نوجوانو! پہلے سوچو، سمجھو، پرکھو، پھر ووٹ دو

June 30, 2018

گزشتہ ہفتے کی بات ہےکہ سوشل میڈیا پر ہمارے ایک دوست نے ایک سیاسی اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کیا، بس پھر کیا تھا، دو نوجوان اختلاف رائے کی بنیاد پرایک دوسرے سے الجھ پڑے۔ بات صرف اختلاف رائے یا بحث و مباحثے تک بھی ہوتی تو مناسب تھا، لیکن انہوں نے تو اخلاقیات کی دھجیاں ہی بکھیر دیں،ایک دوسرے کے خلاف ، جو زبان استعمال کی، وہ ’’نشتر‘‘ محسوس ہو رہے تھے ، جو وہ ایک دوسرے پر بر سارہے تھے، ایسامحسوس ہو رہا تھا ، اگر دونوں نوجوان ایک دوسرے کے سامنے ہوتے تو شاید دست وگریبان ہونے میں بھی دیر نہ لگاتے۔ بحث کا عنوان ’’سیاست‘‘ لیڈرز تھے۔ ایک دوست نے کسی لیڈر کے خلاف بات کر دی، جودوسرے دوست کی پسندیدہ شخصیت تھی۔ یہ بات تو درست ہے کہ سیاسی قائدین کے لیے ان کے پیرو کار جان تک نچھاور کرنے سے گریز نہیں کرتے اورنسل نو سوشل میڈیا پر تو با لکل ہی بے قابو ہو جاتی ہے، مگر اس طرح کی غیر اخلاقی زبان کا استعمال دیکھنے کا اتفاق پہلی مرتبہ ہوا، جوانتہائی حیران کن اور افسوس ناک تھا،کیوں کہ بحث و مباحثہ کرنے والے غیر تعلیم یافتہ یا عقل و شعور سے نابلد نہیں بلکہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔

کہتے ہیںتعلیم عقل و شعور کو چار چاند لگا دیتی ہے،جہالت کے اندھیروں کا خاتمہ کرتی ہے ، لیکن پڑھے لکھے نوجوانوں کا یہ طرز عمل تو اس بات کے منافی نظر آتا ہے۔کیا ہماری نسل نو میں اتنی بھی برداشت نہیں ہے کہ مخالفین کی بات کا مدلل جواب دے سکے؟ان کی رائے کااحترام کر سکے؟کیا یہ وہی نوجوان ہیں، جنہیں علامہ اقبال نے شاہین سے تشبیہہ دی ہے؟ کیا سیاسی رہ نماؤں کی محبت اتنی حاوی ہوچکی ہے کہ ہماری نسل نو اخلاق، تمیز ، تہذیب سب فراموش کر چکی ہے؟کہتے ہیں سیاست ایک دلدل ہے جس میں دھنستے چلے جاتے ہیں ،بہ ظاہر تو ایسا لگتا کہ اس دلدل میں دھنس کر نوجوان اخلاق ، تمیز ، تہذیب سب بھلا بیٹھے ہیں۔ہمیں ایک دوسرے کےنظریات کو سمجھنا اور مخالفین کی بات کو بھی بھر پور توجہ سے سننا چاہیے، مگر اختلاف رائے پر شدید رد عمل اور سیاسی عدم برداشت کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ ہمارے ملک کا شمار دنیا کے ان چند خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جن کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ،وہ چاہیں، تو کیا کچھ نہیں کر سکتے؟ ان کا جوش و جذبہ اورخود اعتمادی ملک کی تعمیرمیں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے، مگر جب تک نسل نو خود اپنی طاقت ، اپنی اہمیت نہیں پہچانے گی،اور اپنے جذبے کو درست سمت میں استعمال نہیں کرے گی، تب تک وہ ملک و قوم کے کسی کام نہیں آسکتی۔ ایک زمانہ تھا، جب طلبا یونینز تھیں، جن کا حصہ بن کر مستقبل کے لیڈروں کی تربیت ہوتی تھی، تعلیمی اداروں میں صحت مند سرگرمیاں فروغ پاتی تھیں، مخالفین کی بات سننے ، انہیں دلائل سے قائل کرنے کا حوصلہ پروان چڑھتا تھا، جب طلباء یونینز پر پابندی عائد ہوئی تو ان کی جگہ سیاسی تنظیموں نے لے لی ، تعلیمی اداروں میں سیاسی تنظیموں کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا، جس نے بگاڑ پیدا کیا،یہی وجہ ہے کہ اب جب نوجوان کالج یا یونیورسٹی جانے کے قابل ہوتے ہیں ،تو والدین انہیں خاص ہدایات دیتے ہیں ، کہ کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہونا اور نہ ہی ایسے دوست بنانا جن کا تعلق کسی سیاسی تنظیم سے ہو ،کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ سیاسی جما عتیں انہیں اپناکارکن بنا کر صرف انہیںاپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں، انہیں نعرے لگوانے، جلسے جلوس کروانے کے لیے نئے خون ، جوش و ولولے سے بھرپور نوجوانوں کی ضرورت ہوتی ہے ،تاکہ وہ ان کی سیاست چمکانے کے کام آسکیں۔ ان کا مقصد نوجوانوں کی فلاح بہبود نہیں ہوتا بلکہ انہیں کچھ جاں نثار چاہیے ہوتے ہیں ، وہ اچھی طرح جانتےہیں کہ نوجوانوں کا جوش و جذبہ کس طرح اپنے مفاد کے لیے کیش کروایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں جب وطن عزیز میں نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، تو اسی کے ساتھ کئی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں، جن میں سب سے اہم تبدیلی نسل نو کا سیاست اور سیاسی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے۔ ریڑھی لگانے والےنا خواندہ نوجوان سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تک ،سیاسی معاملا ت پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ان کا اپنا ایک الگ نظریہ ہے۔ 2013 ء میں ہونے والے عام انتخابات پاکستان کی تاریخ کے اہم انتخابات میں سے ایک تھے کیوں کہ اس میں وو ٹ ڈالنے والوں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی ،اسی وجہ سے تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم کے دوران نوجوانوں کو مخاطب کیا اور انہیں انتخابی مہم میں بھی توجہ کا مرکز بنائے رکھا اوراب جولائی 2018، جس میں عام انتخابات ہورہے ہیں، سیاسی میدان سج رہے ہیں، جلسے جلوس ہو رہے ہیں، سیاسی جوڑ توڑ جا ری ہے، ان انتخابات میں پہلے سے کہیں زیادہ ہر سیاسی جماعت کی توجہ کا مرکز و محور نسل نوہے،ہر کسی کی خواہش ہے کہ نوجوان ان کا ساتھ دیں، ان کی جماعت کو سپورٹ کریں، ان کے جلسوں کی رونق بڑھائیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ 2013 کےعام انتخابات میں بھی تو نوجوانوں میں جوش و جذبہ تھا، انہوں نے سیاسی جلسوں میں نعرے لگائے تھے، رونقیں بڑھائی تھیں، مخالف جماعتوں کے کارکنوں یا حامیوں سے بھی لڑائی کی تھی،انتخابات کے بعد فتح یاب ہونے والی جماعت کے جلسوں میں شرکت بھی کی ، اور سیاسی دھرنوں میں بھی شامل ہوئے ،مگر نتیجہ کیا نکلا؟وہی ڈھاک کے تین پات کیا انہوں نے ، جو وعدے آپ سے کیے تھے وہ پورے ہوگئے؟نہیں ناں؟ تواس مرتبہ کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی لیڈر کے لیے لڑنے مرنے سے پہلے ان کی سابقہ کار کردگی پر ضرور نظر ڈال لیجیے گا، کہیں ایسا نہ ہو کہ 2018کے انتخابات کے بعد پہلے کی طرح آپ کے لیڈر اور ان کے ہم نوا اقتدار کی کرسیاں سنبھال کر بیٹھ جائیں اور آپ منہ دیکھتے رہ جائیں۔اپنے روزگار اور مسائل کے حل کے لیےایک سے دوسرے دفتر چکر لگاتے رہیں۔