• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں سندھ کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے قائم کردہ وقف (Endowment Fund for Preservation of the Heritage of Sindh) اور اس کے سیکریٹری، عبدالحمیداخوند نے ، پاکستان کے سرکردہ ، قابلِ فخر دانشور اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر این اے بلوچ صاحب کی یاد میں سیمینار کا انعقاد کیا، موضوع بڑا فکر انگیزاور گہری معنویت کا حامل ہے یعنی 'The Passion and Works of Dr N.A Baloch'۔ ہم اس کا ترجمہ’ ڈاکٹر این اے بلوچ کا جذبہ و شوق اور ان کا کام‘کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے وہ سب لوگ جنہوں نے کوئی بڑا کام کیا ہو، کوئی چیز تخلیق کی ہویا کسی شاہکار کو بنانے میں کامیاب رہے ہوں، اُن سب نے یہ کامرانی، جذبے اور شوق ہی کے ذریعے حاصل کی ہوتی ہے۔ ہر بڑے کام کے پیچھے ایک بڑی آرزو کام کرتی نظر آتی ہے۔دنیا آرزوئوں کا نگار خانہ ہی تو ہے۔

ڈاکٹر این اے بلوچ کی زندگی کا مطالعہ کریں۔ جناب محمد راشد شیخ ، نے نہ صرف ڈاکٹر بلوچ کی مفصل سوانح مرتب کی ہے بلکہ اُن کے مضامین اور مقالات کی تدوین بھی بہت سلیقے سے کی ہے۔ ان سب مطبوعات کے وسیلے سے ڈاکٹربلوچ کی زندگی کا جوخاکہ ابھر کر ہماری نظروں کے سامنے آتا ہے وہ ایک ایسے شخص کا خاکہ ہے جس نے زندگی کے کسی لمحے کو ضائع کیے بغیر خود کو ہمہ وقت علم و تحقیق کی نذر کیے رکھا۔خشک سے خشک تر موضوع پرآسان اور سادہ زبان میں تحقیقی مواد فراہم کیااور علم کی ترسیل کے لیے ادارہ سازی کی۔

ڈاکٹر این اے بلوچ کئی حیثیتوں کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت ادب، تاریخ، تعلیم اور مذہبی موضوعات پر کام کرتے رہے۔ اُن کے اس سارے کام کا مزاج تحقیقی تھا۔ چنانچہ تاریخ ہی نہیں، ادب اور تعلیم کے موضوعات پر بھی جو کچھ انہوں نے لکھا اُس میں تحقیق کا اسلوب موجود رہا، پھر اُن کی ایک حیثیت ماہرِ تعلیم کی بھی تھی۔

انہوں نے برسہا برس نصاب سازی کی، نئے مضامین جامعات میں متعارف کروائے۔ وہ کئی جامعات اور تحقیقی اداروں کے بنیاد گزار رہے یہاں بھی انہوں نے نصاب سازی کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ وہ 1973ء سے1974ء کے درمیان سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے، بعد ازاں دوسال انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر رہے۔ اُن کا شمار اسکالر وائس چانسلروں میں ہوتا ہے۔

وائس چانسلروں کی یہ نوع وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب پاکستان میں معدوم ہوتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ساری زندگی، اُن کا طریقۂ بودو ماند، اُن کے معمولات، اُن کا زمانۂ طالبعلمی اور ایک استاد کی حیثیت سے ان کا طویل دورانیہ ٔحیات، غرض ان سب میں ان کا کلچر ایک اسکالر کا کلچر تھا۔ڈاکٹر صاحب نے علی گڑھ یونیورسٹی کے اپنے دورِ طالبعلمی کے بارے میں جو کچھ لکھا اور اپنے استاد علامہ عبد العزیز میمن کی صحبت سے استفادے کی جو تفصیلات اُس دور میں لکھیں، ڈائریوں کی مدد سے مرتب کیں اور پھر نیویارک کی کو لمبیا یونیورسٹی میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کی تیاری کے زمانے میں جو کچھ انہوں نے سیکھا، اُس کی تفصیلات پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک اسکالر تیار کیسے ہوتا ہے۔

