فاٹا کا المیہ

December 07, 2023

سابقہ فاٹا کا علاقہ سات قبائلی ایجنسیوں پر مشتمل تھا۔ اس کی آبادی 10 ملین نفوس سے کچھ زائد بتائی جاتی تھی۔فاٹا کا علاقہ وفاق کے کنٹرول میں تھا۔ 2017 میں وفاق نے فیصلہ کیا کہ اس علاقے کو KPK صوبے میں ضم کردیا جائے ، اس قسم کے اہم فیصلے کیلئےریفرنڈم یا جرگے کے متقاضی ہوا کرتے ہیں لیکن وفاق نے ایک تیسرا راستہ اپنایا۔ اس نے حکومت کے حامی افراد کا اجلاس بلالیا جس سے اس دور کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ نے گفتگو کی۔ انکےسوالوں کے جوابات دیئے،انہیں تسلی دی کہ سابقہ فاٹا کو ہر سال ایک سوبلین روپے کی امداد کسی تعطل کے بغیر 10 سال تک جاری رہے گی۔ اس سے فاٹا کے ضم شدہ علاقے میں انفراسٹرکچر بنے گا۔ اس امداد سے سڑکیں بنائیں جائیں گی، اسکول اور کالج کھلیںگے، شفاخانے تعمیر کئے جائیں گے، سینیٹ اور پارلیمنٹ میں نشستیں کم نہیں کی جائیں گی، وفاق میں چار فیصد ملازمتوں کا کوٹہ بھی بحال رکھا جائے گا۔ الغرض اجلاس نے ان اصلاحات پر خوشی کے نعرے لگائے، ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ یہ اجلاس اپنے انجام کو پہنچا۔ یہ انضمام کی تصویر کشی کا خوبصورت اور دلکش پہلو تھا۔ وفاق نے سوبلین سالانہ کی رقم صوبوں سے وصول کرنا تھی۔ پروگرام کچھ یوں تھا کہ ہر صوبے نے اپنے این ایف سی ایوارڈ کا تین فیصد حصہ فاٹا کے فنڈ میں جمع کرانا تھا۔ لیکن چاروں صوبوں نے بیک زبان اپنے اپنے مسائل کا جواز پیش کرتے ہوئے رقم دینے سے انکار کردیا۔ آئین کی اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو خود مختاری حاصل ہوگئی،لہٰذا وہ وفاق کی کسی بھی تجویز کو نظر انداز کرسکتے ہیں اور وفاق ان سے فاٹا کیلئے رقم دینے کا تقاضابھی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ فاٹا کو چھ سال میں فقط دس ملین روپے کی رقم مل پائی ،یوں فاٹاکو دس سال میں کے دوسرے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ اگر یہ ریفرنڈم کروا لیا جاتا کہ آپ KPK میں شامل ہوں گے یا اپنا علاقہ اپنے پاس رکھیں گے اور اس کو نئے صوبے یا ریجن کا نام دینا چاہیں گے تو آج یہ مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔مگر اس بات کا کیا حل کہ ہم تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کے متمنی ہوتے ہیں چنانچہ باجوہ صاحب بھی اپنا نام لکھوا گئے۔ KPK میں یہ بات زبان زد خاص و عام ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ محمود خان نے اپنے صوبے کو ملنے والی امداد کا کثیر حصہ اپنے ڈویژن میں خرچ کردیا اگر یہ بات درست ہے تو کاش وہ فاٹا کو نظر انداز نہ کرتے۔ وہ اپنے ایوارڈ کا تین فیصد فاٹا پر لگا دیتے تو یہ کا رنامہ تاریخ کا حصہ بن جاتا۔ایک تو فاٹا کے ساتھ کیاگیا وعدہ ایفا نہیں ہوا،اس پر مستزاد یہ کہ فاٹا کی آٹھ نشستیں تھیں، انہیں بھی ختم کردیا گیا۔ قومی اسمبلی میں فاٹا کو 12 نشستیں الاٹ کی گئی تھیں جو اب صرف 6 رہ گئی ہیں۔ وفاق میں بھی 4 فیصد ملازمتوں کا حصہ دیا گیا تھا وہ بھی اب ختم کردیا گیا۔ صوبائی اسمبلی میں KPK کی 124 نشستیں ہیں جبکہ سابقہ فاٹا کی صرف 17 نشستیں ہیں۔

22 برس قبل فاٹا کی آبادی 10ملین تھی اب انکشاف ہوا ہے کہ فاٹا کی آبادی صرف 3.5 ملین رہ گئی ہے۔ یعنی فاٹا میں اتنی آبادی کم کیوں ہوگئی اس کی ایک لاکھ آبادی جنگ کا نوالہ بن گئی۔ مائنز اور اَن پھٹے بموں سے ہزار ہا بچے اور بڑے موت نگل گئی۔ اور ان گنت لوگ اس جنگ زدہ علاقے سے ہجرت کرگئے۔

