علامہ قاضی حکیم محمد عادل صدیقی میرٹھیؒ

June 14, 2024

قاضی احمد نورانی صدیقی

صبرو استغناءاور قناعت بندگان خدا کا خاصہ ہے۔ وہ لوگ جو اللہ کو اپنا خالق ومالک مان کر اس کی رضا پر راضی ہوجاتے ہیں۔ رب کریم انہیں بلند مقامات سے نوازتا ہے۔ تسلیم و رضا کے ان راستوں سے سرخرو ہو کر گزر جانے والوں کی فہرست میں ایک نام قاضی حکیم حافظ شاہ محمد عادل صدیقی ؒکا بھی شامل ہے۔ حکیم صاحب 1929ء میں بر صغیرکے مردم خیز خطے میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ اور اس کے اطراف کے علاقوں کے قاضی القضاۃ اور عید گاہ کے شاہی خطیب آپ کے خاندان ہی سے ہوا کرتے تھے۔

ابتدائی تعلیم اور دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ طب کی اعلیٰ تعلیم کےلیے دہلی آگئے اور اس وقت کے مشہور طبّی تعلیمی ادارے دہلی طبیہ کالج سے طبابت کی سند لی۔ دہلی قیام کے دوران ہی محبوب الہٰی حضرت نظام الدین اولیاءؒ اور دیگر اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری کا سلسلہ شروع ہوا۔ یوں دینی و دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ اپنے اجداد کی طرح روحانی علوم سے بھی وابستہ ہوگئے۔

قیام پاکستان کے بعد کراچی تشریف لائے اور میکلوڈ روڈ(آئی آئی چندریگر روڈ) پر مطب کا آغاز کیا۔ مطب کیا تھا، طالبانِ حق کے لئے ظاہری امراض کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ روحانی مسائل کے حل کا بھی ایک مرکز تھا۔ میکلوڈ روڈ کے مطب سے فراغت کے بعد شام کے اوقات میں اکثر قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقیؒ، مفتی اعظم کشمیر مفتی غلام قادر کشمیریؒ، حافظ محمد اظہر نعیمیؒ جیسے اکابرین کی نشست اسی مقام پر ہوتی، جہاں بہت سے علمی و فکری اور روحانی موضو عات زیرِ بحث آتے۔

جب عوام کا رش بڑھنے لگا تو قبلہ حکیم صاحبؒ نے اس علاقے کو خیر باد کہہ کر اس وقت مرکز شہر سے دور ملیر سعودآباد میں خلوث تلاش کی اور مزید چلّہ کشی اور وظائف میں مشغول ہوگئے۔ اسی دوران آپ نے سلوک کی منازل طے کرنا شروع کردیں۔

ملیر سعودآباد کے قیام کے عرصے کی کئی کرامتیں مشہور ہیں، جن سے آپ کے مرتبے کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے سعودآباد کے آرسی ڈی گراؤنڈ میں خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری ؒ کے سہ روزہ سالانہ عرس کی بنیاد رکھی جو اہل محبت کا ایک یاد گار اجتماع ہوا کرتا تھا۔ قبلہ حکیم صاحب علامہ عبدالحامدبدایونی ؒ اور دیگر اکابرین کے ساتھ جمعیت علمائے پاکستان سے وابستہ ہو کر وطن عزیز میں نظام مصطفیٰ کے نفاذ کی کوششوں میں مصروف ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد شہر کے دوسرے کنارے پر آباد ہونے والی بستی نیو کراچی میں مقیم ہوگئے۔

قبلہ حکیم صاحب کئی مساجدومدارس کے سرپرست رہے۔ نماز جمعہ و عیدین کی امامت و خطابت کرتے رہے ساتھ ساتھ روحانی محافل کا سلسلہ جاری رکھا۔ مشکل حالات کے باوجود استقامت سے بچپن کے دوست اور دیرینہ رفیق علامہ شاہ احمد نورانی صدیقیؒ کا ساتھ دیتے رہے۔ تحریک نظام مصطفیٰ اور جمعیت علمائے پاکستان کے مختلف عہدوں پر ذمہ داریاں بڑی خوش اسلوبی سے نبھائیں۔

آپ کے حلقہ احباب میں مفتی ظفر علی نعمانیؒ (بانی دارلعلوم امجدیہ کراچی) مفتی ڈاکٹر سید شجاعت علی قادری (بانی دارلعلوم نعیمیہ کراچی)، علامہ جمیل احمد نعیمی، مفتی محمد اطہر نعیمی، پروفیسر شاہ فرید الحقؒ، صوفی محمد ایاز خان نیازیؒ، مولانا محمد اقبال نعیمیؒ،ڈاکٹر جلال الدین نوری، حاجی محمد حنیف طیب، ظہور الحسن بھوپالی اور الحاج شمیم الدین جیسے اکابرین، جید مفتیان کرام اور صوفیاء شامل تھے۔آپ کی خوش لباسی اور اصول پسندی کی اکابر تعریف کرتے تھے۔ متعدد دینی و روحانی محافل ایسی ہیں جن کا حکیم صاحب نے آغاز کیا اور ان کے صاحبزادگان نے ان کو جاری رکھا ہوا ہے۔

29مئی1993ء مطابق 6 ذی الحج 1413ھ کو آپ اس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔ آپ کےانتقال پر قاری حبیب اللہ حبیب ؒ نے قطعہ کہا کہ !"اہل اللہ کی صف میں ہوا ان کا شمار جو نبی ﷺ کے عشق میں وارفتہ و کامل ہوئے۔ از طفیل مصطفیٰ اعزازو عزت سے حبیب قاضی عادل جنت الفردوس میں داخل ہوئے"۔