دینی خاندانوں کے آزاد خیال ادیب؟

June 28, 2024

کبھی کبھی انسان کے دل پر بہت عجیب سا خیال وارد ہوتا ہے اور پھر اس کی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں آج بیٹھے بیٹھے اپنے مرشد احمد ندیم قاسمی یاد آئے اور میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، ایک تو یہ مسکراہٹ ان کی یاد کی دین تھی اور پھر یوں کہ اتنا بڑا ادیب پیروں کے خانوادے سے تھا، مجھے یاد ہے کہ جب ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے لندن گئے تو وہاں سامعین کی ایک معقول تعداد صرف مشاعرہ سننےنہیں آئی تھی بلکہ وہ اپنے پیر احمد شاہ قاسمی کی زیارت کے لئے آئے تھے اور یہ احمد شاہ ندیم صاحب کا اصلی نام تھا۔ سو ندیم صاحب جب مائیک پر آئے تو ہال ’’ حق احمد شاہ‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا اور مشاعرے کے اختتام پر ندیم صاحب کے ہاتھ اور پائوں چومنے والوں کو ایک لمبی قطار میں لگنا پڑ رہا تھا۔ انسان میں جتنی چاہے تبدیلی آجائے بعض صورتوں میں جین کے اثرات گاہے گاہے اپنا اثر دکھاتے رہتے ہیں اور اس کی ایک جھلک ندیم صاحب کی بے پناہ خوبصورت نعتوں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔

ایک اور بڑا نام سید علی عباس جلال پوری کا بھی ہے بہت بڑے فلاسفر اور بہت بڑے ملحد مگر جلال پور شریف ان کی خاندانی گدی تھی جس کا سالانہ عرس بہت اہتمام سے ہوتا ہے اور اپنے انتظار حسین ان کے والد ذاکر تھے، سید محمد کاظم عربی کے جید عالم انہوں نے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا عربی ترجمہ کیا بعد میں داڑھی بھی منڈوا دی اور اپنا رستہ بدلا ہی نہیں بلکہ مخالف رستوں کے مسافر ہوگئے۔ بہزاد لکھنوی باقاعدہ پیر اور گدی نشین تھے اور ہماری کشور ناہید ایک مولانا صاحب کی بیٹی ہیں اور شروع شروع میں برقع اوڑھتی تھیں ۔ یونس جاوید ڈرامہ نگار کے والد بھی عالم دین تھےانہوں نے یونس جاوید کو دینی مدرسہ میں داخل کرایا جہاں سے انہوں نے قرآن حفظ کیا اور تراویح بھی پڑھاتے رہے انہوں نے اپنے ایک ہم سبق کا قصہ لکھا ہے جو مسجد میں قرآن حفظ کرنے آتا تھا اور بار بار بھاگ جاتا تھا پھر اس کے والد نے اس کے پائوں میں بیڑیاں پہنا دیں اور وہ بیڑیوں سمیت بھاگ گیا۔ اس کے بعد اس باغی کا پتہ نہ چلا۔ نصیر ترابی علامہ رشید ترابی کے بیٹے تھے میں انہیں زیادہ قریب سے نہیں جانتا تھا بس مشاعرہ میں ملاقات ہوتی تھی سو میرے علم میں نہیں کہ وہ مذہب کے کتنے قریب رہے یا انہو ںنے دوری اختیار کرلی میرا یار غار صف اول کا نقاد سراج منیر بھی ایک عالم کا بیٹا تھا اور آخر دم تک اس کے اندر ایک جیتا جاگتا مولانا دکھائی دیتا رہا، بہت بڑے مزاح نگار محمد خالد اختر کے والد گرامی بھی عالم تھے، اردو افسانہ اور شاعری کا ایک اہم نام اور میرا دوست اصغر ندیم سید کا تعلق بھی دینی گھرانے سے ہے اس کے والد نوحہ خواں تھے، افسانہ نگار ، شاعر اور نقاد عباس رضوی بھی ایک ذاکر کے صاحب زادے ہیں برادرم اقتدار جاوید جو اردو اور پنجابی کے منفرد لہجے کے شاعر اور کالم نگار ہیں کے والد بھی عالم دین اور پیر تھے، منڈی بہائوالدین کے نواح میں ان کا مزار ہےاور ان کا سالانہ عرس بھی ہوتا ہے ایک بہت اہم نام مبشر زیدی کا ہے جن سے عوام جنگ میں شائع ہونے والی ان کی سو لفظوں کی کہانی کے حوالے سے واقف ہیں مگر وہ بلاکے صاحب مطالعہ اور صاحب الرائے ہیں ان کے والد بھی ذاکر تھے مگر مبشر کی راہیں بالکل جدا ہیں۔ ابھی ابھی میرے ذہن میں خوبصورت شاعر اور نثر نگار عرفان صدیقی اور ان کے خاکہ نگار بھائی شاہد صدیقی کے اسمائے گرامی آئے ہیں ان کے والد گرامی بھی عالم اور ایک مسجد کے خطیب تھے، صاحب اسلوب شاعر محمد اظہار الحق کے والد بھی عالم دین تھے۔ اسی طرح اگر خالص صحافت کی طرف آئیں تو عبدالقادر حسن، حسین پراچہ، ارشاد عارف، اسد اللہ غالب اور بہت سے دوسروں کا تعلق بھی علماء کے خاندان سے ہے۔

میرے ذہن میں جب ان سب ادیبوں کے نام آئے اور اپنے اجداد سے ان کی راہیں الگ نظر آئیں تو مجھے بہت حیرت ہوئی اور اس کےساتھ یہ خیال بھی ذہن میں در آیا کہ ان میں سے جو ادیب اور شاعر متوازن رہے یا یوں کہہ لیں کہ انہوں نے بزرگوں سے اپنے خیالات اور نظریات کا پردہ کرایا تو وہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن جب یہ پردہ درمیان میں سے ہٹا تو ان کے خاندان کی پریشانی کاکیا عالم ہوگا، میرا اشارہ ان دوستوں کی طرف ہے جنہوں نے کھلم کھلا بغاوت کی اور مذہب سے متعلق نظریات کو بھی چیلنج کرنا شروع کردیا، اپنی پرانی اقدار کو بھی چیلنج کیا اور کھلی اور چھپی ہوئی نفرتوں کا نشانہ بنے۔ یہ آسان کام نہیں اور ہر کوئی اس سلسلے میں درپیش مشکلات کا اندازہ نہیں کرسکتا۔ آرٹ انسان کو مختلف جہتوں کی طرف لے جاتا ہے چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ مصوری، شاعری اور افسانے میں اگرچہ ہم اردگرد کی دنیا کی جھلکیاں دیکھتے ہیں مگر اس سے ماورا بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ معاشرہ ایک حد تک اس کی لبرٹی دیتا ہے مگر لمٹ کراس نہیں کرنے دیتا اور جو لوگ یہ لمٹ کراس کرتے ہیں انہیں شدید نفرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے محفوظ ترین راستہ تصوف کے ایک زاویئے کا بھی ہے جس کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ مذہب کا مودبانہ انکار ہے۔

بہر حال اوپر کی سطور میں میں نے جو چند نام لئے ہیں ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے خود کو نہ صرف اپنے خاندان کے دینی پس منظر سے علیحدہ کیا بلکہ مکمل بغاوت کردی۔ میں ان میں سے نہیں ہوں مگر میں نے اپنے عالم دین والد ماجدؒ سے جامعہ اشرفیہ میں داخلہ لینے سے ’’مودبانہ انکار‘‘ کردیا تھا۔