بڑی پکڑ میں

April 17, 2024

آپ اگر اس دنیا کے بارے میں غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ ایجاد کچھ نہیں کر رہے۔ جو کچھ موجود ہے، اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سورج کے اندر ایٹمی ری ایکشنز آپ پیدا نہیں کر رہے۔ زمین کی مٹی کے نیچے سلیکان آپ نے نہیں رکھا، جس سے سولر پینل بنتے ہیں۔ سورج کی شعاع کسی نے پیدا کر کے آپ پر ڈالی اور اسی نے آپ کو سلیکان بھی دیا تو آپ نے اس سے بجلی پیدا کر لی۔ لیتھیم آپ نے پیدا نہیں کی۔ آپ نے مٹی کھودی، نیچے لیتھیم مل گئی۔ لیتھیم کی آپ نے بیٹری بنا لی۔ یعنی کسی نے سورج کو جلایا، کسی نے آپ کو لیتھیم اور سلیکان دی تو آپ نے بجلی پیدا کر لی۔ خدا پرستوں اور ملحدوں میں اختلاف یہ ہے کہ ملحد کہتے ہیں، سب اتفاق سے اپنے آپ بن گیا۔ خدا پرست کہتے ہیں کہ خدا نے سارے اسباب ہمارے لیے پیدا کیے اور انہیں زمین میں رکھا۔ اگر آپ غیر جانبدارانہ طور پر دیکھیں تو اتنے اتفاق اپنے آپ اکھٹے رونما نہیں ہو سکتے، جتنے انسان اور اس کائنات میں کارفرما ہیں۔

اسٹیفن ہاکنگ اپنی ایک ڈاکومینٹری میں عجیب حیرت کے عالم میں کہتا ہے : کائنات اگر زندگی پیدا کر سکتی ہے تو کچھ بھی کر سکتی ہے۔ یعنی سائنسدان جب اس دنیا کو دیکھتے ہیں تو انہیں باقی چیزوں کی سمجھ پھر بھی آجاتی ہے لیکن یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ عناصر آپس میں جڑ کر زندہ کیسے ہو گئے۔ ان کی اکثریت خدا کو نہیں مانتی کیونکہ تاریخی طور پر چرچ نے سائنس پر بے حد ظلم کیے۔ کچھ سائنسز اس قدر دلچسپ ہیں کہ انسان ان میں کھو جاتا ہے۔ مکینیکل انجینئرنگ میں توانائی کی ایک قسم کو دوسری میں تبدیل کر کے استعمال میں لایا جاتا ہے۔

گریٹ ایپس کا دماغ باقیوں سے بہتر ہوتا ہے۔ انسان گریٹ ایپس میں عظیم ترین تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد جلد ہی وہ سمجھ گیا کہ جانوروں پہ کاٹھی ڈالی جا سکتی ہے؛ کیونکہ وہ نا سمجھ ہیں۔ پچاس ہزار سال تک انسان کرہ ء ارض پہ موجود مختلف فائدے مند چیزوں کا کھوج لگاتا رہا۔ وہ دھاتوں کودشمن سے لڑنے‘ وزن اٹھانے اور زیادہ قوت والے کاموں میں استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس نے آگ میں موجود حرارت کی طاقت کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اس نے زمین کی کھدائی جاری رکھی۔ اسے معلوم ہوا کہ اگر پچا س سے سو فٹ کی گہرائی پر پانی ہے‘ تو دو ہزار فٹ کی گہرائی پر تیل، جسے جلا کر توانائی پیدا کی جا سکتی ہے۔ دنیا کا نقشہ بدل کے رہ گیا۔ انسان نے پہیہ ایجاد کیا۔ انجن ایجاد کیا۔ تیل کو اس انجن میں جلا کر توانائی پیدا کی۔ انجن کے نیچے پہیہ لگایا، پہیے پر ربڑ کی ٹیوب میں ہوا بھر کر رگڑ (Friction)کم کی۔ یوں اس نے بہت بڑے فاصلے تیز رفتاری سے طے کرنا شروع کیے۔ اس نے لہروں کے ذریعے آواز اور وڈیو منتقل کرنا شروع کی۔ ٹرین بنائی گئی‘ جس میں کوئلہ جلا کر بھاپ کی توانائی سے انجن دوڑایا جاتا۔ لوہے پہ لوہا دوڑتا، رگڑ کم سے کم تر۔

