مغربی تہذیب اور جمہوریت کے گہوارے میں۔۔

September 08, 2018

(گزشتہ سے پیوستہ)

یہاں میوزیم میں ان کی تاریخ بھی محفوظ کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ولیم دی کنکرر 1066ء سے 1087ء تک رچرڈ 1جسے شیر دل کہا جاتا ہے 1189ء سے 1199ء تک ایڈورڈ 1272'1ء سے1307ء تک ہنری 1413'5سے1422تک ہنری 1485'6سے 1501 تک ہنری8 کی بڑی دلچسپ داستانیں ہیں کہ کس طرح اُس نے شادیاں کیں اور چرچ کو بھی زیر نگیں لے آیا یہ 1509ء سے لے کر 1547 تک حکمرانی کرتا رہا۔ کوئین الزبتھ 1558'1سے1603 تک اور چارلس1660'2 سے1685تک حکمران رہے۔ برطانیہ کی موجودہ کوئین الزبتھ 6فروری 1952کو موجودہ منصب پر فائز ہوئی تھیں اور برٹش ہسٹری کے مطابق اُن کا دور طویل ترین ہے ان سے پہلے یہ اعزاز ملکہ وکٹوریہ کو حاصل تھا جو 20جون1837 سے 22جنوری 1901ء تک ملکہ رہیں اس لیے یہاں برطانیہ میں ان کے اس عرصے کو وکٹورین ایرا بولا جا تا ہے۔

یہ درست ہے کہ برطانیہ میں بادشاہت ایک نمائشی عہدہ ہے اور تمام تر اختیارات عوام یا عوام کے منتخب نمائندوں کو بہت پہلے سے حاصل ہو چکے ہیں اور اس کا یا پلٹ کا کوئی ایک دن نہیں تھا بلکہ میگنا کارٹا جو 15جون 1215کو تشکیل پایا اور جسے گریٹ چارٹر آف لبرٹی کہا جاتا ہے سے شروع ہونے والی جدوجہد کی طویل داستان ہے اگرچہ ایڈورڈ 3 کے دور میں 1341ء میں ہاؤس آف کامن تشکیل پاگیا تھا مگر عوام بمقابلہ کنگ یا سویلین بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کی کشمکش تا دیر چلتی رہی اگرچہ جیت بالآخر عوام، جمہوریت اور انسانی عظمت و رفعت کی ہوئی جس کی وجہ سے کنگڈم نے خود کو عوامی طاقت کے سامنے سرنڈر کر دیا۔ کسی نے درست کہا تھا کہ دنیا میں بالآخر پانچ بادشاہ رہ جائیں گے چار تاش کے اور پانچواں برطانیہ کا۔۔۔

درویش کی طرح کئی جمہوری الذہن اشخاص ضرور خیال کرتے ہونگے کہ وہ ملک جو جدید جمہوریت کی جنم بھومی ہے جس کی پارلیمنٹ دنیا بھر کی تمام جمہورتیوں یا پارلیمنٹس کی ماں کہلاتی ہے وہاں نمائشی طور پر بھی بادشاہت کا ادارہ کیوں موجود ہے؟ اس امر کا احساس برطانیہ آکر ہوا۔ جس چیز کی جڑیں گہری ہونگی اس کا اکھڑنا بھی ویسا ہی پیچیدہ ہوگا اور پھر یہاں کے لوگ اپنی اچھی روایات کی اتنی پاسداری کرتے ہیں کہ انہوں نے کبھی باضابطہ تحریر ی آئین کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی اور بادشاہت جب عوامی حاکمیت کے سامنے سرنگوں ہوگئی تو اس کا سر کاٹنے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ یہ کامن ویلتھ ممالک میں ایک مشترکہ زنجیر کی طرح یکجہتی یا اشتراک کی علامت قرار پائی۔ مادام تساؤ میوزیم میں ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر نامہ ملاحظہ کیاکہ عوام میں کسی کے ساتھ تصاویر بنوانے میں اس قدر دلچسپی نہیں تھی جتنی ملکہ یا رائل فیملی کے ساتھ تھی ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی اگر عوام میں اس تاریخی عظمت کے بے ضرر سمبل ادارے کی یہ پذیر ائی نہ ہوتی تو کب کا یہ مٹ چکا ہوتا بلکہ ظالم بادشاہوں کی تو لوگ نشانیاں بھی مٹا دینا چاہتے ہیں ۔

