مولانا نعمان نعیم
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ اللہ تمہیں اچھی نصیحت کرتا ہے۔ یقینا ًاللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ (سورۃالنساء:۵۸)رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: خبردار رہو، تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے اور مسلمانوں کا سب سے بڑا سردار جو سب پرحکمراں ہو، وہ بھی راعی ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔( صحیح بخاری، کتاب الاحکام)رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی حکمراں جو مسلمانوں میں سے کسی رعیت کے معاملات کا سربراہ ہو، اگر اس حالت میں مرے کہ وہ ان کے ساتھ دھوکا اور خیانت کرنے والا تھا، تو اللہ اس پر جنت حرام کردے گا۔ (صحیح بخاری)امام الانبیاء ﷺ کا ارشاد ِگرامی ہے: کوئی حاکم جو مسلمانوں کی حکومت کا کوئی منصب سنبھالے، پھر اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے جان نہ لڑائے اور خلوص کے ساتھ کام نہ کرے، وہ مسلمانوں کے ساتھ جنت میں قطعاً داخل نہیں ہوگا۔
آج ایک عام مسلمان کے ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ ریاستِ مدینہ کیا ہے؟ اتنی بات تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ ریاستِ مدینہ سے مراد حضورﷺ کی قائم کردہ وہ حکومت تھی جو مدینہ میں قائم ہوئی اور پھر پھیلتی چلی گئی، جسے خلافتِ راشدہ بھی کہا جاتا ہے، لیکن اس ریاستِ مدینہ میں کیا کیا خوبیاں تھیں، اسے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ آپ اکثر سیرت کے جلسوں اور مختلف بیانات میں قرآن پاک کی یہ آیتِ کریمہ سنتے ہوں گے:(ترجمہ) ’’تمہارے لیے رسول اللہﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب:۲۱) جس طرح رسول اللہﷺ کی حیات پاک تمام انسانوں کے لیے روشن نمونہ ہے، بالکل اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی ریاست تمام دنیا کی ریاستوں کے لیے مثالی نمونہ ہے۔
پاکستان ہمیں دل و جان سے عزیز ہے اور ہونا بھی چاہئے، کیونکہ وطن کے ہم پر شرعی، اخلاقی اور آئینی حقوق ہیں، شرعاً اخلاقاً وطن سے محبت، وطن کے باسیوں کا فریضہ ہے۔پاکستان کا قیام خالصتاً اسلام کے لیے ہوا، جیسا کہ مدینہ منورہ کو دارالاسلام بنا کر مرکز اسلام بنایا گیا۔ پاکستان کی جانب لاکھوں فرزندان اسلام نے ہجرت کی۔مدینہ منورہ کو مرکز اسلام کی حیثیت حاصل ہوئی پاکستان بھی اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے۔ ریاست مدینہ کو عالم کفر کی جانب سے تین بار حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ریاست مدینہ پہلے حملے یعنی غزوۂ بدر میں فاتح بن کر ابھری تھی، کفر کو شکست فاش اورنہتے مسلمانوں کو فتح مبین حاصل ہوئی تھی ، اسی طرح پاکستان پر بھی 1965میں دشمن نے اپنی عددی اکثریت و سائل کی کثرت پر تکبر کرتے ہوئے اچانک حملہ کر ڈالا، نتیجے میں قلت اسباب کے باوجود ایمانی طاقت کے ساتھ بے جگری سے مقابلہ کیا اور دشمن کو شکست فاش دی ،جبکہ پاکستان کو فتح مبین حاصل ہوئی۔ بدر کی جنگ میں نصرت الٰہی اور نزول ملائکہ کے ایمان افروز مظاہرے سامنے آئے۔
