’’قربانی‘‘ صرف اللہ کی رضا اور اُس کے قُرب کے لیے...!

June 14, 2024

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

ہم ان دنوں بہ حیثیت امت مسلمہ حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی کی یاد تازہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کی تمام ترجدوجہد اورکارِ نبوت توحید کی دعوت اور شرک سے برأت کے اعلان سے عبارت ہے ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جس ماحول میں شعور کی آنکھ کھولی، وہ پوری طرح شرک وکفر کی دبیز چادر میں لپٹا ہوا تھا۔

بت پرستی، ستارہ پرستی اور مظاہر پرستی کا ایک ایسا اثر انسانی ذہن و عقل پر طاری تھا جس کے زیر اثر اُن کی قوم حق و باطل کی تمیز ہی کھو بیٹھی تھی، عقائد کا شرک اور عقل و اذہان کی مشرکانہ سوچ اور اس کا عملی ظہور دونوں عروج پرتھے۔ فسق و فجور، فخر و مباہات اور نمودو نمائش کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں نور توحید کا کوئی ٹمٹماتا ہوا دیا بھی تاحدِ نگاہ نظر نہیں آتا تھا۔

شرک و الحاد اور فخر و مباہات کی آبائی تقلید کے اس ماحول میں حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کی طرف سے و دیعت کی ہوئی فطرتِ سلیم، حق کی بصیرت اور رشد و ہدایت کی روشنی میں ایک نعرہ توحید و تکبیر بلند کیا ، ’’بے شک، میں نے اپنے وجود ، رخ و چہرے اور فکر و خیال کو ہر طرف سے ہٹا کر مکمل یکسوئی کے ساتھ اُس ذات کی طرف کرلیا ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور سن لو میں ہر گز ہر گز مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ (سورۂ انعام 79)

اس نعرۂ تکبیرکی گونج معبود ان باطل کے ایوانوں سے اس شدت کے ساتھ ٹکرائی کہ ان ایوانوں میں براجمان معبود ان باطل کے ذہنوں میں ایک ہلچل مچ گئی ، اس توحید پرستانہ آواز سے کفر و الحاد کے بحرِ مردار میں طوفان برپا ہوگیا اور صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ حضرت ابراہیم ؑ کی توحید کی طرف دعوت، خدائے واحد کے گھر آکر اس کی عبادت کی دعوت کی آواز اتنی شدید اور پیہم تھی کہ اسے قیامت تک آنے والی ہر روحِ سلیم نے سنا اور اس پر ’’لبیک ‘‘کہا۔

توحید کی دعوت اور شرک سے انکار کی اس جدوجہد میں حضرت ابراہیم ؑ کو تاریخی آزمائشوں اور انتہائی صبر آزما مرحلوں اور بے مثال امتحانات سے گزرنا پڑا، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے ’’ابراہیم ؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا تو اس(ابراہیمؑ) نے انہیں پورا کر دکھایا۔ (سورۃ البقرہ:124)

حضرت ابراہیم ؑ کا سب سے بڑا کارنامہ اور آزمائش جس میں وہ کامیاب و بامراد ہوئے ،یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی رضا، خوشنودی اور خالصتاً لوجہ اللہ اپنی زندگی کی سب سے زیادہ پسندیدہ و محبوب متاعِ عزیز اپنے لخت جگر اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی اللہ کے طلب کرنے پر دی اور رہتی دنیا تک یہ نقش ثبت کر دیا کہ اللہ کی رضا کی خاطر اس کے حکم کی تعمیل میں صرف اور صرف اللہ ہی کے لئے اس کے راستے میں ہر چیز ہی نہیں بیٹے جیسی نعمت کی بھی قربانی دی جاسکتی ہے اور صرف یہی نہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ بیٹے کی قربانی پر آمادہ ہوگئے، بلکہ آپ کے صاحبزادے حضرتِ اسماعیل ؑ بھی دل کی پوری آمادگی کے ساتھ اللہ کے راستے میں قربان ہونے کو تیار ہوگئے۔

جب ان دونوں نے سرتسلیم خم کر دیا اور ابراہیم ؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا، اس وقت کا حا ل کوئی کیا بیان کر اور لکھ سکتا ہے۔ یہ بڑی ہی آزمائش تھی اللہ نے حضرت اسماعیل ؑ کو بچا لیا، ابراہیم ؑ کی قربانی قبول کی ، اور جنت سے قربانی کا جانور بھیج کر اس قربانی کو ذبح عظیم قرار دے کر قیامت تک آنے والے ابراہیم ؑ کے ماننے والوں کے لئے سنّتِ ابراہیمی کے طور پر جاری کر دیا۔

