اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت کا معاملہ، ایلون مسک کے بھارت کی حمایت کرنے پر امریکا کا ردِ عمل

April 18, 2024

ـــ فائل فوٹو

معروف امریکی کمپنی ٹیسلا کے بانی ایلون مسک کے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) میں مستقل رکنیت حاصل کرنے کے معاملے میں بھارت کی حمایت کرنے پر امریکا کا ردِعمل سامنے آگیا۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم ادارے میں اصلاحات کے بارے میں پہلے ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے ریمارکس دے چکے ہیں اور سیکریٹری نے بھی ہماری رائے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ ہم سلامتی کونسل سمیت اقوام متحدہ کے تمام اداروں میں اصلاحات کی حمایت کرتے ہیں تاکہ وہ 21 ویں صدی کی دنیا کی بھرپور انداز میں نمائندگی کر سکے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ ابھی اقوامِ متحدہ میں کس طرح کی اصلاحات کی جانی چاہیئں اس بارے میں میرے پاس تفصیلات نہیں ہیں مگر یہ بات ہم یقینی طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ ادارے میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ ایلون مسک نے رواں سال کے آغاز میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) میں مستقل رکنیت حاصل کرنے کے معاملے میں بھارت کی حمایت کی تھی۔

اُنہوں نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ’اقوام متحدہ کے اداروں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ طاقت رکھنے والے لوگ ایسا کرنا نہیں چاہتے‘۔

اُنہوں نے مزید لکھا تھا کہ افریقہ کی بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اجتماعی طور پر ایک مستقل نشست ہونی چاہیے۔

واضح رہے کہ بھارت کا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) میں مستقل رکنیت کا مطالبہ پاکستان کے ساتھ طویل عرصے سے ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) عالمی امن اور سلامتی میں ایک اہم کردار کی حامل ہے اور بھارت کی اس ادارے میں مستقل نشست کا مطالبہ عالمی اثر و رسوخ میں اضافہ حاصل کرنے کی بھارتی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔

بھارت کو ایلون مسک کی حمایت حاصل ہونا پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول ہے کیونکہ اس معاملے میں پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ بھارت کی ایسے اتنی اہم فیصلہ ساز ادارے میں کوئی جگہ نہیں بنتی۔

مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو خدشہ ہے کہ بھارت کا ویٹو پاور تنازع کشمیر سمیت اہم مسائل پر بات چیت میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور ممکنہ طور پر پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کر سکتا ہے۔