وطن کے استحکام، مضبوطی ،معاشی اعتبار سے اٹھانے کے لیے ہمیں کون کون سے اقدامات کرنے چاہییں۔ اس حوالے سے جب ہم سیرت طیبہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ آپﷺ کی تعلیمات پر نظر دوڑاتے ہیں تو سیرت نبوی ؐ سے چند امور نظر آتے ہیں۔ اگر ان نکات پر ہماری حکومتیں عمل کریں تو امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ہمارا ملک ترقی کی طرف گامزن ہوگا۔ رسول اللہ ﷺنےریاست مدینہ میں ایسے ادارے اور مراکز قائم کیے جن کے ذریعے علم و دانش ،تعلیم و تعلم کو فروغ دیا گیا ،نظم اجتماعی قائم ہوا۔
مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی اور اس کے ذریعے پوری دنیا کا نظام چلایا گیا۔ حضور اکرم ﷺ نے مواخات کا نظام قائم کیا۔ مہاجرین وانصار مدینہ کے درمیان بھائی چارگی اور محبت کا درس دیا۔ آپس کے اختلاف کو دور کیا۔اللہ تعالیٰ نے یہ ریاست ہمیں عطا فرمائی ہے، لہٰذا آپس کے اختلاف کو دور کرنا ہوگا۔باہر کے دشمن سے اتنی تکلیف اور نقصان نہیں ہوتا، جتنی تکلیف اور نقصان آپس کے اختلاف کے باعث ملک کو پہنچ سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج مواخات کے رشتے کو فروغ دیا جائے۔
مدینے کی ریاست میں آس پاس کے پڑوسی ممالک اور مختلف قبائل سے آپﷺ نے معاہدہ کیا۔ آج ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے پاک وطن اور اس کی سرحدوں کو مضبوط و مستحکم کریں۔ اپنی استطاعت کے مطابق وطن عزیز کی خدمت کریں۔ دیانت ، امانت داری ،محبت ،اتفاق سے اس ملک کی خدمت کریں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اس ملک کی حفاظت فرمائے۔ معاشی اعتبار سے ملک کو ترقی عطا فرمائے۔ قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد یعنی اسلام کی بالادستی اور قرآن و سنت کا نظام قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضوراکرم ﷺکو جب نبوت ملی تو آپ ﷺنے سب سے پہلا کام لوگوں کے عقائد ونظریات کی درستی کا کیا، اور عرب کے اس جاہل معاشرے میں نظریۂ توحید کی داغ بیل ڈالی۔ ریاستِ مدینہ کے بانی حضرت محمد مصطفی ٰﷺنے سب سے پہلے عقیدہ کا نعرہ بلند کیا، کیونکہ عقیدہ ہی وہ پہلا پتھر ہے جو درست ہو جائے تو زندگی کا دھارا بدل جاتا ہے۔ لہٰذا آج بھی اگر کوئی ریاستِ مدینہ قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے ریاست کے باسیوں کے عقائد اور نظریات کو درست کرنے کی فکر کرنی ہوگی، اور لوگوں کو ایک اللہ کا بندہ اور آخرت میں حساب وکتاب اور جواب دہ ہونے کا احساس دلانا ہوگا۔
ریاستِ مدینہ میں سب سے پہلے کام کا آغاز ہی مسجدِ نبوی کی تعمیر سے ہوا، جس سے پتا چلتا ہے کہ ریاستِ مدینہ کی پہلی ترجیح مساجد کی تعمیر تھی۔ اُمورِ مملکت کے اہم فیصلے مسجد میں ہوا کرتے تھے، ریاستِ مدینہ کی مقننہ مسجد میں ہی تھی، ریاست کا مرکز بھی مسجد تھا، ریاستِ مدینہ کی اعلیٰ عدالت بھی مسجد میں ہی تھی۔ غرض ریاستِ مدینہ کے تمام اُمور مسجد میں طے ہوتے تھے، ریاست کے لشکر فوجی ہوں یا سفارتی سب مسجد سے روانہ ہوتے اور خاص طور پر خارجہ اُمور اور باقی ممالک کے سفارتی وفود سے مذاکرات اور ملاقاتیں مسجد میں ہی ہوتی تھیں۔ ریاستِ مدینہ نے اپنی نیشنل یونیورسٹی کا درجہ بھی مسجد کو ہی دیا ہوا تھا۔