یہی قربانی آج ہم سب پر سنّتِ ابراہیمی کے طور پر واجب ہے، جس کی شرط اول و آخر یہی ہے کہ یہ خالص اللہ کی رضا کے لئے نمود و نمائش اور ریا کاری جیسے رکیک جذبات و خیالات سے پاک ہو۔ اس کے ساتھ یہ بھی واضح کر دیا کہ ’’اللہ کو تمہاری قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا، بلکہ اس تک تو صرف تمہارا اس عمل سے مقصود خالص تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘۔ (سورۂ حج 37:)

غور کرنے کی بات ہے کہ آج قربانی جیسے توحید ِ خالص اور للہہیت پر مبنی عمل کو ہماری فکر اور سوچ نے شرک جیسے عقیدہ سے گہنا دیا ہے۔ آج ہمارے اندر جذبۂ قربانی کے بجائے نمود و نمائش اور ریاری کا افسوس ناک رجحان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں قربانی کا جذبہ کم اور اپنی دولت کی نمائش کا فخر زیادہ ہے ،لاکھوں نہیں ،بلکہ کروڑوں روپے کاقربانی کا جانور خرید کرہم لوگوں میں اپنے دولت مند ہونے کا ثبوت دینا چاہتے ہیں۔

ہر گزرتے سال کے ساتھ قربانی کے جانور کے حوالے سے نمود و نمائش اور ریا کاری کا گراف بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہمارے دین، ایمان، عقیدے کی للہیت اور اعمال میں اخلاص نیت کے حوالے سے یہ ایک تباہ کن اور خطر ناک رجحان ہے۔

ایک زمانہ وہ تھا کہ لوگ سال بھر قربانی کے جانور کو خاموش نیت کے ساتھ گھر میں پالا کیا کرتے تھے اور پھر عید الاضحی کے دن خاموشی سے اخلاص نیت کے ساتھ گھر ہی میں ذبح کر دیا کرتے تھے، مگر اب ایسا کچھ نہیں ہوتا اب تو ہمارے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ اتنے طاقتور ہوگئے ہیں کہ جانوروں کو تین چار منزلہ عمارتوں سے کرین کے ذریعے اترتا دکھایاجاتا ہے او ر میڈیا اس کی لائیو کوریج کر رہا ہوتا ہے۔

لوگوں کا ایک جم غفیراس ریا کاری اور نام و نمود کی نمائش کو دیکھنے کے لئے جمع ہوتا ہے۔ قربانی جیسی سنت ابراہیمی ؑ کو بھی کمرشل ازم کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ قربانی کے جانور کی نمائش کا اہتمام اس انداز سے کیا جاتا ہے کہ جیسے کوئی بہت بڑی پیداواری کمپنی اپنی کسی خاص نئی پروڈکٹ کی نمائش کرتی ہے۔ شامیانے لگائے جاتے ہیں۔

ان میں لائٹنگ کا اہتمام ہوتا ہے ،اس پر طرفہ تماشا یہ کہ قربانی کے جانور کو بھی برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور اس کی نمائش ہوتی ہے ، لوگ دور دور سے جانور کو دیکھنے آتے ہیں کہ فلاں نے اتنا مہنگا اور خوبصورت جانور خریدا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قربانی کا فریضہ جو ’’تقویٰ‘‘ سے عبارت تھا، ان جھمیلوں میں الجھا کر رکھ دیا گیا ہے۔ آج میڈیا جانوروں کے ساتھ تصویر اتارنے اور ان تصاویر کو نشر کرنے کا اعلان کرتا ہے، لوگ بڑے فخر اور مختلف ایکشن و انداز کے ساتھ جانوروں کے ساتھ تصاویر اتارتے اور اس پر فخر کرتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے محراب و منبر سے قربانی کےفضائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بتایا جائے کہ قربانی اللہ کی رضا کے لئے اور اسی کے نام پر ہے۔ اسے نمود ونمائش ریاکاری جیسے امور سے شرک میں تبدیل نہیں کیا جائے۔

یاد رکھئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے نیک اعمال کا اجر عمل پر نہیں، بلکہ نیت پر عطا کرتا ہے ،اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور بے شک انسان وہی کچھ پائے گا جس کی اس نے نیت کی ہو گی۔‘‘ خدارا اپنی عبادتوں اور خصوصاً قربانی کی عبادت کو نمود و نمائش اور ریاکاری کے شرک سے پاک بنائیں۔