برٹش امپائر دنیا کی وہ عظیم الشان سلطنت تھی جس کی قلمرو براعظم افریقہ، امریکا کے بیشتر خطے 13ریاستیں، کینیڈا، نیوفاؤنڈ لینڈ، سکینڈے نیوین ممالک، ایشیاء کے کئی ممالک، براعظم آسٹریلیا نیوزی لینڈ وغیرہ سب شامل تھے اکلوتی سپر پاور کی حیثیت جس کی حیثیت بلامبالغہ عالمی قیادت و امامت کی تھی آج اگرچہ یہ حیثیت پیمانے بدل کر امریکا کو حاصل ہو چکی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی سرحدیں دنیا کے ہر ملک سے ملتی ہیں لیکن اس کے پاس بھی طاقت کا شاید وہ طنطنہ نہیں ہو گا جو برطانوی سلطنت کو صدیوں حاصل رہا اس سب کے باوجود یہ لوگ اپنی ان فتوحات پر نہ اتراتے ہیں اور نہ دنیا کے سامنے قابلِ فخر بنا کر پیش کرتے ہیں بلکہ انسانی آزادیوں کے حوالے سے ان کی مذمت کرتے ہیں۔ سیاحت کرواتے ہوئے انگریز گائیڈ اپنی ایمپائر او ر اپنے آمروں کی زیاتیوں کے حوالے سے کھل کر اظہار خیال کر رہا تھا جبکہ ہم ہر چیز کو تقدس میں لپیٹنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج اگر دنیا ان کی تہذہب، نظریات، افکار اور قوانین کو اپنائے ہوئے ہے تو اس کی وجہ انگریزوں سے خدا واسطے کی محبت نہیں ہے اس حوالے سے ضرور غور کیا جانا چاہیے کہ ان کی تہذیب اور افکار و قوانین میں کوئی تو ایسی خاص خوبصورتی اور انسانیت کے لیے بار آور کشش ہے جو دنیا لپک کر اسی کو اپناتی ہے۔

درویش نے اپنی نوعمری میں اپنے بزرگوں کو انگریز حکومت کے فضائل بیان کرتے اور اسے جنوبی ایشیاء کے لیے رحمت قرار دیتے سنا ہے وہ بارہا کہتے کہ انصاف انگریزوں پر ختم تھا ہم نے تو نہ صرف نظام انصاف کا بلکہ آزادی کے بعد ہر ادارے کا بیٹر ا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔۔۔۔ یہاں لندن میں ہمیں اس وقت دلچسپ حیرت ہوئی جب ممتاز افسانہ نگار کلکتہ سے ہمارے دوست فہیم اختر صاحب بولے کہ برطانیہ کو ابھی کم از کم مزید ایک سوسال تک جنوبی ایشیاء میں رہنا چاہیے تھا۔جناب فہیم اختر ربع صدی سے یہاں لندن میں مقیم ہیں اسلام اور مسلمانانِ پاک و ہند کے لیے بڑی درد مندی رکھتے ہیں لکھاری ہونے کے ساتھ یہاں کی سماجی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور کلکتہ میں بھی اپنے لوگوں کے ساتھ خوب جڑے ہوئے ہیں۔ اپنے خوبصورت گھر میں انہوں نے ہمارے لیے پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا اور مختلف مقامات کی سیاحت بھی کروائی۔ ان سے ہماری دوستی چند برس قبل استنبول میں ہوئی تھی غالب اور کلکتہ کے حوالے سے ان کی گفتگو دلچسپ تھی۔

بات خوبصورتی کے حوالے سے ہورہی تھی جو قدرتی نظاروں کی صورت یہاں قدم قدم پر موجود ہے رہتی کسر اس پر عزم قوم نے اپنی محنت اور لگن سے نکال دی ہے ۔۔۔ جا بہ جا کمال کی Greenery ہے ہم اپنے ملک میں پالیوشن کا ہر وقت رونا روتے ہیں سٹرک پر چلنا ہو تو رومال ناک پررکھنا پڑتا ہے جبکہ یہاں اتنی شفاف فضا تھی کہ کھلی روڈز اور کھلی بسوں پر بھی کہیں کوئی ایشو محسوس نہیں ہوا۔ بلند و بالا اور دیوہیکل عمارات اس عظمت رفتہ کی تمام کہانیاں کھول کہ بیان کر رہی ہیں جس نے صدیوں تک اس قوم کی عظمت کا سکہ اقوامِ عالم میں بٹھائے یا چلائے رکھا جس کی بنیاد محض فوجی یا عسکری طاقت نہیں بلکہ علمی و فکری ترقی اور تہذیبی عظمت تھے۔ مطالعے کا ذوق پورا کرنے کے لئے ان کی لائبریریاں اور میوزیم جس وقت کا تقاضا کرتے ہیں وہ ہمارے پاس نہیں ہے یہاں کی انڈیا آفس میں جانے کا سوچ رکھا تھا مگر ممکن نہیں ہو سکا اب اگرچہ اس کا نام ’’لائبریری آف کامن ویلتھ ریلشنر آفس‘‘ ہے لیکن ماقبل یہ برطانوی وزارتِ ہند کا ایسا کتب خانہ تھی جس کی بنیاد ایسٹ انڈیا کمپنی نے رکھی تھی اس میں انڈیا سے متعلق انگریز حکمرانوں کی بیشتر دستاویزات محفوظ ہیں۔ خان عبدالولی خان صاحب نے اپنی کتاب Facts are secred یہیں مکمل کی تھی۔۔۔ اس میں انگریزی کے علاوہ جنوبی ایشیاء کی دیگر زبانوں میں بھی بھاری مواد موجود ہے کتابوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جن پر پاک و ہند ہر دو ممالک کے دعوے ہیں۔ اس کی وسعت کا اندازہ تنہا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ محض جناح صاحب پر اس لائبریری میں دس ہزار فائلیں 18ہزار تصاویر 27ہزار خطوط دو لاکھ اخباری تراشے اور دوسو دستاویزی فلمیں موجود ہیں۔ اسی طرح بشمول گاندھی جی جنوبی ایشیائی قیادت سے متعلق تفاصیل قابلِ ملاحظہ ہیں۔

