کلدیپ نیر کا دل اقلیتوں کے لیے دھڑکتا تھا

September 09, 2018

شاہد صدیقی ، دہلی، بھارت

کلدیپ نیّر میرے لیے باپ کی طرح تھے، تو ایک استاد، ایک دوست اور ایک ساتھی بھی۔ اُن کا دنیا سے جانا صحافت ہی کے لیے نہیں، سیاست اور ڈپلومیسی کے لیے بھی ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ اُن کی موت، مُلک کے ہر مظلوم، مجبور، بے بس، بے کس انسان کے لیے کسی ذاتی صدمے کی مانند ہے، خواہ وہ دلت ہو یا کسی اقلیتی برادری کا فرد۔ بلاشبہ اُن کی وفات سے مُلک آئین، حق وانصاف اور انسانی حقوق کے ایک بہت بڑے محافظ سے محروم گیا۔ کلدیپ نیّر کی موت 95سال کی عُمر میں ہوئی‘ مگر اُن سے تعلقات کے 60برسوں میں مجھے کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ ہمیشہ ایک ایسے نوجوان کی طرح لگتے، جو بہتر بھارت کی تعمیر میں مگن ہو اور جسے کم ازکم مزید 100برس اور جینا ہو۔ اُن کے بڑھاپے کے باوجود، اُن کی موت ہم سب کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھی۔کلدیپ نیّر سیال کوٹ میں پیدا ہوئے، لاہور میں تعلیم حاصل کی۔ اُردو کے متوالے تھے، کیوں کہ اقبال اور حفیظ کو پڑھ کر جوان ہوئے تھے۔ تقسیمِ وطن اُن کے لیے سب سے بڑا صدمہ تھا، جو اُنھیں عُمر بھر ستاتا رہا۔ اُن کے دماغ نے تو 1947ء ہی میں تقسیم کی حقیقت کو قبول کرلیا تھا‘ مگر اُن کے دل نے عُمر کے آخری دن تک بھی تقسیمِ ہند کو قبول نہیں کیا۔

اردوصحافت

کلدیپ نیّر بھارت آئے‘ تو اُردو صحافی بننے کے شوق میں’’ بلیماران‘‘ کے’’ حویلی حسّام الدّین محلّے‘‘ میں پہنچ گئے‘ جو اُس وقت اُردو صحافت کا مرکز تھا۔ روزنامہ’’ انجام‘‘،’’نئی دنیا‘‘ اور’’ الجمعیۃ‘‘ اُسی علاقے سے نکلتے تھے۔ وہاں کلدیپ کی ملاقات عظیم انقلابی، مولانا حسرت موہانی اور میرے والد، مولانا عبدالوحید صدیقی سے بھی ہوئی۔ میرے والد نے اُنھیں کہا کہ’’ میاں! تمہارا مستقبل انگریزی صحافت میں ہے‘ یہاں تو ہم اِس وقت پیٹ پر پتھر باندھ کر اُردو کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔‘‘ نتیجہ یہ ہوا کہ کلدیپ انگریزی صحافت کی طرف چلے گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مُلک کے مقبول ترین صحافی بن گئے۔’’ اسٹیٹسمین‘‘ اور’’ انڈین ایکسپریس‘‘ جیسے معروف انگریزی روزناموں کے ایڈیٹر رہنے کے علاوہ، پنڈت گووندبلبھ پنت اور لال بہادر شاستری جیسے لیڈروں کے مشیر رہے۔میرا کلدیپ نیّر سے تقریباً پوری زندگی کا ساتھ ہے۔ جب مَیں نے دلّی کالج سے سیاسیات میں بی اے کیا‘ تو والدِ محترم سے کہا کہ’’ مَیں انگریزی صحافت میں جانا چاہتا ہوں۔‘‘ والد نے فوراً کلدیپ نیّر کو فون کیا اور مجھے اُن کے پاس بھیج دیا۔ نیّر صاحب اُس وقت مشہور روزنامے’’ اسٹیٹسمین‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ کناٹ پلیس میں واقع،’’ اسٹیٹسمین‘‘ کے دفتر پہنچا، تو نیّر صاحب اس محبّت اور خلوص سے ملے، جیسے چچا، اپنے بھتیجے سے ملتا ہے۔ کہنے لگے،’’ بیٹا! صحافی بننے کو ابھی وقت پڑا ہے۔ تم تعلیم میں اتنے اچھے اور ہونہار ہو، تمہیں آئی اے ایس بننا چاہیے۔ ایم اے کرو اور دنیا فتح کرلو۔ صحافت میں کوئی بہتر مستقبل نہیں ہے۔‘‘ اُس وقت انگریزی کے اچھے سے اچھے صحافی کو بھی دو، ڈھائی سو روپے تن خواہ ملتی تھی۔

