عالمی ادارہ صحت کے زیراہتمام نیویارک میں ہیپاٹائٹس کے موضوع پر منعقدہ عالمی کانفرنس میں یہ انتہائی تشویشناک بات سامنے آئی ہے کہ ہیپاٹائٹس سی سے دوچارہونے والے ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نام سب سے اوپر آگیا ہے جہاں اس کے مریضوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوچکی ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور اس مرض کے خلاف کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کو صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اسے کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔طبی ماہرین ہیپاٹائٹس کو ایک خاموش مرض قرار دیتے ہیں۔ان کے مطابق مریضوں میں اس کے اثرات بیماری کے پھیل جانے کے بہت بعد میں ظاہر ہوتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مرض میں مبتلا لوگوں کی اکثریت کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بیمار ہیں جبکہ ایک تعداد ایسی بھی ہے جو یہ جانتے ہوئے کہ وہ ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہوچکے ہیں ، پھر بھی علاج کی پروا نہیں کرتے اور مرض بگڑ جانے پر ان کے بس سے باہر ہوجاتا ہے۔معالجین کے مطابق ہیپاٹائٹس سی کی وجوہات میں سرجری کے غیرمحفوظ آلات اور انتقال خون سرفہرست ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے تعاون اور اشتراک سے پاکستان نے 2030تک ملک کو ہیپاٹائٹس سی سے پاک کرنا ہے تاہم موجودہ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت یہاں ایک کروڑ سے زائد افراد اس مرض کو اپنے ساتھ لئے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ سالانہ ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ اس میں مبتلا ہورہے ہیں۔اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہیپاٹائٹس کے خلاف منظم مہم پر عمل پیرا ہیں لیکن اس کے باوجود مرض میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے ، صورتحال کا تقاضا ہےکہ اس سے بچاؤ کے آگاہی پروگرام پر نظرثانی کی جائے اور شہریوں کو مفت سہولت دیتے ہوئے اس کا ٹیسٹ سب کیلئے کرانا لازمی قرار دیا جائے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998