عالمی برادری سے وزیر اعظم کا خطاب

September 24, 2023

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس سے خطاب اور اس کے بعد کی جانے والی پریس کانفرنس میں مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کو پاک بھارت امن کی بنیاد قرار دیتے ہوئے بجا طور پر مطالبہ کیا ہے کہ ہندوتوا کے باعث ہونے والی بدامنی سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کا سدِّ باب کیا جائے، سکھ لیڈر ہردیپ سنگھ کے قتل کو اسی ذہنیت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے بالکل درست طور پر خبردار کیا کہ یہ طرز فکر پوری دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہے۔ موجودہ عالمی منظر نامے کا جائزہ لیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یوکرین اور دیگر 50 مقامات تنازعات کی زد میں ہیں جبکہ وقت کا تقاضا ہے کہ معیشت کو اولیت دی جائے کیونکہ کووڈ کی عالمی وبا، باہمی تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث کئی ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئے ہیں لہٰذا حالات کی بہتری کے لیے پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول یقینی بنانا ہوگا۔ اسلامو فوبیا پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد اسلام کے خلاف مہم جوئی نے وبائی شکل اختیار کر لی ہے‘ باہمی احترام، مذہبی علامات، صحیفوں اور مقدس ہستیوں کے تقدس کو یقینی بنایا جائے۔ اس ضمن میں انہوں نے ڈنمارک اور سوئیڈن میں قانون سازی کے آغاز کا خیرمقدم کیا۔ تفصیلات کے مطابق تنازع کشمیر پر پاکستان کا موقف پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے صراحت کی کہ بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد سے گریز کیا ہے جن کے مطابق کشمیر کا فیصلہ وہاں کے لوگ اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے کریں گے۔ کشمیر کی آئینی حیثیت میں ناجائز تبدیلی اور اس کے بعد نو لاکھ بھارتی فوج کے ہاتھوں مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے عالمی برادری کے نمائندوں کو توجہ دلائی کشمیر میں رائے شماری کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرانا ان کی ذمہ داری ہے۔ نگراں وزیر اعظم نے صراحت کی کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے شدید طور پر متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے، گزشتہ برس سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آیا اور معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا اورہم ابھی تک متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے 10.5 ارب ڈالر سے زائد کے عالمی وعدوں کی تکمیل کے منتظر ہیں ۔ بلاشبہ سیلاب کی تباہی کے بعد مالی تعاون پاکستان کی ناگزیر ضرورت ہے اور عالمی برادری کو اس سمت میں فوری عملی اقدام کرنا چاہیے۔ افغانستان میں امن کو پاکستان کیلئے اسٹریٹجک حوالے سے اہم قرار دیتے ہوئے نگراں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افغان عوام کی انسانی بنیاد پر امداد کی پاکستان بھرپورحمایت کرتا ہے جبکہ کالعدم ٹی ٹی پی، داعش اور دیگر گروپوں کے ہاتھوں افغانستان سے ہونے والی ہر قسم کی دہشت گردی کو روکنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ سعودی عرب اور ایران میں تعلقات کی بحالی اور شام و یمن میں تنازعات کے خاتمے کا خیرمقدم اور فلسطین میں اسرائیلی مظالم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے دوریاستی حل کا راستہ اختیار کیے جانے پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں وقت کے بیشتر اہم مسائل کا بلاشبہ بخوبی احاطہ کیا ہے ، دیگر ممالک کے قائدین نے بھی بہت اچھی باتیں کی ہیں تاہم دنیا سے تنازعات کے خاتمے اور معاشی و سماجی ترقی کے ذریعے کرہ ارض کوتمام انسانوں کے لیے امتیازی سلوک، تعصبات، استحصال، بھوک ، بے روزگاری اور بدامنی سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ چند طاقتور ملکوں کے مفادات کا آلہ کار بنے رہنے کے بجائے اپنے اصل مقصد یعنی نفاذِ انصاف کے ذریعے دنیا میں قیام امن کی ذمے داری کو پورا کرے ورنہ جنرل اسمبلی کے مزید 78 اجلاسوں کے بعد بھی معاملہ ’’ نشستند و گفتند و برخواستند‘‘ سے آگے نہیں بڑھے گا۔