نوازشریف کو عدالتی ریلیف

December 01, 2023

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو ایک مقدمے میں برّیت اور دوسرا مقدمہ واپس لئے جانے کے باعث خارج ہونے کی صورت میں جو عدالتی ریلیف ملا، اس کے بعد ان کے لئے الیکشن میں حصہ لینے کا راستہ ہموار ہوتا محسوس ہو رہا ہے جبکہ بطور ادارہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی سمیت نظام احتساب اور نظام انصاف کے حوالے سےبعض اہم سوالات شدّت سے سامنے آئے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی 11سال قیدکی سزا کالعدم قرار دے کر نواز شریف کو بری کر دیا جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی برّیت کے خلاف نیب اپیل واپس لئے جانے پر خارج کردی۔ دوران سماعت جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ استغاثہ کا موقف درست ثابت کرنے کے لئے کوئی دستاویز موجود نہیں، بے نامی کے لئے 4مندرجات کا ثابت ہونا ضروری ہے ۔ کوئی ایک بھی ثابت نہ ہوتو وہ بے نامی کے زمرے میں نہیں آتا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث ریفرنس دائر کئے گئے۔ جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ریفرنس دائر کرنا آپ کی مجبوری تھی ۔ العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا کے خلاف میاں نواز شریف کی اپیل کی سماعت ملتوی کر دی گئی۔ اس کیس کی آئندہ تاریخ رجسٹرار آفس جاری کرے گا۔ واضح رہے کہ احتساب عدالت نے 6جولائی 2018ء کو نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 10سال قید کی سزا کے علاوہ شیڈول ٹو کے تحت ایک سال قید کی اضافی سزا بھی سنائی تھی۔ احتساب عدالت نے نواز شریف پر 80لاکھ پائونڈ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔بریت فیصلے کے بعد میڈیا سے مختصر گفتگو میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ میں نےا پنے معاملات اللہ پر چھوڑ دیئے تھے اس نے مجھے سرخرو کیا، مالک کا بہت شکر ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا تاثر بھی یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے سچائی واضح کر دی۔ مسلم لیگی رہنما اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ کورٹ نے میاں نواز شریف کو میرٹ پر بری کیا۔ ان کے بموجب تین کیسوں میں سے دو بدھ کو ختم ہوگئے، ا ب ایک کیس باقی رہ گیا ہے، تینوں مقدمات ایک ہی جے آئی ٹی سے نکلے اور ایک ہی پروسیڈنگ کا حصہ ہیں۔ بدھ کے روز سامنے آنے والے فیصلے کے بعد قانونی نظام کے استحکام اور طریق کار کے حوالے سے یہ سوالات ضرور سامنے آتے ہیں کہ ہمارے ہاں مقدمات بغیر ٹھوس شواہدو ثبوت بنانے کا سلسلہ کب اور کیسے ختم ہوگا؟ میاں نواز شریف پر قائم کئے گئے مقدمات پر لوگوں کی بڑی تعداد کو شبہات تھے جو وقت نے درست ثابت کر دیئے۔ اس سے قبل کئی حکومتی ادوار میں بنائے گئے مقدمات شبہات کی زد میں آئے اور بعدازاں ایسے شواہد سامنے آٰئے جن سے شبہات کی درستی واضح ہوتی رہی۔ اس وقت بھی بعض معاملات شبہات کی زد میں ہیں۔ ان کے بارے میں یکسو ہو کر سوچا جانا چاہئے۔ امریکہ و برطانیہ سمیت متعدد ممالک میں جب مقدمات سامنے آتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ ان کی بنیادیں ٹھوس حقائق اور ناقابل تردید شواہد پر استوار ہیں۔ لوگوں کو اعتماد ہوتا ہے کہ کسی کو جھوٹے الزامات کے تحت آسانی سے سزا نہیں دی جاسکتی۔ ہمارے ہاں بعض صورتوں میں کیس پہلے بن جاتا ہے شواہد کی تلاش بعدازاں افراتفری میں کی جاتی ہے ۔ اسی لئے مقدمات کی عمارت آگے چل کر منہدم ہو جاتی یا وقت کی تبدیلی حقائق کے سامنے لانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بدھ کے فیصلے کے بعد ’’نیب‘‘ کی افادیت و کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ جبکہ سیاستدانوں کو ایک دوسرے کو زک پہنچانے کی روش پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ جمہوری اقدار کو مزید مضبوط بنایا جائے۔