عالم صرف کتابیں پڑھنے، امتحان پاس کرنے اور ڈگری کا پروانہ لہرانے سے وجود میں نہیں آتا۔ اسکالر علم کو روح میں اتارنے، اساتذہ سے پُرشوق استفادے، خود تنقیدی کے رویے اور خود اپنے علم پر کسی قسم کے گھمنڈ سے اجتناب کے ذریعے وجود میں آتا ہے۔ ڈاکٹر بلوچ کا زمانۂ طالبعلمی اسی ذہنی اور عملی فضا میں گزرا۔ میرے بس میں ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کی زمانہ ٔ طالبعلمی کی یادداشتوں کو اپنی جامعات کے ریسرچ میتھاڈولوجی کے کورسز میں لازمی مطالعے کے لیے شامل کرواتا۔

ہمارے طالبعلم یہ چیزیں پڑھیں گے تو انہیں اندازہ ہوگا کہ علی گڑھ میں اپنے استاد کے ساتھ شام کی سیروں میں ڈاکٹر صاحب نے عربی زبان و ادب، اور تحقیق کے کیسے راز دریافت کیے یا کولمبیا میں انہوں نے کس طرح ایک اچھی تحریر کی خوبی یہ جانی کہ اس میں تسلسل ، تدبر اور توازن کا ہونا ضروری ہے، تحریر میں مبالغہ آرائی نہ ہو یا یہ کہ خوبصورت جملہ وہ ہے جس میں ضبط ہو،بیان کا توازن ہو، یہ خوبصورت اور مؤثر انداز میں لکھا جائے،تحریر میں غیر ضروری اِطناب(غیر ضروری طوالت) نہ ہو بلکہ یہ ایجاز کی حامل ہو،یعنی concise ہو۔

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے عملی زندگی میں کئی ہفت خواں طے کیے۔ سندھی، اردو، فارسی، عربی ، انگریزی اور دیگر زبانوں میں انہوں نے جو دسترس حاصل کی وہ اُن کو تحقیق کی وادیوں میں سرگرمِ سفر رہنے میں بڑی معاون ثابت ہوئی۔ ان کے کیریئر کا یہ بڑا نمایاں پہلو تھا کہ انہوں نے ادارہ سازی میں بڑی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، کئی تحقیقی ادارے بھی بنائے ، ان کی ترقی اور توسیع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف سندھیالوجی، سندھی لینگویج اتھارٹی اور قومی کمیشن برائے تحقیق ، تاریخ و ثقافت، ایسے ہی ادارے ہیں جن کی تاریخ ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے نقوش اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

ایک طرف ادارہ سازی اور دوسری طرف یہ غیر معمولی حقیقت کہ، انہوں نے خود بنفس نفیس جو کام کیا وہ بھی بجائے خود ایک ادارے کے کام سے کم نہیں تھا۔ اُن کی تحقیق کے موضوعات بڑے متنوع تھے۔ انہوں نے سندھ کی تاریخ و تہذیب، سندھی ادب ، ادبیات پر فارسی اور عربی کے اثرات، لغت نویسی ، اور ایسے ہی دیگر وسیع الاطراف موضوعات پر سینکڑوں مقالات تحریر کیے ، بیسیوں مبسوط کتابیں لکھیں، تراجم کیے اور مختلف مقالات کی تدوین کا کام کیا۔ مثلاً لوک ادب پر چالیس سے زیادہ مطبوعات شایع کیں، سندھی لوک ادب کی تلاش و تحقیق میں جس محنت کا مظاہرہ کیا وہ اُن کے خلوص اور علم سے سچی وابستگی کا مظہر ہے۔

