین صدیوں سے اس کام سے منسلک ہیں۔ یہ وادیٔ مہران کا ایک مانا ہوا فن ہے۔ موئن جو دڑو سے کئی اسی سوئیاں ملی ہیں، جن سے کڑھت کی جاتی تھی۔ آج کل بھی پورے سندھ میں ایسی ہی سوئیاں کڑھائی کے کام میں استعمال کی جاتی ہیں۔ گج جو سندھ کا مقبول ترین لباس ہے تھانو بولا خان میں بنایا جاتا ہے۔ اس میں کڑھائی کے لئے مختلف رنگ کے دھاگے استعمال کئے جاتے ہیں اور جیومیٹرک نمونوں کو ابھارا جاتا ہے۔ 

تھانو بولا خان کی سماٹ اور لوہانہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی خواتین گج پر کڑھائی کے کام میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں۔ کڑھائی میں شیشے کا استعمال بھی ایک عجیب فن ہے۔ زیریں سندھ، تھراور کوہستان میں شیشہ کڑھائی کا کام بڑی نفاست سےکیا جاتا ہے۔ شیشے کے چھوٹے چھوٹے گول ٹکڑے کاٹ کر ان کو کپڑے پر رکھا جاتا ہے اور پھر ان پر چاروں طرف مختلف رنگوں کے دھاگے لگائے جاتے ہیں۔

تھر میں کڑھائی کا کام مٹھی، اسلام کوٹ، عمر کوٹ، چھاچھرو، چیلہار اور نگر پارکر میں کیا جاتا ہے۔ تھری کڑھائی میں ستاروں کے ڈیزائن، مور، بیل بوٹے، پرندے اور جانور نمایاں ہوتے ہیں ۔ سندھ کی ساحلی پٹی کے علاقوں میں کڑھائی کا جو کام کیا جاتا ہے، وہ ایک دوسرے سے مختلف اور منفرد ہے۔

سندھ میں فن تعمیر کے نادر و نایاب نمونے دیکھے جا سکتے ہیں،ان میں عرب، ایرانی اور ترکی کے فن تعمیر کے اثرات سمو ئے ہوئے ہیں۔ سب سے اہم اور نمایاں وہ گنبد اور مینار ہیں جو مساجد اور مقبروں پر بنائے جاتے ہیں۔ سندھ میں سینکڑوں ایسی مساجد ہیں جو فن تعمیر کا لازوال عکس ہیں۔ ٹھٹھہ کی جامع مسجد ایرانی طرز تعمیر کا ایک بہترین اور نادر نمونہ ہے۔ حیدر آباد میں میاں غلام شاہ کلہوڑو کا مقبرہ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں ایرانی فن تعمیر کا کمال عالم آشکار اور مانا ہوا ہے۔

سندھ کی مساجد میں گنبدوں کے باہر اور اندر نقاشی کا فن، عربی اور فارسی رسم الخط میں حسین تحاریر، مینا کاری کا موہ دینے والا کام، محرابیں، اندر جانے کے لئے بڑے دروازے، سارا کچھ ایران اور ترکی سے لیا گیا ہے۔ سکھر میں موجود معصوم شاہ کا منیار تاتاری دور کی ایک عظیم یاد گار ہے۔

سیوہن میں قلندر شہباز کا مقبرہ اور بیرونی د روازہ خالص ترکی فن ہے۔ نواب دیندار خان نے یہ دروازہ اور مقبرہ فیروز تغلق کے کہنے پر تعمیرکروایا تھا۔ ٹھٹھہ میں جتنے بھی مقابر موجود ہیں ، وہ عرب، ایرانی فن کا عکس ہیں۔ مکلی میں فقط جام نظام الدین کا مقبرہ ایک واحد تعمیر ہے، جو اسلامی ہونےکے ساتھ ساتھ، حیدر آباد دکن کی عمارت سازی کے فن سے زیادہ مماثلث رکھتا ہے۔

سماجی زندگی میں سندھی ثقافت پر بیرونی اثرات زیادہ ہیں۔ کمرے، برآمدے، اوطاق وغیرہ ترکی ، ایرانی اثر کے تحت عمل میں آئے۔ قلعے ، شہر، پناہ، دکانیں، بازاریں، مارکیٹیں ، اسکول، کالج ، یونیورسٹیاں، ریل ، بس ، موڑ کار، پیٹرول پمپ ،سینما، پلازا، ٹکٹ، دفتر، کورٹ وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن سے سندھی لوگوں کا روز مرہ کا تعلق ہے اور ساری کی ساری باہر کی ہی ہیں۔

سندھ میں قدیم کھیل بھی رائج ہیں۔ ملا کھڑو سندھ کے ہر علاقے میں، عرسوں اور شادی بیاہ کے موقعوں پر کھیلا جاتا ہے۔ یہ سندھ کا سرکاری کھیل ہے۔ گھڑ دوڑ اور بیلوں کی دوڑ بالائی سندھ میں رائج ہے۔ تھر میں اونٹوں کی دوڑایک عوامی کھیل سمجھا جاتا ہے۔ مرغوں، تیتروں اور بٹیروں کی لڑائی بھی سندھیوں کا پسندیدہ کھیل ہے۔ اس کے علاوہ شطرنج، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ موئن جو دڑو والوں نے ایجاد کیا تھا، ڈھارو، چوپڑ، تاش نوٹن، ٹن ٹن بھی سندھ کے عام کھیل ہیں۔

عرس اور میلے سندھ کی ثقافتی زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ دراصل میلے ٹھیلے، عافیت کوشی اور راحت طلبی کے مظہر ہوتے ہیں ۔ شاید تاریخ کے اولین ادوار سے پہلے سے ہی رائج ہیں۔ مقامی لوگوں نےذوق تفریح کے مختلف تقاضوں کے مطابق ان میں طرح طرح کا رنگ بھر دیا ہے۔ ان میلوں کی یہ خصوصیت بھی وجہ ٔ امتیاز ہے کہ پورے سندھ میں جہاں کہیں بھی یہ منعقد ہوتے ہیں ان میں وارفتگی، خود فراموشی اور جوش و جذبے کی کیفیت سب جگہ ایک جیسی ہوتی ہے۔ 

حقیقت میں یہ میلے بزرگوں کے عرسوں کا ایک حصہ ہوتے ہیں اور لوگوں کی ان میں شرکت صرف تفریح کی غرض سے نہیں ہوتی، بلکہ جو عقیدت ان بزرگوں سے ان کو ہوتی ہے، وہ سرمستی کے رنگ میں ظاہر ہو کر انہیں ان میلوں میں لے جاتی ہیں اور پھران میلوں شریک ہو کر وہ غموں اور دکھوں کا بوجھ اتار کر چلے جاتے ہیں۔ وہ درگاہوں پر منعقد ہونے والے میلوں میں بڑی پابندی اور عقیدت سے شرکت کرتے ہیں۔ ان سب میلوں اور عرسوں کی یہ مشترکہ خصوصیت ہے کہ ان میں جوش عقیدت بھی جھلکتا ہے اور کیف و سروربھی ۔ لیکن فی الحقیقت ان میں عرس اور میلے کے جو حسین امتزاج ہے، اس نے ان کی دلکشی اور افادیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