سینئر صحافی محمد صوفی سے کرکٹ کے مسائل پر مشورہ کرتا تھا، یونس خان

May 23, 2024

کراچی(اسٹاف رپورٹر)پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور عالمی شہرت یافتہ بیٹسمین یونس خان کا کہنا ہے کہ سنیئر صحافی سید محمد صوفی اور جیو نے پہلی بار مجھے ٹیلی وژن پر بات کرنے کا موقع دیا جس کے بعد میں نے ریٹائرمنٹ کے بعدپاکستان کے مختلف چینلز کے لئے ملازمت کے نئے مواقع تلاش کئے اور مجھے روزی کمانے کا نیا موقع ملا۔جیو نیوز نے مجھے پہلی بار پروگرام کرنے اور اسکرین پر آنے کا موقع دیا۔میرے کرکٹ کے کیئریئر میں صوفی صاحب کے مشوروں اور رہنمائی نے اہم کردار ادا کیا۔میں نے جب کلب میں پہلی سنچری بنائی تو سید محمد صوفی ہی وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے میری پہلی بار اخبار میں تصویر شائع کی۔یہ عظیم شخص کئی کرکٹرز کے کیئریئر بنانے میں نمایاں کردار ادا کر چکے ہیں وہ کئی کرکٹرز کی آواز بنے اور ان کے لئے کمال مضامین تحریر کئے۔وہ منگل کی شام کراچی پریس کلب میں جیو کے اسپورٹس ایڈیٹراور تین دہائیوں سے جنگ اور جیو گروپ سے وابستہ صحافی سید محمد صوفی کے اعزاز میں ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کررہے تھے تقریب میں صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔اس موقع پر ہاکی کے عظیم کھلاڑی سمیع اللہ،سابق ٹیسٹ کرکٹرز اقبال قاسم ،ہارون رشید،توصیف احمد،سکندر بخت،شعیب محمدسنیئر صحافیوں محمود شام،مظہر عباس،عبدالماجد بھٹی،افسر عمران،کراچی پر یس کلب کے صدر سعید سربازی اور سیکریٹری شعیب احمد نے بھی خطاب کیا۔یونس خان نے کہا کہ میں اپنے کرکٹ کے مسائل بھی صوفی صاحب سے ڈسکس کرتا تھااور وہ مجھے اس کا حل بتاتے تھے۔یونس خان سمیت تمام کرکٹرز کا کہنا تھا کہ سید محمد صوفی نے کھیلوں کی اردو صحافت کو نئی جدت دی اور کھلاڑیوں کو اپنی مثبت تحریروں اور جاندار سرخیوں کے ذریعےنیا روپ دیا۔وہ اردو صحافت میں اپنے منفرد انداز سے کھلاڑیوں میں مقبول ہوئے۔محمود شام نے کہا کہ سید محمد صوفی نے سرخیوں نے اردو صحافت میں پڑھنے والوں کو نیااندازدیا ان کی جنگ کے ایک سرخی پاکستان نے بھارت کو بنگلہ دیش میں دھول چٹا دی نے بے پنہاں شہرت حاصل کی۔مظہر عباس نے کہا کہ صوفی صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی سیکھنے کا موقع ملتا میرے پاس ان کا وہ اخبار بھی موجود ہے جو وہ مارشل لاء کے دور میں جیل سے نکالا کرتے تھے۔زندان کے نام سے پانچ صفحے کے اخبار میں صوفی صاحب جیل کی خبریں شائع کیا کرتے تھے انہوں نے سیاسی صحافت کے علاوہ کھیلوں کی صحافت میں آئے اور آج ان کے لاتعداد شاگرد انہیں خراج تحسین پیش کرنے یہاں موجود ہیں۔