وہ سندھ کے چپے چپے میں گئے، جن علاقوں میں سڑکیں نہیں تھیں وہاں پیدل یا گھوڑے اور گدھے پر بیٹھ کر پہنچے اور تحریری وزبانی معلومات جمع کیں، سندھی کے کلاسیکی شعرا ء کے دیوان مرتب کیے، ان کے دیباچے رقم کیے اور ان شعراء کے عہد پر تاریخی نقطہ نظر سے اظہارِ خیال کیا، ’تاریخ ِ معصومی‘ کے مخدوم امیر احمدکے سندھی ترجمے کے وضاحتی حواشی لکھے اور اس پر ایک مقدمہ تحریر کیا۔ اسی طرح مخدوم امیر احمد ہی کے کیے ہوئے ’تحفۃ الکرام‘ کے سندھی ترجمے کے حاشیے تحریر کیے اور اس پر بھی مقدمہ تحریر کیا۔

سندھی زبان ،ادب اور موسیقی پر پانچ کتابیں تصنیف کیں۔ڈاکٹر صاحب کے کام کا ایک بہت بڑا شعبہ شاہ عبدللطیف بھٹائی کا شاہ جو رسالوہے جس کی کئی جلدیں شایع ہوئیں، یہی نہیں بلکہ شاہ سے متعلق بیسیوں دیگر کتابیں اور مقالات تحریر کیے۔ ان کا ایک بہت بڑا منصوبہ اسلامی تمدن کی سو کتابوں سے متعلق تھا۔اس منصوبے کے لیے انہوں نے مختلف زرائع سے قدیم مخطوطے اور قلمی نسخے حاصل کیے تھے۔ مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے ماہرین سے انہوں نے اس موضوع پر کتابیں لکھوائیں، جتنی کتابیں ان کی زندگی میں اس منصوبے کے تحت شایع ہوئیں ان پر ان کے مقدمے درج ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی انگریزی کتب اور مقالوں کی تعداد بھی پچاس سے زائد ہے۔ان کے مقالات پاکستان کے علاوہ دنیا کے مختلف ملکوں سے نکلنے والے تحقیقی مجلّوں میں شایع ہوئے۔ ان کی اردو کتابیں اور مقالات بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک شخص نے زندگی میں کتنا کچھ لکھااور اتنا کچھ لکھنے کے لیے کتنا کچھ پڑھا، اس کو ناقدانہ نظر سے دیکھا اور پھر اپنا نقطہ نظر وضع کرکے اس کو ضابطہ تحریر میں لائے۔

انہوں نے جس موضوع ہر بھی قلم اٹھایا حتی الامکان اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ، البتہ شاہ عبداللطیف فہمی کے اپنے دیرینہ شوق کے پس منظر میں یہ کہنے کی جسارت ضرور کر سکتا ہوں کہ شاہ عبداللیف بھٹائی کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے جو تحقیقات کی ہیں وہ شاہ کے کلام کی وسعتوں اور اس کی گہرائی کو سمجھنے کا بہت اچھا ذریعہ ہیں۔

میرا خیال ہے کہ اگر سندھ کی تہذیب اور اس کے مادی جذباتی اور نفسیاتی پہلوؤں پر مشتمل ایک وسیع و عریض دنیا کو عالم خیال میں لے کر آئیں تو شاہ عبداللطیف بھٹائی کو اس دنیا کے اندر راہ کشائی اور سمت نمائی کا سب سے وقیع اوراہم ذریعہ بھی تسلیم کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے جن اہل دانش نے شاہ لطیف کے اس مقام کو سمجھا اور سمجھایا ہے، ڈاکٹر این اے بلوچ ان میں سرفہرست ہیں۔