عجب اتفاق

مجھے چَین کہاں تھا۔ لہٰذا اُن کے مشورے کے باوجود اُردو صحافت میں قدم بڑھادیا اور ایم اے کرنے کے ساتھ، 1973ء میں ہفت روزہ’’ نئی دنیا‘‘ کا اجرا کردیا۔ والد صاحب نے مجھے کبھی کسی کام سے نہیں روکا۔ اُدھر مولانا عثمان فارقلیط نے بھی میری حوصلہ افزائی کی اور چند ماہ ہی میں’’ نئی دنیا‘‘ اُردو کا مقبول ترین ہفت روزہ بن گیا۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ میرے والد کی شہ پر کلدیپ اُردو سے انگریزی صحافت میں آئے اور مَیں، کلدیپ کی وجہ سے انگریزی سے اردو صحافت میں آگیا۔ اگر اُس دن نیّر صاحب مجھے نوکری دے دیتے، تو شاید آج مَیں انگریزی صحافی ہوتا اور اُردو سے دُور چلا گیا ہوتا۔ اس کے لیے تاحیات نیّر صاحب کا احسان مند رہوں گا۔

ایمرجینسی کے خلاف آواز

مُلک میں ایمرجینسی لگی‘ تو بڑے بڑے صحافیوں نے اندرا گاندھی کے سامنے گُھٹنے ٹیک دیے۔ میرے والدِ محترم اور’’ نئی دنیا‘‘ کے ایڈیٹر، مولانا عبدالوحید صدیقی80سال کی عُمر میں اگلے ہی دن گرفتار کر لیے گئے۔ کلدیپ نیّر آزاد تھے‘ مگر بے چین تھے۔ اُنہوں نے ایمرجینسی کے خلاف آواز اٹھانی شروع کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اُنہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ ایمرجینسی کے خلاف انگریزی صحافت سے صرف ایک شخص ہی آواز بلند کر رہا تھا، وہ تھا کلدیپ نیّر۔

شریکِ حیات

کلدیپ نیّر کی طاقت، جوش و جذبہ، تجسّس، ہمّت اور حوصلے کی ایک دنیا معترف ہے، لیکن اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اُن کی سب سے بڑی طاقت، اُن کی شریکِ حیات، بھارتی جی تھیں۔ بھارتی جی، مشہور جج، جسٹس راجندر سچر کی بہن اور پنجاب کے پہلے وزیرِ اعلیٰ، بھیم سین سچر کی بیٹی ہیں۔ اُنہوں نے ہمیشہ کلدیپ کو حوصلہ دیااور ہمیشہ اُن کے ساتھ نظر آئیں۔ اُن کی ہر لڑائی میں اُن کے قدم سے قدم ملاکر چلیں۔ بھارتی جی نے کبھی کلدیپ کے اندر کے معصوم بچّے کو مرنے نہیں دیا۔ 90سال کی عُمر میں بھی کلدیپ نیّر میں ایک بچّے جیسا تجسّس اور معصوم مُسکراہٹ تھی۔ اُن کا بھولاپن، اُن کا ہر عُمر کے لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے کا انداز‘ اُن کی سب سے بڑی خوبی تھی۔

’’نئی دنیا‘‘ کے ایڈیٹر

مَیں1986 ء میں اُس وقت کے وزیرِ داخلہ، ارون نہرو سے ٹکرلینے کے نتیجے میں’’ٹاڈا‘‘ کے تحت جیل گیا، تو قریبی لوگ بھی حکومت کے خوف سے دُور بھاگ گئے۔ اُس وقت کلدیپ نیّر میرے دفتر آئے اور’’ نئی دنیا‘‘ کو زندہ رکھا۔’’ نئی دنیا‘‘ کا شمارہ میری غیر موجودگی میں کلدیپ نیّر ہی نے ایڈٹ اور شایع کیا۔ نیز، مجھ سے ملنےتہاڑ جیل بھی آئے اور کہا’’بیٹا! جیل جاکر اب تم، ہم جیسے بڑے صحافیوں کی صف میں شامل ہوگئے ہو۔‘‘

