مولانا ڈاکٹر مفتی نظام الدین شامزی شہید رحمتہ اللہ علیہ

May 24, 2024

مولانا محمد قاسم رفیع

عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے پہلی جنگ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں مسیلمہ کذاب کے خلاف ہوئی، یہ جنگ ِیمامہ کہلاتی ہے۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ جانوں کی قربانیاں پیش کی گئیں، ان شہدائے ختم نبوت کی تعداد شارحِ بخاری علامہ عینیؒ نے گیارہ سو سے چودہ سو تک بیان فرمائی ہے۔ (بحوالہ : عمدۃ القاری، ج:۱۸، ص:۲۸۱)

شہید ِاسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒتحریر فرماتے ہیں: ’’ان میں سات سو سے زیادہ وہ اصحاب تھے جو ’’ قرا ء ‘‘ کہلاتے تھے، یعنی قرآن کریم کے حافظ، قاری اور متخصص عالم۔‘‘ (تحفۂ قادیانیت، ج:۱، ص:۱۲۵، ط:۲۰۱۰ ء) یعنی ختم ِنبوت کے تحفظ کے لیے اہلِ علم نے سب سے زیادہ جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔

علم و اہل ِعلم کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں علمائےکرام کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے: ترجمہ: ’’اللہ سے ڈرتے وہی ہیں اس کے بندوں میں جن کو سمجھ ہے۔‘‘ (سورۂ فاطر:۲۸) اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے بڑے علما اس کے انبیا ءو رسل ہوا کرتے ہیں، ان انبیا ءو رسل کی پیروی کا حکم دیتے ہوئے ارشادِ الٰہی ہے: ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ تھے جن کو ہدایت کی اللہ نے سو تُو چل ان کے طریقے پر۔‘‘ (سورۃالانعام:۹۰)

انبیا ئےکرام علیہم السلام کا سلسلہ سیّدنا آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر آنحضرت ﷺ پر اختتام پذیر ہوا، آپ ﷺ نے اپنے بعد نبوت کے بند ہونے اور اپنے اصحاب خصوصاً خلفائے راشدین ؓ کی پیروی اختیار کرنے کا حکم دیا۔ حدیث ِنبوی ہے: ترجمہ: ’’بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیائےکرامؑ کیا کرتے تھے، جب کسی نبی کی وفات ہوتی تو اس کی جگہ دوسرا نبی آتا ، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔‘‘(بخاری : ۳۴۵۵)

اصحابِ رسول میں خلفائے راشدین، عشرئہ مبشرہ، حسنین کریمین، حضرت عبداللہ بن مسعود، ابن عباس، ابن عمر، ابی بن کعب، زید بن ثابت، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار بن یاسر، ثابت بن قیس انصاری، سالم مولیٰ ابی حذیفہ وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قرآن و سنت کے علوم میں رسوخ حاصل تھا۔

یہ صحابہ کرامؓ مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں نہ صرف پیش پیش تھے، بلکہ ان میں بعض مقامِ شہادت پر بھی فائز ہوئے، جن میں خطیب الانصار حضرت ثابت بن قیس شماس، قاری قرآن سالم مولیٰ ابی حذیفہ، ان کے مولیٰ حضرت ابو حذیفہ، حضرت عمر کے برادر اکبر حضرت زید بن خطاب اور حضرت ابوبکر کے صاحبزادے عبداللہ شامل ہیں، رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ آفتابِ نبوت کی ضیا پاشیوں سے براہِ راست علم کا نور پانے والے ان اہلِ علم میں سے ایک ایک کا وجود پوری امت پر بھاری ہے، لیکن انہوں نے عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اپنی قیمتی جانوں کی پروا نہ کی اور رہتی دنیا تک یہ سنت جاری کرگئے کہ امت کے علما کا علم و فضل اور ضبط و کمال آقائے نامدار ﷺ کی ناموس رسالت اور ختم نبوت سے زیادہ وزن نہیں رکھتا۔

