لوگ خاک ہو جائیں؟

April 19, 2024

فارم 47 کے ذریعے اقتدار میں آنے والوں کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ انہیں عوامی مینڈیٹ کچل کر اقتدار میں لایا گیا، آپ کے علم میں ہے کہ 8 فروری کو لوگوں نے پورے پاکستان میں مختلف نشانات کی حامل ایک سیاسی پارٹی کو دو تہائی سے بھی کہیں زیادہ مینڈیٹ دیا مگر پھر 9 فروری کو عوامی فیصلے کو روند دیا گیا اور اقتدار پر وہ لوگ مسلط کر دیئے گئے جنہیں پاکستانی عوام نے مسترد کیا تھا۔ عوامی مینڈیٹ سے محروم حکومت کا خمیازہ، مسلط کرنیولے تو نہیں بھگتیں گے، ہاں مگر اسکی ساری سزا پاکستان کے عام لوگوں کو بھگتنا پڑے گی۔

اب اس کے کچھ کچھ اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، مثلاً ن لیگ پنجاب کے صوبائی صدر رانا ثناء اللہ کا بڑا دلچسپ بیان سامنے آیا ہے، انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا ’’اب ہماری کوئی ذمہ داری نہیں، ہم وعدے پورے نہیں کر سکتے کیونکہ عوام نے ہمیں سادہ اکثریت نہیں دی‘‘۔ کسی بھی اقتدار والی پارٹی کے لئے یہ عجیب و غریب بہانہ ہے، لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آپ پھر حکومت میں بیٹھے کیا کر رہے ہیں؟ مسلم لیگ ن کے ایک اور رہنما میاں جاوید لطیف آئے روز اپنے ہی فوجی مارتے ہیں، دو روز پہلے تو انہوں نے کمال ہی کر دیا، وہ فرما رہے تھے کہ’’مسلم لیگ ن نے ضلع شیخوپورہ سے پانچ سیٹیں کروڑوں روپے کے عوض خریدی ہیں‘‘۔ حالیہ دنوں میں پنجاب سے پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست واپس مل گئی ہے، 21 اپریل کو کچھ حلقوں میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں، پی ٹی آئی کے امیدوار سنی اتحاد کونسل کے انتخابی نشان گھوڑے پر الیکشن لڑ رہے ہیں، جونہی گھوڑے کے نشان پر جیتنے والے ایوانوں کا حصہ بنیں گے تو الیکشن کمیشن کو خواتین کی مخصوص سیٹیں بھی سنی اتحاد کونسل کو واپس کرنا پڑیں گی کیونکہ الیکشن کمیشن کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ سنی اتحاد کونسل کا کوئی رکن اسکے انتخابی نشان پر الیکشن جیت کر نہیں آیا سو 21اپریل کی شام یہ بڑا اعتراض خاک میں مل جائیگا، لہٰذا قبضہ مافیا کو ایک اور دھچکا لگے گا۔

26 اپریل کے بعد پاکستانی عدالتوں سے ایسے فیصلے آئیں گے جو حکمران اتحاد کو حیران کر دیں گے، صرف حیران نہیں، پریشان بھی کر دیں گے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک بڑا انکشاف کیا ہے، ان کا

کہنا ہے ’’صرف لیسکو میں 83 کروڑ یونٹس زیادہ چارج کیے گئے، اس میں 300 یونٹس استعمال کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا گیا، یہ سراسر زیادتی ہے‘‘۔ محسن نقوی نے ایف آئی اے لاہور کو شاباش دی کہ انہوں نے ایک ایسے ایکسیئن کو گرفتار کیا ہے جو خاص طور پر غریبوں کو اوور بلنگ کرتا تھا، وزیر داخلہ نے اس سلسلے میں وزیراعظم سے بات کر کے صاف بتایا ہے کہ’’میں اوور بلنگ کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ بجلی کے عام صارفین نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک درخواست دی ہے، اس میں یہ کہا گیا ہے کہ ملک بھر کی تمام الیکٹرک سپلائیز کمپنیز سے درج ذیل 13نکاتی ٹیکسز کی وضاحت طلب کی جائے 1۔ جب بجلی کی قیمت ادا کر دی گئی تو اس پر کون سا ٹیکس ؟ 2۔ کون سے فیول پر کون سی ایڈجسٹمنٹ کا ٹیکس؟ 3۔ کس پرائس پہ الیکٹریسٹی پر کون سی ڈیوٹی ؟ 4۔ کون سے فیول پر پرائس پر ایڈجسٹمنٹ؟ 5۔ بجلی کے یونٹس کی قیمت جو ہم ادا کر چکے، اس پر کون سی ڈیوٹی اور کیوں ؟ 6۔ ٹی وی کی کون سی فیس جبکہ ہم الگ سے پیسے دے کر کیبل استعمال کرتے ہیں۔ 7۔ جب بل ماہانہ ادا کیا جاتا ہے تو بل کی کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ کیا ہے؟ 8۔ کون سی فنانس کی چارجنگ؟ 9۔ جب ہم استعمال شدہ یونٹس کا بل ادا کر رہے ہیں تو کس چیز کے ایکسٹرا چارجز؟ 10۔ کس چیز کے اور کون سے Further یعنی مزید چارجز؟ 11۔ ود ہولڈنگ چارجز کس چیز کے؟ 12۔ میٹر تو ہم نے خود خریدا تھا، اسکا کرایہ کیوں؟ 13۔ بجلی کا کون سا انکم ٹیکس؟

یہ تو تھا بجلی کا قصہ، آج کل نجکاری کی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں، سنا ہے درجنوں کے حساب سے اداروں کی نجکاری کر دی جائے گی، نجکاری سے تین اہم سوال جنم لیتے ہیں۔ 1۔ نجکاری اعتراف جرم ہے کہ ہم بحیثیت قوم ان اداروں کو چلانے میں ناکام ثابت ہوئے یعنی ہم اتنے نالائق اور نکھٹو ہیں کہ ہم یہ ادارے نہیں چلا سکے۔؟ 2۔ نجکاری میں سودے بازیاں ہوں گی، گھپلے ہوں گے اور پاکستان کو چونا لگایا جائے گا؟۔ 3۔ نجکاری کا عمل جواریوں جیسا ہے، جس طرح جواری قرض اتارنے کے لئے کبھی گھر کا فریج بیچتے ہیں، کبھی ٹی وی اور فرنیچر، مزید ضرورت پڑنے پر گاڑی اور موٹر سائیکل بھی بیچ دیتے ہیں اور جب قرض دار چاروں طرف سے گھیر لیں تو گھر کو گروی رکھ دیتے ہیں، بس یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ان مشکل ترین حالات میں لوگ کیا کریں؟ ان کے مسائل حل کون کرے؟ لوگوں کا سوچنے والا تو پابند سلاسل ہے۔ بقول غالبؔ

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک