مسلم معاشرہ اور طلاق کا تصور

May 25, 2024

ایک خبر کے مطابق پاکستان کی خواتین میں طلاق اور علیحدگی حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہو گیا ہے۔ شوہروں کی بدسلوکی اور ازدواجی زندگی میں تلخیوں کی بھر مار کے سبب پاکستانی خواتین طلاق حاصل کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔ اکثر ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ طلاق کے مطالبے پر خواتین کو جان ہی سے مار دیا گیا۔ اسلام آباد میں سال 2021میں لگ بھگ چھ سو خواتین نے اپنے مجازی خدائوں سے طلاق حاصل کر لی جبکہ سال 2022میں خاندان کی ’’عزت و وقار و غیرت‘‘کے نام پر 1661خواتین ، لڑکیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ یہاں یہ بات بتانا بھی ضرور ی ہے کہ پاکستان میں 92فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں، کسی مظلوم کو طلاق حاصل کرنا ہو تو طویل عدالتی کارروائی کا سہارا لیا جاتا ہے۔خواتین کیلئے یہ سیدھا سادہ راستہ بھی پر خطر، پرتشدد اور جان جوکھم کا راستہ بنا دیا جاتا ہے تاکہ وہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں۔

مسلم معاشرےمیں طلاق حاصل کرنا ایک معیوب اور گھٹیا امر تصور ہوتا ہے لیکن جب سے دنیا میں خواتین کی بیداری کی تحریکیں چلنا شروع ہوئی ہیں خواتین کو زیادہ اختیارات ملنے لگے ہیں جن کیلئے و ہ ساری عمر ترستی رہی ہیں۔ جب عورت کمانے والی ہو تو اس کو ازدواجی زندگی میں صرف شوہر کی چاہت کی ضرورت ہوتی ہے مالی طور پر وہ خود اپنے پائوں پر کھڑی ہے اس کو چاہیے صرف چاہت و محبت۔ جب چاہت ہی نہیں تو ازدواجی زندگی کیسے خوش و خرم ہو سکتی ہے؟ ایک متوسط طبقے کی خاتون کا کہنا ہے کہ جب ہم بھی ملازمت کر رہی ہیں تو ایثار اور قربانی صر ف ہم ہی کیوں دیں؟ خدا نے ہمیں خلع کی اجازت دی ہے لیکن بیوی کو زدوکوب کرنے کی اجازت نہیں دی۔ طلاق حاصل کرنے کا رجحان نہ صرف پاکستان میں بلکہ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں میں بھی تیزی سے سر اٹھا رہا ہے۔ تین میں سے ایک والدین کو طلاق کی صورت میں برطانوی سرکاری خزانے سے لاکھوں پونڈ کی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے کیونکہ طلاق کی صورت میں جوڑوں کو مالی طور پر فائدہ ہوتا ہے۔ اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانیوں، جو انگلینڈ میں رہتے ہیں، نے دھڑا دھڑ ’’طلاقوں‘‘پر زور دے دیا ہے۔ یہ طلاق صرف کاغذات میں ہوتی ہے لیکن مولوی کے نکاح کو بدستور قائم رکھا جاتا ہے چنانچہ برطانوی حکومت ان دنوں اس مسئلے سے نبٹ رہی ہے۔

میرے حساب میں ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کی طرح حقیقی طلاق کا گراف نہ صرف بیرون ملک بلکہ اندرون ملک بھی بڑی تیزی سے اوپر جا رہا ہے جہاں تک طلاق کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے۔ کتاب و سنت کے بعد شریعت کا تیسرا ماخذ’’اجماع‘‘ ہے۔ اس وقت اہل سنت و جماعت کے پانچ مکاتیب فکر دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، سلفی جب کہ اہل تشیع کے یہاں فقہ جعفریہ پر عمل ہے ان تمام مکاتب فقہ کی کتابیں چھپی ہوئی موجود ہیں۔ میرے علم کے مطابق ان میں سے کسی کے یہاں بھی طلاق واقع ہونے کیلئےمصالحتی کوشش ہونا شرط نہیں ہے ، کسی بھی کتاب میں طلاق دینے کے سلسلے میںایسی کسی بھی شرط کا ذکر نہیںملتا اس لیے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس بارے میں ملت یا امہ کا اجماع و اتفاق ہے، یہاں تک کہ علیحدگی کی صور ت میں ثالثی کو بھی ضرور ی قرار نہیںدیا گیا بلکہ اس کا کوئی ذکر ہی نہیں آیا لہٰذا قیاس کا تقاضہ بھی یہی ٹھہرا کہ طلاق واقع ہونے کیلئے بھی پہلے ثالث کے ذریعے معاملہ طے کر نے کی کوشش کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ قرآنی آیات میں مرد و عورت کا درجہ بتایا گیا ہے کہ مرد صدر خاندان ہے۔(صدر پاکستان کی طرح بے بس نہیں) اور عورت پر جائز امور میں اس کی اطاعت واجب ہے۔ چونکہ حقوق و فرائض کے بارے میں اکثر نزاع پیدا ہو جاتا ہے اور میاں بیوی کی ہمہ وقتی رفاقت کی وجہ سے انکے درمیان نزاع کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے اس لیے خاص طور پر میاں بیوی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اگر بیوی شوہر کے حقوق کے بارے میں کوتاہی کرے اور اسکی وجہ سے تعلقات میں ناخوش گواری پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو شوہر ذاتی طور پر اس کو حل کرنے کی کوشش کرے اور اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں پندو نصیحت ، عارضی طور پر ترک تعلقات اور سرزنش اور اگر اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو سماجی مداخلت یعنی سماج کو چاہیے کہ باہمی جھگڑا طے کرانے کیلئے دونوں خاندانوں کو لے کر اختلافات کو ختم کرانے کی کوشش کرے۔ یاد رہے کہ یہ سب ایک عمومی نصیحت ہے چونکہ ازدواجی رشتہ خاندان کے استحکام کیلئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے اس لیے خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں دراڑ نہیں ہونی چاہیے۔ شوہر بھی ذاتی طور پر اسکی کوشش کرے اور معاشرہ یا سماج بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے لیکن اس کا تعلق خاص طلاق کے مسئلے سے ہر گز نہیں بلکہ کسی بھی قسم کا اختلاف شوہر و بیوی میں پیدا ہو تو اسے اس طرح حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ میرے حساب سے نکاح نامے کی طرز پر معیاری طلاق نامہ بھی ہونا چاہیے جب کہ طلاق کی بھی رجسٹریشن کی جائے۔

طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان سے مسلم ممالک اور مسلم معاشروں میں طلاق ازدواجی زندگی میں تلخیاں گھول رہی ہے۔ شوہروں کی بدسلوکی کی وجہ سے خواتین طلاق حاصل کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں اس لیے میرے حساب سے اگر علیحدگی کے بغیر گزارہ نہ ہو یا کوئی چارہ نہ رہے تو جلد سے جلد اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے کہ طلاق کومشکل بنانا بظاہر عورت کے مفاد میں نظر آتا ہے لیکن یہ اس کے حق میں ضرر رساں عمل ہے۔