انتظامی لحاظ سے پاکستان صوبوں، ڈویژنوں، اضلاع اور تحصیلوں پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ انگریزوں نے ملکی نظم و نسق کو چلانے کیلئے ڈسٹرکٹس یعنی اضلاع کے نظام کو تشکیل دیا تھا۔ سب سے پہلے چارلس نیپیئر نے صوبہ سندھ کو تین اضلاع میں تقسیم کیا، اس زمانے میں جو اضلاع بنائے وہ (1)۔ کراچی(2)۔حیدر آباد(3)۔شکار پور تھے۔ ان کا قائم کیا ہوا اضلاع کا انتظام ہم نے بھی آزادی کے بعد جاری رکھا۔ قیام ِ پاکستان کے بعد اضلاع میں اضافہ ہوتا گیا۔ آج پاکستان میں )6؍ ستمبر2022ء) تک پاکستان میں اضلاع کی کل تعداد 135ہو چکی ہے۔ اس ہفتے ’’ضلع جامشورو‘‘ کے بارے میں ملاحظہ کریں۔
ضلع جامشورو حیدر آباد ڈویژن کا ایک ضلع ہے اس کو ضلعی حیثیت 14دسمبر2004ء کو ارباب غلام رحیم سابق وزیراعلیٰ سند ھ نے دی تھی۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ شورو ایک قوم تھی اس کے سربراہ کا نام جام تھا۔ یوں یہ ’’جام شورو‘‘ جام کا آباد کردہ علاقہ کہلایا۔ جامشورو کراچی سے 150کلو میٹر اور حیدر آباد سے 18؍کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ ضلع کا رقبہ 11517مربع کلو میٹر ہے۔ محل و قوع کے اعتبار سے یہ ضلع شمال میں ضلع دادو، شمال مشرق میں نواب شاہ اور مٹیاری اضلاع مشرق میں ضلع حیدر آباد جنوب میں ضلع ٹھٹھہ اور جنوب مغرب میں ضلع کراچی واقع ہے۔ مغرب میں اس کی سرحدیں صوبہ بلوچستان سے ملتی ہیں۔ ضلع کا پوسٹل کوڈ 76000ہے۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع جامشورو کی کل آبادی 9,93,142 نفوس پر مشتمل ہے۔ جس میں شہری آبادی 4,31,855 یعنی 43.53 فیصد ہے۔ شرح خواندگی کا تناسب 46.47 فیصد ہے جس میں مردوں کا تناسب 55.14 فیصد اور عورتوں کا 36.71فیصدہے۔
جامشورو ضلع انتظامی لحاظ سے چار تحصیلوں (تعلقوں) میں تقسیم ہے جو بلحاظ آبادی یہ ہیں (1)۔ کوٹری تحصیل 4,38,063 ، (2)۔ تحصیل مانجھنڈ آبادی 1,40,366 ، (3)۔ تحیصل سیہون آبادی 2,69,051، (4)۔ تحصیل تھانو بولا خان آبادی 1,45,262ہے۔ ضلع میں مسلمان 95.07فیصد، ہندو 3.87فیصد ،عیسائی 0.98فیصد اور دیگر مذاہب کے 0.08فیصد لوگ آباد ہیں۔ ہندوئوں کے مشہور مندر ،گوبند رام دربار (مانجھنڈ) ، کتھوری ہری جان منہر مندر ہیں، عیسائیوں کا چرچ بھی ہے۔ جو اقوام آباد ہیں ان میں شورو، لاشاری، چانڈیہ، سومرو، لاکھو، سادات، قاضی، قریشی، لغاری،ملک اور پنہور رہتی ہیں۔ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان سندھی ہے، دوسری بڑی زبان اُردو ہے جو 4.13فیصد، پنجابی 4.2فیصد پشتو 2.7فیصد، بلوچی1.93فیصد، سرائیکی 1.38فیصد اور دیگر زبانیں 1.02فیصد بولی جاتی ہیں۔
