25 ستمبر 1981میری زندگی کا اداس دن تھا مسلم لیگ کونسل(حقیقی)کے مرکزی رہنما چوہدری ظہور الٰہی نمازجمعہ کی ادائیگی کی تیاری کر رہے تھے جسٹس مولوی مشتاق حسین کے ہمراہ اپنی کار میں ماڈل ٹاؤن کی مین سڑک سے گزر رہے تھے کہ الذولفقار کے کارکنوں نے کلاشنکوف کا برسٹ مارکر شہید کر دیا ،اسی روز چوہدری ظہور الٰہی کو ان کے ایک دوست نے بتایا کہ ان کو کسی نے ٹیلی فون کر کے دھمکی دی ہے کہ
چوہدری ظہور الٰہی کو مارنے کا فیصلہ ہو گیا ہے لہٰذا وہ احتیاط برتیں جب کہ چوہدری ظہور الٰہی نے مولوی مشتاق حسین کو بھی بتایا تھا کہ’’ الذوالفقار ‘‘کے ایک ہزار کارکنوں کو تربیت دیکر پاکستان میں سیاسی مخالفین کوقتل کرنے کیلئے بھیج دیا گیا ہے ان کے اہداف میں ایک انتہائی بااختیار شخص بھی شامل ہے اس کے بعد بھٹو کیس سے تعلق رکھنے والے جج اور پھر سیاست دانوں کی باری ہے لیکن اب یہ فہرست مختصر کر دی گئی ہے جس میں میرا نام سب سے نمایا ں ہے چوہدری ظہور الٰہی پرقاتلانہ حملے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ان کے پاس وہ قلم محفوظ تھا جس سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کے حکم نامہ پر دستخط کئے گئےتھے ۔حیران کن بات ہے کہ چوہدری ظہور الٰہی ممکنہ حملے کا پروگرام جانتے ہوئے سیکورٹی کے بغیر گھر سے نکلے اورکار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے جس کے شیشےبھی بلٹ پروف نہ تھے گجراتیوں کی’’دوستی اور دشمنی‘‘ مشہور ہے ۔جس کار کو الذوالفقار کے کارکنوں نے کلاشنکوف کے برسٹ سے چھلنی کر دیا تھا وہ گجرات میں چوہدری شجاعت حسین کی والدہ محترمہ نے اب تک محفوظ کر رکھی ہے ،چوہدری برادران ہر سال گجرات میں جلسہ کر کے اپنے والد کی یاد تازہ کرتے ہیں لیکن اب کی بار’’ ظہور الٰہی پیلس ‘‘ گجرات اجڑ گیا ۔چوہدری برادران ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ہیں چوہدری پرویز الٰہی جیل میں ہیں، وہ پی ٹی آئی کے صدر ہیں انہیں عمران خان کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں کیاجا سکا چوہدری برادران پچھلے20 سال سے ’’کمپرومائزڈ پالیٹکس‘‘ کر رہے تھے لیکن چوہدری پرویز الٰہی، چوہدری ظہور الٰہی کے نقش قدم پر چل پڑے ،جنہوں نے کبھی مصلحت پر مبنی سیاست نہ کی تھی، انہوں نے بھٹو دور میں 4 سال تک جیل کاٹی وہ کبھی مسلم لیگ کے صدر بنے اور نہ ہی وزارتِ عظمی کا تاج اپنے سر سجایا لیکن اتنا ’’پولیٹکل کیپٹل‘‘چھوڑ کر گئے کہ ان کےصاحبزادے چوہدری شجاعت حسین وزارت عظمٰی اور بھتیجے چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے ۔ چوہدری شجاعت حسین مسلم لیگ ق کے صدر بنے جبکہ چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے دو بار وزیر اعلیٰ بنے۔ بہت کم لوگوں کو یاد ہو گا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کی اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی عروج پر تھی ذوالفقار علی بھٹو کی فسطائیت نے ملک میں گھٹن کی فضا پیدا کر دی تھی فروری 73 میں بلوچستان میں نیپ اور جمعیت علما اسلام کی مخلوط حکومت کو ذوالفقار علی بھٹو نے برطرف کر دیا تو کے پی کے میں مفتی محمودنے نیپ اور جمعیت علماء اسلام کی مخلوط حکومت سے استعفا دے کر ملک میں احتجاج کا ماحول پیدا کر دیا 99ویسٹریج راولپنڈی میں چوہدری ظہور الٰہی کی رہائش گاہ پر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ قائم کر دیا جس کے پیر صاحب پگارا صدر، مفتی محمود نائب صدر اور پروفیسر غفور احمد سیکرٹری جنرل بن گئے چوہدری ظہور الٰہی یو ڈی ایف کے روح رواں تھے،ان کی رہائش گاہ کو ’’اپوزیشن ہاؤس‘‘بھی کہا جاتا تھا 23 مارچ 1973 کو یو ڈی ایف نے رابطہ عوام کے سلسلے میں لیاقت باغ میں پہلے جلسہ عام اعلان کیا لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے طاقت کے بے رحم استعمال سے یو ڈی ایف کی قیادت کو لیاقت باغ میں جلسہ نہ کرنے دیا، خان عبدالولی خان کو کے پی کے سے آنے والے ’’سرخ پوشوں‘‘ کی لاشیں اپنے کندھوں پر لے جانے پر مجبور کر دیا لیکن عبدالولی خان نے مشتعل پشتونوں کو صبر و تحمل کی راہ دکھا کر خیبر پختونخوا میں قتل وغارت کا بازار گرم نہ ہونے دیا راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب میں،جو لیاقت باغ میں ہی واقع تھا، اجمل خٹک اپنے خون آلود کپڑے تبدیل کر کے جلاوطنی کی زندگی گزارنے کیلئے افغانستان چلے گئے اور سالہا سال کے بعد زمینی حقائق نے انہیں پاکستان واپس آنے پرمجبور کر دیا۔بھٹو کے دور میں خان عبدالولی خان پر متعدد بار قاتلانہ حملے کئے گئے چوہدری ظہور الٰہی 5جولائی 1977میں بھٹو کی حکومت کے خاتمہ تک زنداں میں رہے ۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ذوالفقارعلی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی سیاسی مخالفت کرنے والوں کی اولادآصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی کا دست و بازو بنی رہی ۔خان عبدالولی خان کی این اےپی ، پی این اے بنی تواس نے بھی اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کر لیا مفتی محمود کی اولاد بھی تین سال تک پیپلز پارٹی کی حکومت کے مزے لیتی رہی ،آصف علی زرداری جومسلم لیگ ق کو قاتل لیگ کہتے تھے انہوں نے قاتل لیگ کو گلے لگا لیا ۔چوہدری برادران نے بھی چوہدری ظہور الٰہی کا خون معاف کر دیا آج گجرات کے چوہدری برادران منقسم ہیں چوہدری شجاعت حسین نوازشریف کیمپ میں جب کہ چوہدری پرویز الٰہی عمران خان کے ساتھ جیل کاٹ رہے ہیں۔ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک چلانے کے فیصلہ میں چوہدری ظہور الٰہی کا بڑا کردار تھا یہ تحریک نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی 1977میں جنرل ضیا الحق نے مارشل لانافذ کر دیا ۔ فروری 1973 کا ذکر ہے یہ قومی اسمبلی کے ایوان میں مسلم لیگی رہنما چوہدری ظہور الٰہی کی آواز گونج رہی تھی ،سپیکر بار بار ان کی تقریر میں مداخلت کر کے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ چوہدری ظہور الٰہی کو ذوالفقار علی بھٹو پر تنقید کرنے نہیں دے رہے لیکن چوہدری ظہور الٰہی سپیکرنے کی مداخلت کی پروا کئے بغیر مسلسل ساڑھے چار گھنٹے تقریر کرنے کا ریکارڈ قائم کیا یہ قومی اسمبلی میں چوہدری ظہور الٰہی کی یادگار تھی اس تقریر کے نتیجے میں ذوالفقارعلی بھٹو نے چوہدری ظہور الٰہی اور ان کے خاندان کے خلاف 137 مقدمات درج کرا دیئے آج کے دور میں شاید ہی چند صحافی ایسے ہوں جنہوں نے پیپلز پارٹی کے اس دور میں اپوزیشن کی رپورٹنگ کی ہو مجھے اس بات کا اعزاز حاصل ہے ۔چوہدری ظہور الٰہی کی سیاست کوبڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا سابق وزیر شیخ رشید کے ہمراہ مجھے چوہدری ظہور الٰہی سے کئی بار ملاقاتوں کا موقع ملاچوہدری ظہور الٰہی کوکولہو سے کوئٹہ جاتے ہوئے جعلی پولیس مقابلے میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا لیکن غیرت مند بلوچ نواب اکبر بگٹی نے بلوچوں کی سرزمین پر اپنے مہمان کو قتل کرنےکی سازش کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور انہوں نے آخری وقت تک چوہدری ظہور الٰہی کی حفاظت کی یہی وجہ ہے کہ چوہدری شجاعت حسین نواب اکبر بگٹی کی بہت عزت کرتے تھے۔