انسان کو یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ توانائی کی مدد سے فاصلہ طے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے روشنی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس سے اپنے گھر گرم کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے سردی سے بچا جا سکتا ہے۔ بجلی ایجاد کی جا چکی تھی۔ بجلی سے چلنے والی کتنی ہی ایجادات کی جا چکی تھیں۔ انسان کی زندگی سہل ہوتی چلی جا رہی تھی۔

انسان نے توانائی کی مختلف قسموں کو سمجھا۔ ایک قسم کو دوسری میں بدلنے کا گر سیکھا۔ پانی سے چرخیاں گھمائیں اور بجلی پیدا کی۔ ہوا سے بجلی پیدا کی۔ انسان کا لوہے، تیل‘ گیس اور کوئلے کو استعمال کرتے ہوئے بڑے بڑے کام کرنا انتہائی دلچسپ ہے۔ توانائی کو استعمال کرتے ہوئے وہ ہوا میں اڑنا سیکھ چکا ہے۔ عدسے جوڑ کر دوربینیں اتنی اعلیٰ بنائیں کہ کائنات میں ادھر ادھر جھانکتا پھرتا ہے۔ یہ سب اس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ کئی دفعہ تو یقین ہی نہیں آتا۔

لیکن کچھ لوگ خدا پرستوں پہ بے حد طنز کرتے ہیں ۔کسی حد تک ان کا اعتراض جائز بھی ہے ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا پرستوں نے ایجاد تو کچھ کیا نہیں۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مذہب میں اگر کچھ سچائی ہوتی تو مذہبی لوگ ایجادات بھی کر رہے ہوتے ۔ویسے بھی طالبان سے لے کر ایرانی ملا تک، آپ جہاں بھی دیکھیں، آپ کو خنجر لہراتی مخلوق ہی نظر آئے گی۔ اعتراض ویسے ملحدوں پہ بھی بنتا ہے کہ کاسہ ء سر میں رکھا ہوا دماغ کیا آپ نے خود بنایا یا آپ کو بنا بنایا ملا۔ عقل تو آپ کسی کی دی ہوئی استعمال کر رہے ہیں اور اوپر سے اسی پر طنز بھی ۔Toolتو اسی نے دیا۔ آپ نے اسے دنیا میں ترقی کے لیے استعمال کر لیا۔ خدا پرستوں کی اکثریت البتہ صرف عبادات پہ لگی رہی۔ نجات کس کی ہو گی؟

بہرحال سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ لہریں‘ یہ تیل‘ یہ گیس‘ یہ ہوا‘ یہ پانی، یہ سلیکان اور یہ لیتھیم پیدا کرنے اور انہیں زمین میں رکھنے والی کوئی ہستی تھی یا نہیں۔ یا ہمیں اسٹیفین ہاکنگ کی طرح یہ کہہ کر گزرجا نا چاہئے کہ کائنات اگر زندگی پیدا کر سکتی ہے تو کچھ بھی کر سکتی ہے۔ حالانکہ بلیک ہول سے لے کر ستاروں تک، کائنات کہلاتی ایک ایک چیز خود بے جان ہے اور فنا ہو جانے والی۔ شاید یہی سب کچھ تھا، جس کا مطالعہ کرتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام خد اتک پہنچے تھے۔

بہرحال حاصل کلام یہ کہ خدا اگر ہے تو انسان بڑی پکڑ میں ہے۔