بھارت، پاک دوستی

ہم نے نیّر صاحب کے ساتھ مل کر ہمیشہ ہند، پاک دوستی کی جدوجہد کی۔ کلدیپ 14اگست کو پیدا ہوئے، یعنی جس دن پاکستان بنا اور مَیں 15اگست کو، جس دن بھارت بنا۔ ہم دونوں اکثر اپنی سال گرہ امرتسر میں واہگہ بارڈر پر مناتے تھے، جہاں ایک طرف ہزاروں متوالے ہاتھ میں موم بتیاں لے کر، محبّت کے گیت گاتے ہوئے بھارت، پاک بارڈر کی طرف بڑھتے، تو دوسری طرف سے بھی ہزاروں پاکستانی ہاتھ میں شمع لیے، پھول برساتے ہماری طرف آتے۔ مَیں اور کلدیپ نیّر کئی بار پاکستان گئے۔ بدترین حالات میں بھی ہم نے دونوں مُلکوں کے درمیان محبّت کی شمع کو بجھنے نہیں دیا۔ مَیں2002ء میں رُکن پارلیمنٹ بن کر راجیہ سبھا میں آیا، تو نیّر صاحب پہلے ہی سے اُس کے رُکن تھے۔ ہمارے پاسپورٹ پر سارک کا ویزا لگ گیا، جس کی مدد سے ہم پاکستان میں آزادانہ طور پر آ جا سکتے تھے۔ 2002ء میں پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملے کے بعد دونوں مُمالک کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھیں اور بارڈر سِیل تھے۔ کوئی اِدھر آسکتا تھا، نہ اُدھر جاسکتا تھا۔ اُس وقت پردھان منتری، شری اٹل بہاری واجپائی نے مجھے اور نیّر صاحب کو بلوایا اور کہا’’ تم لوگ پاکستان جائو اور حالات بہتر بنانے میں مدد کرو۔‘‘ ہم دونوں واہگہ بارڈر پیدل پارکرکے لاہور پہنچے، تو دیکھا کہ کلدیپ پاکستان میں بھارت سے بھی زیادہ مقبول تھے۔ لاہور ایک لحاظ سے نیّر صاحب کا دوسرا گھر تھا۔ ہم لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں سیکڑوں افراد سے ملے۔ سیاسی رہنماؤں سے گفتگو کی۔ صحافیوں سے باتیں ہوئیں، جلسوں میں تقریریں کیں اور اس نتیجے پر پہنچے کہ دونوں مُمالک کے درمیان خوش گوار تعلقات ازحد ضروری ہیں۔ ہم نے واپس آکر وزیرِ اعظم، اٹل بہاری واجپائی سے کہا کہ’’ آپ یک طرفہ طور پر بارڈر کھول دیجیے۔‘‘ مَیں نے کہا’’ اٹل جی! اگر آپ کشمیر میں مظفّرآباد روڈ کھول دیں اور اس پر بس چلادیں، تو یہ دونوں طرف کے کشمیری عوام کے لیے بہت بڑی نفسیاتی جیت ہوگی اور اس سے حالات بدل جائیں گے‘‘۔ میری بات پر اٹل جی مُسکرائے اور اپنے مخصوص انداز میں اُس وقت کے وزیرِ خارجہ، یشونت سنہا کی طرف دیکھا۔ سنہا صاحب زور سے ہنسے، کہنے لگے’’ پاکستانی نہیں بدلنے والے۔ لگتا ہے، شاہد صاحب آپ کو پاکستانیوں نے بہت اچھے کباب اور بریانی کھلادی ہے۔‘‘ اس پر نیّر صاحب بولے’’ یشونت جی! شاہد کو کیا پاکستانی کباب کھلائیں گے، مَیں نے تو زندگی میں سب سے اچھے کباب شاہد کے گھر ہی میں کھائے ہیں۔‘‘ مجھے لگا کہ کچھ نہیں ہوگا‘ مگر اُس وقت حیران رہ گیا، جب اٹل جی نے اگلے ہی ہفتے یک طرفہ طور پر بارڈر کھولنے کا اعلان کردیا اور پھر ایک مہینے بعد کشمیر جاکر مظفّرآباد روڈ کھولنے کا بھی اعلان کر دیا۔کلدیپ نیّر کو کھانے کا بہت شوق تھا، جس محبّت سے کھانا کِھلاتے، اُسی شوق سے کھانا کھاتے بھی تھے۔ ہر عید پر بھارتی جی کے ساتھ، ہمارے گھر عید منانے آتے۔ لاہور جا کر کہتے’’بھئی تمہارے کباب تو بہت اچھے ہیں، مگر جو کباب ہمارے شاہد کے یہاں ملتے ہیں، اُن کا جواب نہیں۔‘‘ نیّر صاحب کے یہاں کسی قسم کی بناوٹ یا احساسِ برتری نہیں تھا۔ وہ دِل کھول کر ہر انسان کی تعریف کرتے۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور چاہتے کہ ہر شخص زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھے۔

