جھوٹی گواہی کے ذریعے بہن کو ترکے سے محروم کرنے کا شرعی حکم

May 24, 2024

تفہیم المسائل

سوال: میرے والد تقریباً 6 سال پہلے فوت ہوئے، اُن کی پہلی بیوی سے دو بیٹے ہیں اور دوسری بیوی سے صرف ایک بیٹی ہے، والد مرحوم نے ترکے میں کثیر مال چھوڑا ہے۔ دونوں بیٹوں نے انتہائی مکاری و چالاکی سے یہ ثابت کیا کہ صرف دو بیٹے وارث ہیں اور تمام جائیداد اور والد صاحب کے بینک اکاؤنٹس میں موجود کل رقم بھی اپنے نام کروا لی ہے۔

نیز چند لوگوں نے میرے بھائیوں کے حق میں مذکورہ جعل سازی کی جھوٹی گواہی بھی دی ہے۔ بہنوں کا حق غصب کرنے والے بھائیوں اور جھوٹی گواہی دینے والوں کے متعلق شریعت میں کیا وعید ہے۔ کیا ایسے لوگوں سے کسی بھی قسم کا تعلق رکھنا چاہیے ؟(زاہدہ اعوان بنت قاضی علامہ فضل حق، تلگراں مظفرآباد، آزاد کشمیر)

جواب: والدین کے مال میں بیٹیوں کا حق قرآن کی نصِّ قطعی سے ثابت ہے، جسے قطعاً رَد نہیں کیاجاسکتا ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ:’’ اللہ تمہاری اولاد( کی وراثت کے حصوں) کے متعلق تمہیں حکم دیتاہے کہ(میت کے) ایک بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے حصے برابر ہے، سو اگر صرف بیٹیاں (دویا) دو سے زیادہ ہوں تو ان کا حصہ (کل ترکے کا) دوتہائی ہے اور اگر صرف ایک بیٹی ہوتو اس کا حصہ (کل ترکے کا) نصف ہے ، (سورۃالنسا:11)‘‘۔ اگر بیٹا یا کوئی وارث بیٹی کو محروم کرتا ہے تو یہ ظلم ہے اور اس طرح کا کوئی بھی عمل شرعاً ناقابلِ قبول ہے۔

اگر کوئی بیٹا یا کوئی دوسرا وارث بیٹی کو اُس کے حق سے محروم کرتاہے ،تو یہ ظلم ہے اورایسی تقسیم کو رَد کرنا واجب ہے ۔ بہن یا بیٹی کو اُس کے حق سے محروم رکھنے کے پیچھے اُن کی سوچ محض مال کی ہوس ہے اور وہ بیٹی کے حقِ وراثت کا عقیدۃً منکر نہیں ہے ،لیکن ظلم کرتے ہوئے اپنی علاقائی یا قبائلی رسم و رواج کو بہانہ بناکر بیٹی یا بہن کو وراثت میں حق دینے سے انکاری ہے، یہ ظلم اورفسق ہے، کیونکہ ایسا شخص قرآن میں بیان کردہ اللہ تعالیٰ کے صریح اور قطعی حکم کو رسم ورواج کی بنیاد پر رَد کرتا ہے، علاقائی یا قبائلی رسم ورواج کو فوقیت دیتے ہوئے بیٹی یا بہن کو اُس کے حقِ وراثت سے روکتاہے، تو یہ گناہ ِ کبیرہ ہے اورظلماً مال غصب کرناہے اور اس پر حدیث پاک میں بڑی وعید آئی ہے ،حدیثِ پاک میں ہے :(۱)ترجمہ :’’جو شخص کسی کی زمین کا ایک با لشت ٹکڑا بھی ظلما ً(یعنی نا حق) لے گا ،تو اُسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن (سز ا کے طو رپر) سا ت زمینوں کا طوق پہنا ئے گا، (صحیح مسلم: 4055) ‘‘۔

لیکن اگر وہ بہن /بیٹی کے حقِ وراثت کا منکر ہواور یہ عقیدہ رکھتاہوکہ باپ یا ماں کی وراثت میں اُن کا کوئی حصہ نہیں ہے، تو یہ قرآن کی نَصِّ قطعی کا انکار ہے، اور کفر ہے۔ امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’ جو لوگ بیٹیوں اور بہنوں کو ترکہ نہیں دیتے، قرآن مجید کے خلاف ہیں اور جن کا قول یہ ہو کہ ان کو میت کے مال سے کچھ نہیں پہنچتا ، جس کے ظاہر معنیٰ یہ ہیں کہ اُن کا ترکہ میں کوئی حق نہیں ہوتا ، یہ صریح کلمۂ کفر ہے، ایسوں پر توبہ فرض ہے، نئے سرے سے کلمۂ اسلام پڑھیں، اس کے بعد اپنی عورتوں سے دوبارہ نکاح کریں ،(فتاویٰ رضویہ، جلد26، ص:353)‘‘۔

آپ نے سوال میں لکھا ہے کہ آپ کے بھائیوں نے جھوٹے گواہ پیش کرکے اپنے حق میں گواہی دلوائی کہ علامہ قاضی فضلِ حق مرحوم کے صرف دو بیٹے ہیں ، بیٹی کوئی نہیں ،گواہ اگر جانتے تھے کہ دوسری بیوی سے ایک حقیقی بیٹی بھی موجود ہے تو گواہوں کا یہ عمل حرام ، گناہِ کبیرہ اور جہنم میں جانے کا سبب بنے گا، حدیث پاک میں ہے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ: ’’کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں، ہم نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ !ضرور بتایئے، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کے غیر کو شریک ٹھہرانا ،والدین کی نافرمانی کرنا ،(اُس وقت)آپ ﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے ، پھر آپ ﷺ بیٹھ گئے اور دوبار فرمایا: سنو! اورجھوٹی بات اورجھوٹی گواہی(کبیرہ گناہ ہیں)، پھر آپ ﷺ (مسلسل یہی جملے) دہراتے رہے ، (صحیح بخاری : 5976)‘‘۔ (۲) ترجمہ:’’ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا، (سُنن ابن ماجہ:2373)‘‘۔

ریاست اورحکومت کا فرض ہے کہ بیٹی کو باپ یا ماں کی وراثت میں اُس کا حق دلائے اور ایسا قانون بنائے کہ جس کی رُو سے کسی بھی شخص کے انتقال کے بعد اُس کی منقولہ اورغیر منقولہ جائیداد میں ہر قسم کا تصرُّف تقسیمِ وراثت سے پہلے ممنوع اور کالعدم قرار دیا جائے اور اگر کسی نے دوسرے وارثوں کی لاعلمی میں بالاہی بالا باپ کی جائیداد اپنے یا صرف بھائیوں کے نام کردی ہو اور بہنوں کو، خواہ ایک ہو یا زیادہ ہوں، محروم رکھا ہو تو عدالت ایسی خلاف شرع تقسیم کو باطل کرکے شریعت کے مطابق تمام وارثوں کو اُن کا حصہ دلوائے۔ پس آپ اپنے والد کی وراثت میں اپنا شرعی حق لینے کے لیے عدالت سے رجوع کریں ، اُمید ہے عدالت آپ کی دادرسی کرے گی ، عدالت کو چاہیے : ایسے مقدمات کا خرچ غاصب وظالم مُدّعٰی علیہ پر ڈالے اور اس کی تشہیر کرے تاکہ آئندہ کوئی ایسی ناپاک جسارت کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔ (واللہ اعلم بالصواب)