ہم نے کہیں پڑھ رکھا تھا کہ جنگ عظیم کے دوران جب ہٹلر کی طرف سے لندن پر خوفناک حملے ہو رہے تھے عین اس وقت وزیراعظم برطانیہ سر ونسٹن چرچل کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ وہ پوچھتے کیا ہماری عدالتیں عوام کو انصاف دے رہی ہیں جواب اثبات میں سن کر کہتے کہ اے میری قوم پھر پریشانی کی کوئی بات نہیں Even This Shall passجنگ عظیم سے متعلق ایک اور دلچسپ چیز جو ہم نے پڑھ رکھی تھی اور یہاں میوزیم میں دیکھی وہ یہ کہ سلطنت برطانیہ کو دورانِ جنگ افرادی قوت یا رنگروٹ کی شدید ضرورت پڑ گئی تو اس حوالے سے خوب مہم چلائی گئی اس وقت اس نوع کے جو اشتہار شائع ہوئے ۔

ہم نے میوزیم میں ان کی تصاویر بھی بنائیں ہمارے یہاں لطیفہ ہے کہ محکمہ ریونیو کے لوگ رنگروٹس کی بھرتی کے لیے گھر گھر جاتے تھے ایک پٹواری نے جب کسی میراثی کے لڑکے کو بھرتی کرنا چاہا تو استفسار پر میراثی کو بتایا کہ ملکہء برطانیہ کو جنگ کے لیے آپ کے بیٹے کی ضرورت ہے وہ بولا ملکہ سے کہیے کہ اگر نوبت میراثی کے بیٹے تک آگئی ہے تو بہتر ہے کہ ملکہ صلح کر لے اور جنگ سے دستبردار ہو جائے۔ یہاں میوزیم کے درودیوار پر دلچسپ ہسٹری واقعی محظوظ کرتی ہے۔ میوزیم اور لائبریوں کے علاوہ ہماری تمنا تھی کہ گریٹ برٹرینڈرسلBertrand russell کی یادگار پر پہنچا جائے جو شاید برٹش میوزیم سے زیادہ دورنہ ہو کیونکہ یہ میوزیم ہم نے خاصی تفصیل کے ساتھ ملاحظہ کیا بہت سی تصاویر بھی بنائیں ۔یہاں نوادرات کی تصاویر بنانے پر اس نوع کی کوئی بندش نہ تھی جس کا سامنا ہمیں ترکی میں کرنا پڑا تھا۔ ہر ہر قدم پر اس قوم کی فکریِ آزادی ہمیں قابلِ تحسین لگی ۔ بہرحال یہ برٹش میوزیم جس گلی میں واقع ہے اس کانام ہی گریٹ رسل اسٹریٹ ہے۔ یوکے میں اسٹریٹ کا استعمال شاید پاکستان کی طرح یا اس سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے ۔۔۔ یہاں گھومتے ہوئے بارہا یہ احساس ہوتا ہے کہ’’ کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی‘‘ برطانیہ میں قائد کی مادر علمی لنکنزان جانے کی تمنابھی پوری نہ ہوسکی۔ اپنے دوست علی اسلم گورد اسپوری کے ساتھ کارل مارکس کی ابدی آرام گاہ پر جانے کا پروگرام بھی تھا لیکن ممکن نہ ہو سکا لندن کے بیچز کا نظارہ بھی کرنا تھا مگر وہی بات محبت تو کرتے مگر گھر کام ہے۔(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)