چنانچہ دورِ صحابہؓ سے یہ تواتر و تسلسل قائم ہے کہ ہرزمانے کے اہل ِعلم نے اپنی تمام توانائیاں و صلاحیتیں آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت پر مضبوط و پختہ دلائل و براہین قائم کرنے پر تج دیں ، حتّٰی کہ جب کسی مرحلے پر ان سے جانوں کی قربانی مانگی گئی تو انہوں نے اس سے بھی دریغ نہیں کیا ، اور کیوں نہ ہو ! جب کہ آپ ﷺ نے اس امت کے علما کو انبیا کا وارث قرار دیا ہے، اس لیے ختم نبوت کا تحفظ بھی اہل علم کی سب سے بڑی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ ان اہل علم و فضل میں ایک درخشندہ ستارہ حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر نظام الدین شامزی شہیدؒ ہیں ۔

حضرت مفتی شامزی شہیدؒ کی اصل پہچان تو مطالعہ و تحقیق، درس و تدریس اور فقہ و فتاویٰ تھی، لیکن جب آپ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن اور خصوصاً شہید ِاسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی نوّراللہ مرقدہ سے وابستہ ہوئے تو تحفظ ختم ِنبوت اور دفاع ناموس ِرسالت آپ کی زندگی کا اہم مقصد بن گیا۔ حضرت لدھیانویؒ کی شہادت کے بعد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ خواجہ خواجگان حضرت مولانا خان محمدؒ، مفتی نظام الدین شامزی شہیدؒ کو اپنی لسان اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا ترجمان قرار دیا کرتے تھے۔

عالمی مجلس تحفظ ختم ِنبوت کے ساتھ آپ کا تعلق شاہین ختم نبوت حضرت مولانا اللہ وسایادامت برکاتہم یوں بیان فرماتے ہیں:’’عالمی مجلس تحفظ ختم ِنبوت کے پلیٹ فارم سے آپ نے عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے گراں قدر اور مثالی خدمات سرانجام دیں۔ اس جماعت کی مرکزی مجلس ِشوریٰ کے آپ رکن رکین تھے۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ کی آنکھوں کا تارا تھے۔ پیر ِطریقت مولانا سیّد نفیس الحسینی ؒ کا آپ کو اعتماد حاصل تھا۔ جب سے عالمی مجلس تحفظ ختم ِنبوت کی شوریٰ کے رکن مقرر ہوئے، کسی ایک اجلاس میں شرکت سے ناغہ نہیں ہوا۔

آپ کی زندگی علومِ نبویﷺ کی ترویج و اشاعت اور عقیدۂ ختم ِ نبوت کے تحفظ میں گزری

اسلام آباد، چناب نگر، ایبٹ آباد، ملتان، ٹنڈو آدم، میر پور خاص کی ختم نبوت کانفرنسوں میں آپ کا بڑے اہتمام کے ساتھ بیان ہوتا ۔ یکم صفر ۱۴۲۵ھ کو ملتان میں مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں شرکت فرمائی۔ اسی روز بعد نمازِ عشاء ملتان کی ختم ِنبوت کانفرنس میں رات کے اجلاس میں حضرت امیر مرکزیہ کی آمد تک آپ نے حضرت کی نیابت میں کانفرنس کی صدارت فرمائی۔ اگلے روز جمعہ سے قبل آپ کا ایمان افروز، معلومات سے بھرپور، مجاہدانہ ، علمی بیان ہوا۔ مسجد کی محراب سے لے کر دفتر کے صحن کے آخری کونے تک ہزاروں بندگانِ خدا کے اجتماع عظیم میں آپ کا بیان سن کر ایسا محسوس ہوتا ، جیسے علم و فضل کا سمندر موجزن ہو۔

اسی اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ حضرت امیر مرکزیہ اور حضرت نائب امیر اپنے بڑھاپے کے باعث ملک کے طول و عرض میں ہونے والی ختم ِنبوت کانفرنسوں میں شرکت نہیں کرسکتے ، ان اکابر کی نمائندگی اور جانشینی کے لیے پورے اجلاس کی نظر آپ کی ذاتِ گرامی پر پڑی، اور آپ نے بڑی خندہ پیشانی سے ختم ِنبوت کانفرنسوں میں اپنے اکابر کی نمائندگی کا وعدہ کیا۔‘‘ (ماہ نامہ بیّنات ، مفتی شامزیؒ نمبر، ص:۴۰)

آپ کی خدماتِ ختم ِنبوت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے شہید ِختم ِنبوت مفتی محمد جمیل خان ؒ رقم طراز ہیں:’’مفتی نظام الدین شامزیؒ نے ۱۹۷۴ء میں جامعہ فاروقیہ سے تحریک ِختم ِنبوت میں بھرپور حصہ لیا۔ مفتی صاحب کی کوششوں سے بعض تائب ہوئے ، باقی کی سرگرمیوں پر قدغن لگی۔ جامعہ علوم ِاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن تشریف لانے کے بعد مفتی احمد الرحمٰن ؒکی یہ نسبت آپ کی طرف خصوصی طور پر منتقل ہوئی اور آپ عملی طور پر عالمی مجلس تحفظ ختم ِنبوت کے کاموں میں بھرپور شرکت کرنے لگے۔

مختلف کانفرنسوں میں خصوصی خطاب کے علاوہ باہر ملکوں میں بھی آپ نے خصوصی طور پر کام کیا، جس کی بناء پر امیر مرکزیہ شیخ المشائخ خواجہ خواجگان مولانا خان محمدؒ کے حکم پر مولانا عزیزالرحمٰن جالندھری نے آپ کو مجلس شوریٰ کارکن منتخب کیا، پہلے اجلاس سے لے کر آخری اجلاس تک آپ نہ صرف اس میں بھرپور شرکت فرماتے ، بلکہ بہت اچھی آراء پیش کرتے۔

موجودہ دور کے مطابق انٹرنیٹ اور میڈیا کے ذریعے قادیانیت کے توڑ اور تعاقب کے لیے جو لائحہ عمل تیار کیا گیا، اس کے لیے امیر مرکزیہ نے خصوصی طور پر مفتی نظام الدین شامزی ؒکو نگران مقرر کیا۔ آپ نے اسلام آباد میں ممتاز صحافیوں اور کالم نگاروں کو مدعو کیا جس میں امیر مرکزیہ نے خصوصی طور پر شرکت کی اور صحافیوں کو اس اہم کام کی طرف متوجہ کیا۔… آخری ختم ِنبوت کانفرنس جو اپریل میں ملتان میں ہوئی تھی، مفتی صاحب نے جمعہ سے قبل خصوصی خطاب فرمایا۔‘‘ (بیّنات، مفتی شامزیؒ نمبر، ص:۲۳۷)

حضرت شامزی شہیدؒ کو اللہ تعالیٰ نے جہاں علم کی دولت سے مالا مال فرمایا تھا، وہیں آپ اس دولت کی زکوٰۃ عوام الناس کے درمیان اپنے وعظ و بیان کے ذریعے تقسیم بھی فرمایا کرتے ۔ ویسے تو آپ جہاد و مجاہدین، سیاست، جمعیت علمائے اسلام اور اتحاد بین المسلمین جیسے عنوانات پر سیر حاصل گفتگو فرماتے تھے ، لیکن عالمی مجلس تحفظ ختم ِنبوت کے ساتھ وابستگی اور تعلق قائم ہونے کے بعد آپ نے اپنی تقاریر میں مسئلہ ختم ِنبوت کو اہمیت کے ساتھ اجاگر کیا۔

عالمی مجلس تحفظ ختم ِنبوت میرپور خاص کے مبلغ مولانا محمد علی صدیقیؒ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:’’آپ اپنے بیان میں مسئلہ ختم نبوت کو ضرور بیان کرتے، ایک مرتبہ کسی دوست نے مفتی صاحب سے پوچھ لیا کہ آپ اس موضوع پر ضرور بولتے ہیں، میں بھی قریب ہی موجود تھا، مفتی صاحب مسکراکر فرمانے لگے کہ : ’’ اس موضوع پر بولنا اپنے ایمان کی حفاظت کرنا ہے۔ ‘‘

