• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکیم محمدموسیٰ امرتسری...انداز بیاں…سردار احمد قادری

ایک دن پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی نے مجھ سے پوچھا ’’آپ کس موضوع پر اپنا سپیشلائزیشن کے حوالے سے تھیسس (مقالہ) لکھیں گے۔ میں ان دنوں قائد اعظم اور علامہ اقبال کے افکار پڑھ رہا تھا اور مقام پاکستان کے حوالے سے مختلف کتابیں میرے زیر مطالعہ تھیں۔ میں نے سرسری طور پر کہ دیا کہ تحریک پاکستان اور دو قومی نظریہ پر لکھنا چاہتا ہوں۔ استاد محترم نے مشورہ دیا کہ آپ اگر دو قومی نظریہ پر حقیقی کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے تھیسس کا آغاز حضرت مجدد الف ثانی سے کرنا چاہئے۔ اس وقت تک میں حضرت مجدد الف ثانی کی علمی فکری اور انقلابی جدوجہد سے پوری طرح واقف نہیں تھا۔ ان کا تذکرہ علماء سے سنا تھا۔ مشائخ ہمیشہ ان کا احترام سے نام لیتے تھے میں انہیں سلسلہ نقشبندیہ کے ایک عظیم المرتبت شیخ کی حیثیت سے جانتا تھا۔ حضرت مجدد الف ثانی کی شخصیت کا عظیم انقلابی اور سیاسی پہلو ابھی مجھ سے پوشیدہ تھا میری نظروں سے اوجھل تھا ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامیات کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صوفی اور درپیش صفت انسان بھی تھے اور وہ سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور خانوادے مشرق پور شریف سے روحانی طور پر بیعت تھے۔ انہوں نے مجھے اپنے مقالے کے سلسلے میں حکیم محمد موسیٰ امرتسری سے ملنے کے لئے کہا میں ایک دن ڈاکٹر صدیقی کے بتائے ہوئے پتے پر حکیم موسیٰ امرتسری سے ملنے پہنچ گیا۔ اس سے پہلے میں حکیم صاحب کی علمی خدمات کے حوالے سے کچھ دوستوں سے سن چکا تھا۔ وہ مجلس رضا کے بانی تھے اور امام احمد رضا خاں بریلوی کے فکر اور فلسفے کے حوالے سے متعدد کتابیں شائع کرا چکے تھے۔ وہ ہر سال’’یوم رضا‘‘ کے عنوان سے ایک یادگار علمی اجتماع کا اہتمام کراتے تھے۔ جس میں دانشور اور اصحاب فکر و دانش امام احمد رضا کے حوالے سے مقالے پڑھتے اور خطاب کرتے میں نے ان کو دیکھا ہوا نہیں تھا۔ میرے خیال میں وہ ایک با رعب اور اپنے مقام و مرتبے اور علمی وقار کے احساس سے لبریز ایک شخصیت ہوں گے جنہیں ملنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ میں نے ان سے ملاقات کا وقت لینے کے لئے فون کیا تو انہوں سادگی سے پنجابی میں جواب دیا۔ ’’جدوں مرضی آجائو‘‘ یعنی جب دل کرے آجانا۔ ان کا ’’مطب‘‘ جہاں ان سے ملاقات ہوئی تھی وہاں تک جانے کے لئے ایک سالم تانگہ لیا کیونکہ اس طرف جانے کے لئے اور سواریاں دستیاب نہیں تھی۔ لیکن سورج میں گرمی کی شدت موجود تھی۔ میںتین چار سیڑھیاں چڑھ کر ان کے مطب کے اندر جھانکا تو وہاں لکڑی کی ایک چوکی پر ایک بھاری بھر کم بزرگ پر میری نظر پڑی، گول مٹول سا جسم، تہبند کے اوپر ململ کا کرتا پہنے ہوئے جس کے سامنے کے بٹن کھلے ہوئے تھے، سفید لمبی اور گول داڑھی، چہرے پر بچوں کی سی معصومیت، سامنے کے ایک دو دانت غائب تھے، ہنس کر میرا استقبال کیا تو بچوں کی طرح پیارے اور بے تکلف نظر آئے۔
