اقلیتوں کے لئے خوشخبری

September 22, 2023

مہاتما گاندھی کہاکرتےتھے’’ہندوستان گندے جوہڑ کی مانند ہے،باہر سے آنے والے خوبصورت لوگ اپنی خوبصورت تہذیبوں سمیت اس میں غرق ہو کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں‘‘۔ ہندوؤں کی تنگ نظری کے پیش نظر یہ قول بالکل صادق ہے مگر اس بات کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ ہندوستان میں بعض ایسے لوگ بھی آئے جن کے چراغوں کی روشنی نے لوگوں کے دلوں کو بدل ڈالا پھر ان بدلے ہوئے لوگوں میں علیحدہ وطن کی تحریک پیدا ہوئی۔ علامہ اقبال جیسے بڑے فلاسفر نے ایک تصور پیش کیا، اس تصور کو ان کی شاعری نے جلا بخشی، لفظ جذبوں میں اترے تو پاکستان بن گیا۔ پاکستان اور بھارت میں اقلیتوں کے حوالے سے رویے مختلف ہیں۔ مثلاً اگر وہاں چرچ جلائے جاتے ہیں تو حکومت چرچ جلانے والوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، ہندوؤں کی اکثریت بھی واہ واہ کرتی ہے۔ جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو حکومت اور ہندو اکثریت شانہ بشانہ تھی۔ بھارت میں گوشت کے نام پر مسلمانوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔ دلی جیسے شہر میں مسلمانوں کی بستیاں جلائی جاتی ہیں اور بھارت سرکار چپ رہتی ہے۔بھارت میں شودروں کو جانوروں جیسی زندگی گزارنا پڑتی ہے، کروڑوں شودروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوتا ہے۔ شودر گاڑی نہیں خرید سکتے، گھوڑے پر نہیں بیٹھ سکتے بلکہ انہیں برابر کا شہری ہونے کا احساس حکومت پوری زندگی نہیں ہونے دیتی۔ بھارت میں گوردواروں کی بے حرمتی ہوتی ہے، کس طرح بھارتی سرکار نے گولڈن ٹیمپل کو مقتل بنا دیا تھا۔ آپریشن بلیو اسٹار کے بعد سکھوں کے گھر جلائے گئے تھے۔ 1984ء سے 1994ء تک، دس سال میں 10 لاکھ سکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، اس دوران کئی سکھ نوجوان جان بچا کر کینیڈا چلے گئے تھے۔ سکھ اپنا علیحدہ وطن چاہتے ہیں مگر بھارت کی ہندو سرکار کینیڈا میں بھی سکھوں کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ تازہ ترین واردات تحریک خالصتان کے رہنما ہردیپ سنگھ نیجر کا قتل ہے۔ ایک سینئر سفارت کار کے روپ میں را کے اسٹیشن چیف پون کمار رائے اس قتل میں ملوث ہیں۔ کینیڈین حکومت اپنے شہری کے قتل پر سراپا احتجاج ہے، کینیڈین حکومت نے بہروپئے سفارت کار کو نکال دیا ہے، بھارت کے ساتھ تمام معاہدے بھی منسوخ کر دیے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ پاکستان کے پرچم میں سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتاہے۔ قائد اعظم نے اپنی 11 اگست والی تقریر میں اقلیتوں کے تحفظ کے لئے بھر پور گفتگو کی تھی۔ پاکستان میں کرسمس، ایسٹر، ہولی، دیوالی یا باباگورو نانک کے جنم دن کی تقریبات ہوں تو ان تمام مواقع پر حکومتی نمائندگی بھرپور نظر آتی ہے۔ کرتار پور راہداری بھی محبت کا ایک ثبوت ہے۔ پنجاب میں مسلمانوں اور سکھوں کا مشترکہ ثقافتی تہوار بیساکھی ہے جسے بھرپور انداز میں منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں جب بھی شر پسند عناصر اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو حکومت اور قوم اقلیتوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ بھارت کو یہ حسن سلوک گوارہ نہیں، اس لئے وہ افغانستان کے راستے دہشت گردی کی کارروائیوں میں سکھوں اور مسیحیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ نو دس سال پہلے پشاور کے ایک چرچ میں دہشت گردی کی گئی، یہ را کی منصوبہ بندی تھی۔ اس کارروائی کے بعد ہمارے ادارے چین سے نہیں بیٹھے بلکہ سپریم کورٹ نے بھی ایکشن لیا۔ اس ایکشن پر سست روی دیکھ کر اقلیتی نمائندوں نے سپریم کورٹ میں آواز بلند کی، اس پر سپریم کورٹ نے ون مین کمیشن بنایا۔ کمیشن کا کام اقلیتوں کے حقوق کی نگرانی ہے۔ سپریم کورٹ نے دنیا کے منجھے ہوئے پولیس افسروں میں شمار ہونے والے ڈاکٹر شعیب سڈل کو کمیشن کا سربراہ بنایا۔ جس وقت ڈاکٹر شعیب سڈل کو کمیشن کا سربراہ بنایا گیا وہ لندن میں ایک کانفرنس میں تھے، یہ عظیم راوین پاکستان آیا اور اس نے آتے ہی اقلیتوں کے حقوق کی نگرانی شروع کر دی۔ یہ صرف نگرانی نہیں تھی بلکہ نگہبانی تھی۔ ڈاکٹر شعیب سڈل نے سب سے پہلے 5 فیصد نوکریوں کا حساب مانگا تو پتہ چلا کہ اقلیتوں کے لئے تیس ہزار ملازمتیں خالی ہیں، ان پوسٹوں کو فل کرنے لئے کام شروع ہو چکا ہے، اس سلسلے میں اگلے مہینے سی ایس ایس کا ایک ا سپیشل امتحان ہو رہا ہے، اس امتحان میں صرف اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لڑکیاں لڑکے شریک ہو سکیں گے۔ ڈاکٹر شعیب سڈل نے اقلیتی طلباوطالبات کے لئے ایک اور بڑا کام کیا ہے، انہوں نے ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو پابند کیا ہے کہ وہ ہر شعبے میں اقلیتوں کے 2 فیصد کوٹے پر سختی سے عمل کریں۔ اس مقصد کے لئےاسکالرشپس کا سلسلہ وسیع کر دیا گیا ہے۔ جس یونیورسٹی یا کالج نے یہ کام نہ کیا تو اسے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ ڈاکٹر شعیب سڈل جیسے نگہبان کی صورت میں اقلیتوں کے لئے خوشخبریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بقول اقبال۔

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں