عید کے ثقافتی رنگ

June 17, 2024

ثقافت انسانی حیات کا جوہر ہے ،عقائد اور ثقافت میں گہری جُڑت رہی ہے ۔دھرتی کی قدروں کی امین ثقافت دلوں اور روحوں کی منظورِ نظر ہے اس لئے لوگوں تک رسائی کیلئے عقائد کو ثقافت کی معاونت ہمیشہ درکار رہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہر ملک میں مذہبی رسومات کا رنگ جداگانہ ہے ۔ثقافت جمالیاتی ،رومانی ، روحانی احساس اور انسان کے باطن کا لطیف اظہار ہے اسلئے یہ خوشی اور بالیدگی کی علامت ہے۔ثقافت اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ عقیدے سے جْڑے تہواروں پر بھی اپنے گہرے رنگ ثبت کر کے انھیں ہمنوا بنا لیتی ہے ۔ثقافت وہ پَر ہے جو اْڑنے کی سرشاری عطا کرتی ہے ۔وہ پھول ہے جس کی خوشبو سونگھنے والے کو بھی پھول کی طرح مہکا دیتی ہے، وہ ساز ہے جو وجود کے تاروں سے ہم آہنگ ہے۔ہم نے عیدوں ، شبراتوں کے مذہبی پہلو کو بعد میں جانا اور ثقافتی کو پہلے،عید ایک مذہبی رسم ہےجبکہ تہوار ثقافتی میلہ ، عید کو تہوار کی طرح منانے سے زمینی اور روحانی دانش اک مک ہو کر زیادہ پرتاثیر اور پرکشش ہو کر احساس میں رَچ جاتی ہیں ۔عید کو خوشی کے معنوں میں لیا جاتا ہے ۔ہم بچپن میں اس لئے عید کا انتظار کرتے تھے کہ اس کے ساتھ بہت سی رنگ برنگی خوشیاں جڑی تھیں ،گھر میں مہینوں پہلے منصوبے بنتے اور ہفتوں پہلے تیاریاں شروع ہو جاتی تھیں۔عید ایک تین روزہ ثقافتی میلہ ہوا کرتا تھاجو رنگا رنگ دلچسپیوں سے بھرا ہوتا تھا ،ہر طرف رونق ، چہل پہل اور شادمانی دکھائی دیتی تھی ،وہ مٹھائیاں اور اشیاءکھانے کو ملتیں جو صرف میلوں ٹھیلوں پر ہی میسر ہوتی ہیں ،کھلونے ، جادو شو ،سرکس ، بندر اور ریچھ کے تماشے ،لڑکے میدانوں میں دیسی کھیلوں کے ہنگامے برپا کرتے اور لڑکیاں گھروں میں ، میرے لئے عید کا سب سے دلکش تصور پرائمری سکول کے صحن میں لگے کیکر کے بڑے بڑے درختوں پر ڈالی پینگ پر جھولے لینا تھا۔

وقت کے ساتھ ثقافت کےرنگ ڈھنگ بدلتے رہتے ہیں ، کچھ رنگ کم اور کچھ تیز ہو جاتے ہیں مگر کسی رنگ کو بالکل معدوم یا خارج نہیں کیا جاسکتا مگر ہم نے ایسا کیا ، عید سے جڑے ثقافتی رنگوں کو جدا کرنا شروع کیا اور آج عید ایک پھیکا تہوار بن کر رہ گیا ہے ، حالاں تہوار پھیکا نہیں ہو سکتا ، کہنے کو تہوار رہ گیا ہے ۔بڑوں کا زیادہ وقت کمروں کی قید میں سوتے گزرتا ہے اور بچوں کا دھیان موبائل اسکرینوں سے ہٹتا ہی نہیں۔کھیل کود ، ہلہ گلہ اور میلے کے ذائقے مفقود ہو گئے ہیں ، اس کی کئی وجوہات ہیں ، ایک تو وہ روایتی میلے ٹھیلے لگنے بند ہو گئے پھر کچھ لوگوں کے منفی پروپیگنڈے نے ثقافتی سرگرمیوں کو یوں نشانے پر رکھا ہوا ہے کہ ہم کلچر کے حوالے سے معلومات نہ ہونے کے باعث تذبذب کا شکار ہو چکے ہیں ۔ہمیں نہ رونے کا سلیقہ رہا نہ قہقہہ لگانے کا ، نہ احتجاج کرنے کا نہ اپنی رائے کے اظہار کا ، نہ چاہنے کا نہ چاہے جانے کا، نہ مزاح سے محظوظ ہونے کا نہ طنز میں چھپے راز کو سمجھنے کا، سب سے روٹھے ، خود میں سمٹے ہوئے لوگ برداشت کی اہلیت نہیں رکھتے ۔یہی ہمارا حال ہے ۔ضروری ہے کہ عید کو پھر سے تہوار بنا کر منائے جانے کے اقدامات کئے جائیں ، شہروں اور گاؤں میں سرکار کی سرپرستی میں عید میلے منعقد کئے جائیں اور لوگوں کو ذات کی جھونپڑیوں سے نکال کر مجمع کا حصہ بنایا جائے ۔جہاں وہ دوسروں سے ملیں ، کھیل تماشے میں شامل ہوں ۔بچوں کو اپنی ثقافت اور فطرت کے قریب ہونے کا ماحول میسر ہو اور بڑوں کو کچھ دیر دوبارہ بچوں جیسا بننے کا موقع عنایت ہو ، دیسی کھیلوں ، گائیکی صوفیانہ کلام ، پکوانوں اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کے مقابلے ہوں ، لوگ روزمرہ روٹین کے حصار سے نکل کر کچھ مختلف کرنے کیلئے جدوجہد کریں ، کْھل کر ہنسیں اپنے اندر بیٹھے درد کے تلخ ذائقوں کو ہوا میں اْڑا کر ہلکے پْھلکے ہو جائیں۔ زندگی کا دلکش رنگ اوڑھیں اور مثبت رویوں کے فروغ سے سماج کو خوبصورت بنائیں۔ثقافتی سرگرمیاں ہمارے وجود کی تطہیر کرتی ہیں ، ہمارے باطن میں ہمدردی ، نیکی اور ایثار کی شمع روشن کرکے انسان کی قدر کا سبق دیتی ہیں ، میلہ ملن سے ہے جو فرد کو انسانیت کے وسیع کنبے سے جوڑ کر دکھ سکھ کا اجتماعی احساس عطا کرتا ہے ۔اپنی ثقافت کے رنگوں سے عید کو ہم آہنگ کر کے ہم بطور قوم اپنی منفرد پہچان کو توانا بنا سکتے ہیں زندگی کا سب سے خوبصورت دور، زمانہ بچپن کا ہے ، ہمارا بچپن تو لوٹ کر نہیں آسکتا مگر ہم اپنے بچوں کے بچپن کو رنگا رنگ بنا کر دوبارہ وہ ذائقے تازہ ضرور کر سکتے ہیں۔