گرچہ آج تک تو بیش تر سیاسی جماعتوں کا منشور منظر عام پر نہیں آیا،لیکن پہلےکے منشور پڑھ لیں،تعلیم، کھیل اورروزگارکا ذکر سرسری طور پرہی نظر آئے گا، مگر عملی اقدامات صفر ہی رہے۔کیا صرف نعروں اور وعدوں سے کسی کا پیٹ بھر سکتا ہے؟ روزگار مل سکتا ہے؟ معیاری تعلیم مل سکتی ہے؟ سیاسی جماعتوں کے جلسوں کی رونق بھی نسل نو ہے، جنہیں سیاسی لیڈر ’’ وعدوں‘‘کے جال میں پھنسا رہے ہیںاور نوجوان اپنے سنہرے مستقبل کی آس اور امید لگائے، پھر سے ان کے پیچھے چل رہےہیں۔انہیں اب بھی علم نہیں کہ ہمارے الیکشن کا موسم ختم ہوتے ہی ’’رول ماڈلز، خیر خواہ‘‘ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجائیں گے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ متوسط طبقے کے نوجوانوں کو ہمیشہ ہر سیاسی جماعت نے اپنا امیدوار بنانے سے اجتناب کیا، جب کہ انتخابات کے دنوں میں ان ہی سے ووٹ مانگا جاتا ہے، انہیں مستقبل کے سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں۔پچھلے انتخابات میں بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں گنتی کے جوچند نوجوان منتخب ہو کرآئے ، وہ بڑے بڑے سیاسی خاندانوں اور جاگیرداروں کے چشم و چراغ تھے۔نوجوانو ،ذرا سوچو! جب تک متوسط طبقے کےنوجوانوں کو قانون ساز اداروں میں مناسب نمائندگی نہیں ملے گی، ان کے مسائل کیسے حل ہو سکیں گے، وہ کیسے آگے بڑھیں گے۔

نوجوانوں کا سیا ست میں دل چسپی لینا انتہائی خوش آئندہے،اگر سیاست دان چاہیں،تونسل نو میں سے بہترین لیڈرز تیار کر سکتے ہیں۔ انہیں سکھا سکتے ہیں کہ تنقید کا سامنا کس طرح کیا جاتا ہے؟، مخالفین کو کس شائستگی سے خاموش کروایا جاتا ہے ،مگر افسوس کہ کسی کو اس بات سے کوئی سرو کار نہیں کہ نوجوان کس سمت جا رہے ہیں، ان کی تربیت مناسب انداز میں ہو رہی ہے یا نہیں۔ لیکن وہ یہ سب اسی وقت کر سکتے ہیں، جب ان میں خود برداشت اور مخالفین کا جواب مدلل انداز میں دینے کی اہلیت ہوگی، بد قسمتی سے ہمارے سیاست دان ہی تقریروں کے وقت تمام تر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں، تو ان کے پیروکار یا جاں نثار وں سے کیسے تہذیب کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ سیاسی قائدین نے نوجوانوںکو عدم برداشت ، مخالفین پر لعن طعن کرنا اور غیر مہذب زبان کا ستعمال کرنا سکھادیا اور اب توعالم یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی رہ نما یا جماعت کے خلاف بات کی جائے ،تو سوشل میڈیا پر ایسی غیر اخلاقی زبان پڑھنے کو ملتی ہے کہ شک ہونے لگتا ہے کہ کیا واقعی یہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی زبان ہے؟ نوجوان دوستو! سیاست میں دل چسپی ضرور لو، کسی سیاسی جماعت سے وابستگی بھی کوئی بری بات نہیں ہے، لیکن آپ کی ذمے داری ہے کہ آنکھیں کھلی رکھیں ،دماغ اور تعلیم کا درست استعمال کریں ، یہ سمجھیں کہ اختلافِ رائے کوئی جرم نہیں بلکہ جمہوریت کا حصہ ہے اگر آپ کسی کو قائل کرنا چاہتے ہیں ،تو منطقی دلائل سے کریں،لڑائی جھگڑے یا غیر مہذب زبان کا استعمال کسی بات کا حل نہیں ہوتا۔ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں، تاکہ آپ ہی کا نہیں ملک کا مستقبل بھی تاب ناک ہو۔