عرب کے اس معاشرے میں جو جاہلیت کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا اور طرح طرح کی خود ساختہ بندشوں میں جکڑا ہوا تھا، ریاستِ مدینہ نے ان تمام بوجھ کو اتارا، اور تمام بندشوں کو کھول کر لوگوں کو آزاد کیا۔ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ قانون کی بالادستی ہو اور قانون میں امیر غریب، چھوٹے بڑے طبقے کا فرق مٹا دیا جائے۔
ایک وقت وہ تھا جب لوگوں نے بھوک کی شدت کم کرنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھے ہوتے تھے، اور پھر چند سال بعد ایسا دور بھی آیا کہ ریاستِ مدینہ میں زکوٰۃ دینے والے تو تھے، لیکن زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ملتا تھا۔ یہ سب کچھ ریاستِ مدینہ کی ان شاندار پالیسیوں کے نتیجے میں ممکن ہوا جو اس ریاست نے اختیار کیں۔ ان میں سب سے اہم چیز سود پر مکمل پابندی تھی، جس کی وجہ سے غریب کو سر اُٹھانے کا موقع ملا اور امیر کے منہ میں لگام ڈال دی گئی۔ یہی وہ بنیادی پتھر تھا جسے اُٹھانے کے ساتھ ہی ریاست کی معیشت ترقی کرنا شروع ہوئی۔
ریاستِ مدینہ نے ارتکازِ دولت پر بھی پابندی لگا دی اور ایسی ایسی پالیسیاں جاری کیں کہ دولت چند ہاتھوں تک سمٹ کر نہ رہ جائے، بلکہ دولت ہر وقت حرکت میں رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سود حرام اور زکوٰۃ فرض قرار دی گئی، یعنی ناجائز طریقے سے کوئی دولت اکٹھی نہیں کرسکتا، اور جائز طریقے سے اکٹھی کی گئی دولت بھی ایک حد کے بعد ایک خاص مقدارِ زکوۃ کی صورت لٹا دی جائے گی۔
اس کے علاوہ ریاستِ مدینہ نے امیروں پر زکوٰۃ تو فرض کی، لیکن غریبوں پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں لگایا۔ آج ہماری ریاست امیروں کو تو طرح طرح کی چھوٹ دیتی ہے، لیکن غریب سے ایک سوئی سے لے کر کھانے پینے کی بنیادی چیزوں یہاں تک کہ بچے کی تعلیم کے لیے خریدے گئے بال پن اور بسترِ مرگ پر لیٹے بیمار کی گولی تک ہر چیز پر ٹیکس وصول کرتی ہے۔ کئی چیزیں تو ایسی ہیں کہ جتنی ان کی اصل قیمت ہے، اس کے قریب قریب ہی اس پر ٹیکس لگادیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی بھی دل جمعی، خلوص، اور محنت سے کام نہیں کرتا بلکہ لوٹ مار، دھوکا، فراڈ، اور غلط ذرائع سے دولت جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ریاستِ مدینہ شہریوں کو لوٹنے کے بجائے ان کی کفالت کرتی تھی۔ ریاستِ مدینہ شہریوں کی خوراک، صحت اور تعلیم کا خاص خیال رکھتی تھی۔
حضوراکرم ﷺ کی معجزانہ قیادت کا ہی حیرت انگیز کرشمہ ہے کہ آپﷺ کی قیادت و حکمرانی اور ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کے قیام کی صورت میں دنیا میں ایک ایسا عظیم الشان انقلاب برپا ہوا جس کی مثال پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہی اسلامی انقلاب ہے، جو انسانیت کے لیے سراپا رحمت و برکت و سعادت ہے۔ آج ہمیں مخلص قومی قیادت اور مثالی لیڈر شپ کے لیے سرورِ کونین، پیغمبرِ آخر و اعظم، سیّدِ عرب و عجم حضرت محمدﷺ کی سیرتِ پاک سے ہر مرحلے پر راہ نمائی لینا ہوگی، جو تا ابد رُشد و ہدایت کا سرچشمہ، لائقِ تقلید نمونہ اور مینارۂ نور ہیں۔