تعلیمی اداروں میں طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی ڈاکٹر صاحب کے خیالات پاکستان کے ان حکمرانوں سے زیادہ قریب رہے جو سیاست کو ایک منفی چیز سمجھتے ہیں اور باوجود اس حقیقت کے کہ ملک کا آئین ہر بالغ شہری کو مستقبل کے حکمران منتخب کرنے کا حق دیتا ہے، نوجوانوں کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔

ایسا کرتے وقت ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ سیاست دنگا اور فساد کا سبب بنتی ہے جس سے تعلیم کا نقصان ہوتا ہے۔وہ دنگے اور فساد کے اسباب پر غور نہیں کرتے نہ ہی ان کے سدباب کے لیے انتظامی اقدامات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ ان کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ طالبعلموں کو سیاست سے یعنی اظہارِ رائے اور انجمن سازی کے حق سے ہی محروم کردیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس سلسلے میں ایک بڑی محلِ نظر دلیل یہ دی ہے کہ:

’’حصول آزادی کے لیے ہم نے طلبہ کو انگریزوں کے خلاف استعمال کیا تھا اور اس کا مقصد انگریزوں سے آزادی حاصل کرنا تھا۔ بالفاظ دیگر ہم انگریز اتھارٹی پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کے لیے طلبہ کو استعمال کررہے تھے مگر اب طلبہ کو حکمرانوں کے خلاف استعمال کرنا ایک عام عادت بن گئی ہے۔ جب ایسے کسی عمل کو بہترین حربہ کے طور پر استعمال کیا جائے تو پھر اتھارٹی چاہے اپنی ہو یا غیر کی اس کے خلاف اس حربے کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ایک اور بات یہ ہے کہ انگریزوں کے دور میں سیاست کا تعلیمی شعبے میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ تعلیمی ادارے سیاسی فریب کاریوں اور ہنگاموں سے بہت دور تھے۔ ہم نے بڑی غلطی یہ کی کہ سیاست کو تعلیمی اداروں میں داخل کیا اور طلبہ کو اپنا آلۂ کار بناکر انہیں سیاسی مقاصد کی خاطر استعمال کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے تعلیمی ادارے سیاسی ادارے بن گئے۔‘‘

قطع نظر اس کے کہ حکومت غیر کی ہو یا اپنوں کی، انسان کا بنیادی حق تو ہر زمانے میں موجود رہتا ہے۔ سیاست حقوق و فرائض کے اُس نظام ہی کا نام ہے جو شہری آپس میں، اور ریاست کے ساتھ طے کرتے ہیں۔ یوں سیاست تمدن کی اساس ہے۔ اس کو معاشرے کے کسی ایک یا دوسرے حلقے کے لیے شجرِ ممنوعہ بنانے کا مطلب تمدنی ارتقا کے آگے بند باندھنے کی کوشش کرنا ہے۔ اور بالفرض اس بات کو بھی تسلیم کرلیا جائے کہ انگریز کے زمانے میں حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے طالبعلموں کو سیاست میں لانا جائز تھا، جو اب ناجائز ہوگیا ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انگریز کے جانے کے بعدانگریز کا نظام کون سا بدل گیا یا حکمرانی کے اسلوب کتنے تبدیل ہوگئے اور حکومتیں کتنی جمہوری بن گئیں کہ طالبعلموں سے کہا جائے کہ اب وہ سیاست سے دور ہوجائیں۔ٍ

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے تحقیق کا جو اسلوب پیش نظر رکھا وہ ہمارے نئے محققین کے لیے قابل تقلید ہوسکتا ہے۔ انہوں نے تصنیف و تالیف کا جو معیار قائم کیا وہ بھی ہمارے طالبعلموں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے ادارے، ہماری یونیورسٹیاں اور کالج ، ہمارے اساتذہ اور طالبعلم، ڈاکٹر بلوچ اور ان کی نسل کے ان جیسے روشن خیال اہلِ فکر کی تحریروں سے اکتساب کریں اور افکارِ تازہ کے نمود کا ذریعہ بنیں۔