مضمون نگار کی عہد ساز صحافی، کلدیپ نیر کے ساتھ مختلف تقاریب میں تصاویر

اقلیتوں کے لیے دھڑکتا تھا دِل

کلدیپ نیّر کا دل ہر مظلوم کے ساتھ دھڑکتا تھا‘ مگر اُنہیں سب سے زیادہ فکر بھارتی مسلمانوں کی تھی۔ وہ خود تقسیمِ وطن کے مارے ہوئے تھے، اسی لیے تقسیم کی چوٹ کھائے بھارتی مسلمانوں کے درد کو پوری طرح محسوس کرتے تھے۔ مَیں نے نیّر صاحب کے ساتھ بہت سے فسادات کی رپورٹ تیار کی۔ نیّر صاحب بلاخوف مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف لکھتے، آواز اٹھاتے اور کہتے تھے کہ’’ جب تک بھارت میں مسلمان محفوظ ہیں، بھارت محفوظ رہے گا۔‘‘ جمشید پور کا فساد، بھاگلپور کا قتلِ عام، مُراد آباد کی لہولہان عید ہو یا ہاشم پورہ میں پولیس کی گولیاں۔ ممبئی کا بھیانک فساد ہو یا گجرات کا قتلِ عام، کلدیپ نیّر کا قلم ہمیشہ اقلیتوں کے حق میں شمشیر بن کر اٹھتا اور حکم رانوں پر وار کرتا رہا۔

آج جب بھارتی سیکولر ازم خطرے میں ہے، بھارت، پاک تعلقات اندھیرے میں ہیں اور جمہوریت پر بھی آنچ آرہی ہے، تو اس پر آواز اٹھانے کے لیے جسٹس سچر رہے اور نہ کلدیپ نیّر۔ آج بھارت کو سچر اور نیّر کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ 1947ء میں اُنہوں نے امید کا چراغ جلاکر نفرت کے اندھیرے کو دُور بھگایا تھا۔ آج نفرت کی اس آندھی میں یہ چراغ کون جلائے گا؟ کون امید کی اس شمع کو روشن رکھے گا؟ ہمیں ہر لمحے، ہر قدم پر سچر اور نیّر کی یاد آتی رہے گی۔ ہمارا خراجِ عقیدت تو بس اتنا ہی ہے کہ ہم امید اور محبّت کی اس شمع کو روشن رکھیں۔ بدترین آندھی اور طوفان میں بھی اسے بجھنے نہ دیں۔ جب تک محبّت اور بھائی چارے کی یہ شمع روشن ہے، کلدیپ نیّر زندہ رہیں گے۔ ہمارے درمیان موجود رہیں گے اور ان سنگلاخ راستوں پرہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔

( مضمون نگار، دہلی سے شایع ہونے والے کثیرالاشاعت ہفت روزے’’ نئی دنیا‘‘ کے چیف ایڈیٹر، انڈین ٹی وی کے معروف تجزیہ کار، کمنٹیٹر ہیں۔ رُکن پارلیمنٹ اور سماج وادی پارٹی کے جنرل سیکریٹری رہ چُکے ہیں۔ 2004 ء سے 2009 ء تک’’ انڈیا، پاکستان فورم آف پارلیمنٹرینز‘‘ کے چئیرپرسن رہے اور کلدیپ نیّر اور نرملا دیش پانڈے کے ساتھ مل کر جنوب ایشائی ممالک میں امن و دوستی کے فروغ کے لیے قابلِ ذکر خدمات انجام دیں۔ نیز، کلدیپ صاحب کے ساتھ تادمِ مرگ قربت و محبّت کے اِک اٹوٹ بندھن میںبھی بندھے رہے۔)