حدودِ حرم کی نشاندہی (گزشتہ سے پیوستہ)

June 14, 2024

تفہیم المسائل

میقات کے اندر اور حرم سے باہر کے علاقے کو ’’حِلّ‘‘ کہا جاتا ہے، مسجدِ عائشہ مقامِ ’’حِل ّ‘ ‘میں ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام کی نشان دہی پر بیت اللہ کے چاروں اطراف حدودِ حرم کی تحدید فرمائی تھی، پھر فتحِ مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ نے تمیم بن اسد کو حدودِ حرم کی علامات کی تجدید کا حکم فرمایا ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اپنے ادوار میں مقرر کردہ حدود کی علامات کی تجدید فرمائی، یہ حد بندی توقیفی ہے، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:’’حرم (مکہ) کی حدمدینہ منورہ کی جانب سے مقام ِتنعیم (مسجدِ عائشہ) تقریباً تین میل (بعض کُتبِ مالکیہ میں یہ حد چار اور پانچ میل تک بتائی گئی ہے)، تنعیم کا آغاز مکہ کی سمت سے’’ بیوت السقیا ‘‘سے ہوتا ہے، جسے نِفار کے گھر کہتے ہیں اور اب مسجد عائشہ کے نام سے جانا جاتا ہے، کعبہ مشرفہ اور مقامِ تنعیم کے درمیان حرم ہے اور تنعیم حِلّ ہے۔یمن کی جانب سے اضاۃُلبن کے مقام تک تقریباً سات میل، جدہ کی سمت سے دس میل کے فاصلہ پر اعشاش کے سرے سے حدیبیہ کے آخر تک حرم ہے۔

جِعِرَّانہ کی سمت سے شُعَب عبداللہ بن خالد کی طرف نو میل۔ عراق کی سمت سے یہ کوہ المقطّع کے ایک موڑ پر سات میل کے فاصلے پر ہے اور مالکی کتب میں اس کا ذکر آٹھ میل ہے۔ طائف کی سمت سے، عرفات پر بطن نمرہ سے سات میل دور عرانہ کے کنارے پر،(جلد17،ص:185-86)‘‘۔خلاصہ یہ ہے: 1۔بیت اللہ سے تنعیم( مسجدِ عائشہ )تک حرم ہے ۔2۔یمن کی سَمت : بیت اللہ سے اضاۃ لبن تک تقریباًسات میل ہے ۔ 3۔جدہ کی سَمت : اعشاش کے سرے سے حدیبیہ تک تقریباً دس میل ۔4۔ جِعِرّانہ کی سَمت سے شُعب عبداللہ بن خالد تک9میل ۔5۔ عراق کی سَمت : المقطّع پہاڑ تک سات میل ۔6۔ طائف کی سَمت: قرن المنازل تک سات میل ہے۔

نوٹ: میل سے مراد میلِ شرعی ہے ، جو تقریباً دوہزار گز کا ہوتا ہے ۔ان تمام مقامات کا اندورنی علاقہ حرم کہلاتا ہے اور ان مقامات سے ہری گھاس، پودے یا درخت کاٹنا حرام ہے، اس اندرونی حصہ میں شکارکرنا یا پالتو جانوروں کے علاوہ جانور مارنا بھی حرام ہے، مگر اگر وہ جانور حملہ کریں ،تو اپنے دفاع میں مار سکتے ہیں۔

حدودِ حرم سے باہر حلق یا قصر کرانے پر دَم لازم ہوتا ہے، آپ نے چونکہ حرم میں ہی حلق کرایا ،تو آپ پر کوئی دَم لازم نہیں ہوگا ،تاخیر پر بھی کوئی دَم نہیں ہے ،کیونکہ عمرے کے حلق یا قصر کے لیے کسی خاص امام کی تحدید نہیں ہے، جیسا کہ حج میں حلق یا قصر فوری واجب ہوتا ہے، عمرہ میں فوری واجب نہیں ہوتا، لیکن بہتر ہے کہ فوری حلق یا قصر کرالے تاکہ احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوجائے۔( واللہ اعلم بالصواب )