یہاں پل بھر کیلئے فاٹا کا ذکر کرتے چلیں کہ وہ کب، کیسے ، کہاں اور کیوںوجودمیںآیا؟ 1898ء میں افغانستان کافرمانرواامیر عبدالرحمان تھا۔ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ بھی اسی کے دور میں ہوا ۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے مابین واقع ہے ۔ دراصل ڈیورنڈ لائن افغانستان کے چاروں جانب موجود ہے،اس کا مقصد یہ تھا کہ افغانستان کا کوئی ہمسایہ ملک سرحدی تنازعے کی آڑ میں باقی افغانستان پرنہ چڑھ دوڑے۔ انگریز کی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ افغانستان کو روس کو روکنے کیلئے ایک بفر زون کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ 1893ء میں انگریزوں نے امیر عبدالرحمان سے یہ معاہدہ کیا کہ ہندوستان اور افغانستان کے درمیان ایک بفر زون بنانا چاہیے، قبائلیوں کی یوں نیم آزاد قسم کی سات ایجنسیاں وجود میں آگئیں۔ امیر عبدالرحمان چونکہ قبائل کی باغیانہ سرشت پر وارد تھا اس نے انگریزوں کے ساتھ معاہدے میں یہ شق ڈال دی کہ ان ایجنسیوں کی حیثیت بدلنے سے پہلے ان سے رائے اور اجازت لینا ضروری ہے۔ امیرعبدالرحمان جانتا تھا کہ انگریز نے اس بفر زون کو اگر اپنی مکمل عملداری میں لینے کی کوشش کی تو قبائلی بندوق کی نالی سے اپنی منفی رائے کا اظہار کریں گے۔ یعنی قبائلی عوام کو کوئی بات منوانے کیلئے ان کی رائے لینا ہوگی۔ قبائل کا بفر زون یعنی فاٹا انگریز کا وجود برداشت نہیں کرے گا۔ انگریز عمر بھر قبائل سے لڑتےرہےمگر انہیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے قبائلیوں سے خطاب میں یہی کہا تھا کہ اگر آپ کی ہیئت میں تبدیلی آئے گی تو آپ کی رائے اس میں شامل ہوگی۔ بصورت دیگر تبدیلی نہیں آئے گی۔ قائد اعظم نے بھی اس مسئلے کا حل قبائلیوں کی رائے سے مشروط کیا تھا۔ یہ رائے ریفرنڈم سے لی جائے گی یا کسی بڑے جرگے کے انعقاد سے ،اس کا فیصلہ کرنا وفاق کا کام تھا۔ لیکن ہم نے ایک تیسرا راستہ اپنا یا کہ چند ’’پسندیدہ‘‘ لوگوں کا جمگھٹالگا لیا اور ان سے تالیاں بجوا کر خوش ہولئے کہ انضمام ہوگیا۔ہمارے وعدوں سے خون رِس رہا رہا ہے۔ 18ویں آئینی ترمیم تو صوبوں کو خود مختاری کا حق دیتی ہے ، صوبوں سے اس مسئلے پر سنجیدہ گفتگو کی ضرورت ہے۔ فاٹا والے اب تک آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، انہوں نے کوئی منفی بیان نہیں دیا لیکن تابہ کے؟ان سے کئے گئے وعدے فی الفور پورے کریں انہیں جن شقوں پر اعتراض ہے انہیں بدل دیجئے یا انہیں قائل کرلیجیے۔تحریک طالبان پاکستان ہماری سب سے بڑی دشمن ہے آج سے 5 برس پہلے تک ان کی تعداد سات ہزار سے کم تھی اب کا عدد 8 تا 10 ہزار تک بڑھ چکا ہے۔ اس میں طالبان افغانستان کے سپاہی بھی شامل ہیں، سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں کا ایک خاصا عدد بھی شریک کار ہے۔ تاحد کہ چین کے سرحدی علاقوں کے مسلمان بھی تحریک طالبان کا حصہ ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان آج کے حالات میں ہماری سب سے زیادہ خطرناک دشمن ہے اس نے گھات لگا کر پاکستان کی فوج کے سپاہیوں اور افسروں کو جس طرح شہید کیا وہ اس وقت لمحۂ فکریہ ہے۔ اس وحشیانہ غارت گری کا بہترین حل یہ ہے کہ ہم سابقہ فاٹا کو موجودہ حالات سے نکالیں۔ مقامی قبائل کی ہر ایجنسی میں مسلح تنظیمیں بنائی جائیںجو اپنے اپنے علاقے کا گشت کریں اور اس طرح ہمارے لوگوں کو آزادی سے گھات لگا کر شہید کرنا ناممکن ہو جائے۔