ضلع کی معیشت کو دیکھا جائے تو زیادہ تر آبادی کاشتکاری کا پیشہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ ضلع کی مین پاور میں صنعتی علاقہ، پاور پلانٹ اور شہری کاروبار فراہم کر رہے ہیں۔ اپنے رہنے والوں کے لئے پہاڑی آبادی والے لو گ مویشی پالتے ہیں جبکہ ملاح منچھر جھیل سے مچھلیاں پکڑکرگزر بسر کرتے ہیں۔ ضلع کی تقریباً 20فیصد آبادی وفاقی اور صوبائی حکومت کے دفاتر میں ملازم ہے۔ نوری آباد انڈسٹریل ایریا اورکوٹری انڈسٹریل ایریا دو بڑے صنعتی زون ہیں، جہاں تقریباً 500سے زیادہ فیکٹریاں علاقے کی صنعتی ترقی میں اپناکردار ادا کررہی ہیں۔
اہم پاور یونٹس میں جامشورو پاور اسٹیشن، لاکھڑا پاور پروجیکٹ اورکوٹری تھرمل پاور اسٹیشن کام کر رہے ہیں سائٹ انڈسٹریل ایریا جس میں نوری آبادی اور کوٹری کے علاقے شامل ہیں ان میں جو صنعتیں کام کر رہی ہیں ان میں لکی پاور، لکی سیمنٹ، دادا بھائی سیمنٹ کے علاوہ کاٹن جیننگ فیکٹریز، چاول، آٹا کی ملز، تیل اور بہت سی صنعتی اشیاء کے یونٹ کام کر رہے ہیں۔ انڈسٹریل زون کے بننے سے علاقے میں روزگار کے مواقع فراہم ہوگئے ہیں جس سے ضلع میں ترقی کا عمل جاری ہے۔
تعلیمی لحاظ سے دیکھا جائے تو جامشورو تعلیمی اعتبار سے بہت زیادہ ترقی کر رہا ہے یہاں تین یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں جن میں، سندھ یونیورسٹی ، مہران یونیورسٹی اور لیاقت یونیورسٹی جامشورو واقع ہیں۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کا دفتر اور انسٹی ٹیوٹ آف سندھولوجی بھی قائم ہے۔ جامشورو اورکوٹری تحصیلوں میں گورنمنٹ گرلز اور بوائز کالجز ، بے شمار سیکنڈری، مڈل اور ہائی اسکولز کام کر رہے ہیں۔ سندھی ادبی بورڈ بھی کام کر رہا ہے۔ کیڈٹ کالج پٹارو بھی یہاں واقع ہے۔
بلدیاتی نظام بہت کامیابی سے چل رہا ہے۔ ڈسٹرکٹ کونسل جامشورو کی 29یونین کونسلز ہیں۔ یونین کونسل کوٹری کی آبادی 29,861یونین کونسل جامشورو کی آبادی 42,526، یونین کونسل سیہون کی آبادی 45,384 اور یونین کونسل مانجھنڈ کی 35,522اور تھانو بولا خان کی آبادی 43,705ہے۔ اسی طرح ضلع جامشورو کی تحصیلیں کئی دیہات پر مشتمل ہیں جن میں تحصیل کوٹری میں 26دیہات، تحصیل مانجھنڈ میں 50، تحصیل سیہون میں 71، تحصیل تھانو بولا خان میں 28دیہات ہیںاس طرح ضلع میں کل دیہات کی تعداد ہے۔2015ء کے بلدیاتی الیکشن کے نتیجہ میں ضلعی ناظم ملک اسد سکندر اور نائب ناظم عبدالحمید بلیدی ہیں۔
ضلع جامشورو معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہے ضلع میں چونے کا پتھر (لائم اسٹون) یہ تھانو بولا خان کے قریب 10کلو میٹر کے فاصلے پر دریافت ہوئے۔ سیلٹائیٹ کی رگیں عمر ایوسین کے چونا پتھر میں ایک شگاف زدہ زون کے ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں اور دھاتیں سڑانشیم سلفیٹ، کیلشیم سلفیٹ، کیلشیم کاربونیٹ، سلیکا، بیریم سلفیٹ اس مقام پر اندازہ شدہ محفوظ 52ہزار لانگ ٹن ہیں۔ جن میں 25فیصد بے فائدہ مواد ہے باقی 39ہزار لانگ ٹن سیلٹائیٹ ہے۔ یہاں کانکنی 1956ء کے قریب شروع کی گئی تھی اور کچ دھات کھلے گڑھے کھود کر نکالی گئی کچھ کو دوسر ے پیوستہ پتھروں سے علیحدہ کرنے کا کام ہاتھوں سے کیا گیا۔ کچ دھات کا زیادہ تر استعمال کراچی اور لاہور میں واقع پینٹ کی فیکٹریز میں ہوتا ہے اس پہاڑی کے مشرق میں کئی اور فالٹ ہیں جن میں مزید معدنی گیس ملز کی توقع ہے۔
تھانو بولا خان سے 5کلو میٹر دور فلرمٹی کے ذخائر کی بھی دریافت ہوئی ہے یہ مٹی دو مقاصد کیلئے استعمال ہو رہی ہے ایک تیل صاف کرنے کے کارخانے اور دوسرے کوزہ گری کے لئے اس کی سالانہ پیداوار تقریباً آٹھ ہزار ٹن ہے۔ کوٹری کے نزدیک سنگ مرمر کے ذخائر کی دریافت ہوئی ہے یہاں عمر ایوسیں کا چونا کا پتھر بھی موجود ہے۔ لاکھڑا کا علاقہ کوئلے کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ علاقہ میٹنگ قصبہ سے 98 کلو میٹر خانوٹ ریلوے اسٹیشن سے 16؍کلو میٹر مغرب کی جانب واقع ہے۔ یہ کوئلے کی بہت بڑی کان کہلاتی ہے۔
ضلع جامشورو میں آئل ا ینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے 1965ء میں ساری اور 1970ء میں ہندی کے مقام پر تیل و گیس کے ذخائر دریافت کئے۔ ساری میں 57کروڑ مکعب گیس موجود ہے۔ بحوالہ: (پاکستان کی معدنی دولت اعداد و شمار 2008ء تک کے ہیں)
تاریخی لحاظ سے یہ (خطہ) ضلع مختلف حکمرانوں کا حصہ رہا ہے جن میں سومرو خاندان (1024ء تا 1351ء) ستمہ خاندان (1335ء تا 1520ء) ارغون خاندان (1520ء تا 1650ء)کلہوڑو خاندان (1657ء تا 1783ء) اور آخر میں تالپوروں نے (1783ء تا 1843ء) جب تالپوروں نے کلہوڑوں کو شکست دی تو سندھ انتظامی لحاظ سے سات حصوں میں تقسیم ہو گیا جو تالپوروں اور میئرز نے تقسیم کئے۔ پھر 1843ء میں انگریزوں نے آکر پورے سندھ پر قبضہ کرلیا اور چارلس نیپیئر یہاں کا ایڈمنسٹریٹر بنا جو برٹش آرمی کا ایک کمانڈر تھا پھر چارلس نیپیئر سندھ کا پہلا گورنر جنرل مقرر ہوا۔
جامشورو پچیس سو سال پرانی تاریخ کا حامل ضلع ہے۔ یہاں کا قلعہ جو (رنی کوٹ کا قلعہ) کہلاتا ہے جس کی لمبائی 32کلو میٹر ہے جو سندھ کی عظیم دیوار بھی کہلاتا ہے ایک روایت کے مطابق سکندراعظم بھی یہاں آیا اور یہاں پر تین دن تک قیام پذیر رہا پھر اس قلعہ کو توڑ کر یہاں سے چلا گیا۔
جامشورو میں تفریحی و سیاحتی مقامات میں مشہور ہیں۔ منچھر جھیل،کوٹری بیراج، کیرسر پہاڑی علاقہ، قلعہ رنی کوٹ، کوٹر ی بیراج، سندھولوجی میوزیم، دراوڑ کا قلعہ، لال شہباز قلندرؒ کا مزار (سیہون شریف) اس کے علاوہ صدر الدین نٹگ شریف میں ممبر علی خاہ کا مزار اور بدھ مذہب کا اسٹوپا ،کوٹری جنکشن، دریائے سندھ پر مہران پل، کوٹری میں نتھو شاہ بخاری کا مزار دیکھنے کے قابل ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق جامشورو ضلع میں کل ووٹرز کی تعداد 4,26,446 ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 2,35,430اور خواتین ووٹرز کی تعداد 1,91,036ہے۔ مردوں کا تناسب 5.20فیصد جبکہ عورتوں کا تناسب 44.80فیصد ہے۔سیاسی لحاظ سے جامشورو ضلع سندھ کے دیگراضلاع کے مقابلے میں زیادہ شعور رکھتا ہے، جامشورو کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس ضلع سے سندھ کے دو وزیراعلیٰ بنے اتفاق سے وہ باپ، بیٹے تھے پہلے وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ جو بے نظیر بھٹو کی حکومت میں وزیراعلیٰ رہ چکے تھے دوسرے ان کے صاحبزادے موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ہیں جو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
جامشورو میں قومی اسمبلی کی ایک نشست NA-233ہے جس میں 2018ء کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سکندر علی راھپوٹو منتخب ہوئے انہو ں نے 77501ووٹ لیکر جی ایم سید کے پوتے سید جلال شاہ جن کا تعلق سندھ یونائٹیڈ پارٹی سے تھا شکست دی تھی۔ جامشورو ضلع میں تین صوبائی اسمبلی کی نشستیں PS-80-81ہیں۔ جامشورو PS-80سے مراد علی شاہ (موجودہ وزیراعلیٰ سندھ) PS-81سے گیانو مل اور PS-82سے ملک رائو سکندرخان منتخب ہوئے ہیں۔
دیگر سیاسی شخصیات میں جناب جی ایم سید، سید جلال شاہ، مراد علی شاہ، عبداللہ شاہ، سکندر علی شورو، سید جلال محمود ، سکندر علی راھپوٹو مشہور ہیں۔ضلع جامشورو کی اہم شخصیات جنہوں نے ضلع کو شہرت اور عزت بخشی ،ان میں، علامہ آئی آئی قاضی ، جی ایم سید، سابق وزیراعلیٰ سید عبداللہ شاہ (مرحوم)،موہن کلپنا (بھارت کے مشہور لکھنے والے ادیب)،موجودہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ 9۔ بی بی جمال خاتون ، مظفر بھٹو، ، عنایت اللہ،باقر ثنائی، قادر بخش تلبانی اورڈاکٹر خان محمد پنہور مشہور ہیں۔
جام شورو شہر چھوٹا سا شہر ہے جہاں تین بڑی ادبی بورڈ، مرکز تحقیقات اسلامی، بچوں کے لئے اسپیشل ایجوکیشن سنٹر اور F.W.Oکا دفتر بھی ہے۔ سیروسیاحت کا مرکز بھی شہر میں ہے جام شورو پل دریا سندھ پر شہرکو حیدر آباد سے ملاتا ہے۔
جام شورو کی تحصیل تھانو بولا خان ہے ،یہاں پہاڑ زیادہ ہیں لہٰذا یہ علاقہ کوہستان کہلاتا ہے یہاں وڈومندر بہت قدیم ہے جہاں سالانہ میلہ بھی ہوتا ہے۔کوٹری تحصیل ایک بڑا جنکشن ہے ،جو دریائے سندھ کے دائیں کنارے پرگدو بندر سے ملا ہوا ہے۔ یہا ں گورنمنٹ کے کالج اور اسکولز بھی ہیں۔ چمڑے کا کارخانہ ، ٹی بی ہسپتال، ریلوے انجنوں کا شیڈ اور یہاں کی پلہ مچھلی سندھ بھر میں مشہور ہے۔ دریائے سندھ پر مہران پل، پاور ہائوس اور نتھو شاہ بخاری کا مزارہے۔ یہ ضلع معاشی، سیاسی، تجارتی اعتبار سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