حضرت مفتی صاحبؒ کو جہاں اور دینی کاموں سے از حد دلچسپی تھی، وہاں مجلس تحفظ ختم ِنبوت کے کام کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے اور اکابرین ِختم ِنبوت کا تذکرہ کرتے ہوئے خود بھی اور اہل ِمجلس کو بھی آبدیدہ کردیا کرتے تھے۔ راقم جب بھی حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں حاضری دیتا تو علاقہ تھر پارکر اور کنری کے حالات اور وہاں قادیانیوں کے خلاف جماعتی سرگرمیوں کی روداد کو بڑی دلچسپی سے سنتے تھے۔‘‘( ہفت روزہ ختم نبوت، ص:۲۰، ۱۸ تا ۲۴؍ جون ۲۰۰۴ء)

ایک اور جلسے کا حال یوں بیان کرتے ہیں:’’۴؍اپریل کو ٹنڈو آدم میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ہوا، جس میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی ناظم اعلیٰ مولانا عزیزالرحمٰن جالندھری اور مولانا اللہ وسایا مدظلہ ملتان سے تشریف لائے، کراچی سے حضرت مفتی صاحب، مولانا احمد میاں حمادی کی دعوت قبول کرکے مولانا مفتی محمد جمیل خان اور مولانا نذیر احمد تونسوی کی معیت میں ٹنڈو آدم تشریف لائے۔

عشاء کے بعد مفتی صاحبؒنے جلسہ سے خطاب کیا اور فرمانے لگے کہ دس، پندرہ منٹ بیان کروں گا ۔ لیکن جلسہ اور حاضرین کا ذوق دیکھ کر حضرت مفتی صاحبؒ کی طبیعت ایسی کھلی کہ آپ کی تقریر ایک گھنٹے سے زیادہ جاری رہی، گو حضرت مفتی صاحبؒ کی تقریر انتہائی عالمانہ تھی ، لیکن اتنی عام فہم تھی کہ پورا مجمع نہ صرف یہ کہ بغور سن رہا تھا ،بلکہ بخوبی سمجھ رہا تھا۔‘‘ ( ہفت روزہ ختم نبوت، ص:۲۱، ۱۸ تا ۲۴؍ جون ۲۰۰۴ء)

حضرت مفتی نظام الدین شامزی شہیدؒ نے اپنے علم کی دولت سے بھی ختم نبوت کی خدمت کی، چنانچہ آپؒ عقیدئہ ظہورِ حضرت امام مہدی پر ایک جاندار اور وقیع تحقیقی کتاب سپردِ قلم کر گئےہیں ۔ کتاب کا نام ’’عقیدئہ ظہورِ مہدیؑ، احادیث کی روشنی میں‘‘ ہے۔ اس کتاب میں سیّدنا حضرت امام مہدی کی قربِ قیامت میں آمد سے انکار کرنے والوں کے شبہات کا جائزہ لے کر تسلی بخش جوابات دیے گئے ہیں۔ بقول حضرت مولانا اللہ وسایا مدظلہ : ’’ اس عنوان پر یہ کتاب حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ ‘‘ (بیّنات، مفتی شامزیؒنمبر، ص:۴۱)

۳۰؍ مئی ۲۰۰۴ء کو جب آپ نے جامِ شہادت نوش کیا تو وہ ایسا وقت تھا جب ملک پر قابض حکمران نے ناموسِ رسالت کے قوانین پر نظر ِثانی کا اعلان کررکھا تھا۔ حضرت مفتی شامزی شہیدؒ ان حالات سے بہت بے چین تھے ، وہ اپنی تقاریر میں حکومت ِوقت کو للکارا کرتے اور اس اقدام سے باز رہنے کی تاکید فرماتے تھے۔ حضرت لدھیانوی شہیدؒ ہوں یا حضرت شامزی شہیدؒ، ہر دو حضرات نے ختم ِنبوت اور ناموس ِرسالت پر اپنی گراں قدر اور قیمتی جانیں قربان کرکے جنگ ِِیمامہ میں اہل ِعلم و فضل و اصحابِ تفقّہ و بصیرت صحابہ کرامؓ کی جاں نثاری کی داستان کو دہرادیا۔

’’ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را‘‘