میں نے حکیم موسیٰ امرتسری صاحب کے متعلق پوچھا تو فرمانے لگے ’’میں ہی ہوں، آپ صاحبزادہ قادری صاحب ہیں؟ ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی صاحب نے مجھے آپ کے متعلق بتا دیا تھا آئو آئو جی آیاں نوں! بیٹھو‘‘ میں ساتھ رکھی ہوئی لکڑی کی بنچ پر بیٹھ گیا تو فوراً چھوٹے کو آواز دی وہ دوڑتا ہوا آیا تو اسے حکم دیا کہ جلدی سے شربت صندل بنا کر لے آئو۔ وہ ایک بڑا سا گلاس بنا کرلایا تو کہا کہ انہیں پیش کرو پھر مجھے کہنے لگے گرمی کے وقت آئے ہیں پہلے ٹھنڈا ٹھنڈا شربت پی لیں تاکہ گرمی کا اثر ذرا کم ہو پھر بات کریں گے۔ یہ شربت صندل ان کی نگرانی میں بنا ہوگا، اس لئے خالص اور شیریں تھا۔ میں شربت پی چکا تو انہوں نے اپنی موٹی آنکھیں میرے چہرے پر ڈالتے ہوئے کہا ’’کیا حال احوال ہیں، کیا آپ حضرت مجدد صاحب کے عنوان پر کچھ تحقیقی کام کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا جی ہاں! اس سلسلے میں آپ سے رہنمائی حاصل کرنے حاضر ہوا ہوں‘‘۔ کہنے لگے ’’جی جی! ڈاکٹر صاحب تو ویسے ہی اپنے شاگردوں کو میرے پاس بھیج دیتے ہیں۔ میں تو خود ایک طالب علم ہوں آپ آیا کریں گفتگو ہو جایا کرے گی۔ باقی میں کس قابل ہوں کہ آپ کی رہنمائی کر سکوں۔ آپ بزرگوں کی اولاد ہوں۔ ہمارے لئے دعا کیا کریں‘‘ میں سوچنے لگا کہ حکیم صاحب کیسی سادگی سے اپنا علمی مقام چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں جن کے علمی مرتبے اور تحقیقی کام سے تعلق کا ایک زمانہ گواہ ہے وہ اتنی سادگی سے پیش آرہے ہیں۔ ورنہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں تھوڑی سی شہرت بھی ہضم نہیں ہوتی اور جیسے ہی ذرا سے مشہور ہوتے ہیں اپنے آپ کو کیا کچھ سمجھنے لگتے ہیں اور خوامخواہ اپنا خود ساختہ علمی دبدبہ اور رعب مسلط کرنے کی شعوری اور لاشعوری کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بات سے بات آگے بڑھی تو میں نے حکیم موسیٰ امرتسری سے دریافت کیا کہ آپ حضرت مجدد صاحب پر تحقیق کے لئے کون کون سی کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیں گے۔ حکیم صاحب اپنے مخصوص انداز سے مسکرائے اور پوپلے مونہہ سے کہنے لگے کسی اور کی کتابیں تو بعد میں پڑھیے گا پہلے حضرت مجدد کو خود پڑھیے۔ کیا آپ نے مکتوبات مجدد الف ثانی پڑھے ہیں؟‘‘ میں نے بتایا کہ میں نے ابھی پڑھنا شروع کئے ہیں لیکن میں کچھ اور متعلقہ کتابیں بھی پڑھ رہا ہوں کہنے لگے ’’صاحبزادہ صاحب آپ اچھی طرح سے مجدد صاحب کو ہی پڑھ لیں تو کسی اور کو پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ ہاں آپ دوسروں کا حوالہ بھی دے سکتے ہیں‘‘ باتوں باتوں میں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ حضرت مجدد صاحب کے دور سے متعلق کون سی کتاب تاریخی حوالوں کے لئے پڑھ رہے ہیں؟ میں نے پوچھا آپ ہی بتائیے۔ کہنے لگے عبدالقادر بدایونی کی ’منتخب التواریخ‘ کو پڑھیے اور ہاں آپ رئیس احمد جعفری کی ’’اوراق گم گشتہ‘‘ کے متعلقہ حصے بھی دیکھ لیں آپ کے مقالے کے لئے مفید رہیں گے۔ پھر انہوں نے حضرت مجدد الف ثانی کی فکری تحقیق پر بڑے آسان اور عام فہم انداز سے گفتگو کی، کچھ دیر بعد چھوٹے کو پھر آواز دی اور حکم دیا کہ صاحبزادہ کے لئے ’’خمیرہ گازبان‘‘ لے آئو میں نے معذرت کی کہ میرے لئے خمیرہ نہ منگوائیں لیکن انہوں نے اصرار کے ساتھ کھلایا کہ اس سے طاقت آتی ہے اور ذہنی ضعف دور ہوتا ہے۔ خمیرہ بے حد لذیذ اور میٹھا تھا اور اس سے زیادہ میٹھی ان کی باتیں تھیں، میں اٹھنے لگا تو فرمایا پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد نے امام احمد رضاؒ اور تحریک ترک موالات کے حوالے سے جو لکھا ہے وہ بھی پڑھ لیجئے۔ اس سے آپ کو ایک وسیع پس منظر سمجھتے میں آسانی ہوگی۔ حکیم صاحب سے چند اور ملاقاتیں بھی ہوئیں اورہر بار ان کی میٹھی باتوں کے ساتھ ساتھ مقوی ’’خمیرہ گازبان‘‘ کے ذائقے اور مٹھاس سے لطف اندوز ہوتا تھا۔


.
تازہ ترین